بیسویں صدی ختم ہونے میں تین برس باقی تھے جب مہاتیر محمد آئی ایم ایف کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور اپنا راستہ الگ کر لیا۔
کرنسی کے بحران نے سارے جنوب مشرقی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تھائی لینڈ،کوریا اورانڈونیشیا نے آئی ایم ایف کی امداد قبول کر لی تھی۔ ملائشیا نے انکار کر دیا۔
مہاتیر نے قوم کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ آئی ایم ایف کی امداد زنجیروں میں باندھ دے گی۔ عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ پالیسیاں ان کے ہاتھ میں چلی جائیں گی۔ مہاتیر نے کرنسی کی شرح مبادلہ آزاد چھوڑنے سے انکا ر کر دیا۔ آئی ایم ایف سے ہر طرح کا تعلق توڑ لیا۔ پوری دنیا کے ماہرین اقتصادیات ہنسے، مذاق اڑایا، ڈرایا کہ ملائشیا تباہ ہو جائے گا۔ مگر چھ سال بعد اسی آئی ایم ایف نے مہاتیر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، ستمبر 2003ء میں آئی ایم ایف کا سربراہ ہورسٹ کوہلر ملائشیا کے شہر پتراجایا میں مہاتیر سے ملا۔ اس موقع پر آئی ایم ایف کے سربراہ نے جو کچھ کہا اس پر وزیراعظم عمران خان کو غور کرنا چاہئے۔ ’’ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ملائشیا کی معیشت نے قابل تحسین کارکردگی دکھائی ہے۔ مہاتیر درست تھے! معیشت کی کارکردگی ثابت کر رہی ہے کہ مہا تیر نے درست فیصلہ کیا تھا۔ ملائشیا نے اپنے مالیاتی اور کارپوریٹ سیکٹروں کو مضبوط کرنے میں قابل قدر کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘
ایک زمانے سے سن رہے ہیں کہ مہاتیر محمد عمران خان کے آئیڈیل ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم کی دعوت پر وہ پاکستان آئے اور 23مارچ کی پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مہاتیر سے کیا سبق سیکھا۔ تازہ ترین خبر پڑھیے۔
’’آئی ایم ایف کے مطالبے پر اخراجات میں کمی کی نئی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا گیا جس کے تحت پنشن ختم اور ریٹائرمنٹ کی حد ساٹھ سال سے کم کر کے 55 سال کرنے کی پالیسی زیر غور ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے تنخواہوں اور پنشن کا بوجھ کم کرنے کیلئے سول سروس ریفارمز لانے کی تیاری شروع کر دی گئی تاکہ قومی سطح پر اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔ حکمت عملی کے تحت مستقبل میں تمام پبلک سیکٹر کمپنیوں، کارپوریشنوں اور مالیاتی اداروں میں نجی شعبے کی طرز پر بغیر پنشن کے نوکریاں دینے کی تجاویز ہیں۔ اس تجویز کے بارے میں آئی ایم ایف کو آگاہ کر دیا گیا۔ اعلیٰ سطح پر تجویز کی منظوری سے وفاقی سیکرٹریوں کی بڑی تعداد ریٹائر ہو جائے گی!! (روزنامہ 92نیوز)
اگر ان تجا ویز کو عملی جامہ پہنا دیا گیا تو پاکستانی ریاست آئی ایم ایف کی سکہ بند رکھیل کا منصب حاصل کر لے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کا نام تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل کر لے گا۔
ان تجاویز کے بہت سے ضمنی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ ساٹھ سال کے بجائے پچپن سال پر ریٹائر ہو کر سرکاری ملازمین میں جسمانی طاقت ضرور باقی ہو گی کہ وہ جتھے بنا کر ڈاکے مار سکیں۔ کیونکہ اکثریت ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہو کر بھی ذاتی مکان بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ بچوں کی شادیاں بھی کرنا ہوتی ہیں۔ پچپن برس کی عمر میں فارغ کر دیے گئے تو کم ازکم دہشت گردوں کا ساتھ دے کر گھر کا نان نفقہ تو چلا سکیں گے۔
غالباَ عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جو کچھ عرصہ پہلے آئی ایم ایف کی سربراہ سے مشرق وسطیٰ جا کر خود ملے۔ اکثر سربراہان حکومت ایسی ملاقاتوں کو پروٹوکول سے کم گردانتے ہیں!
خواب کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ امید تو یہ تھی کہ تارکین وطن ڈالروں کے دریا بہا دیں گے۔ یا تو وقت قیام آنے پر تارکین وقت نے ’’عقل مندی‘‘ دکھائی اور سجدے میں گر گئے یا تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں مایوس کیا اور انہوں نے ہاتھ کھینچ لیے۔ سعودی عرب نے بھی امداد دی۔ چین نے بھی۔ دوسرے ملکوں نے بھی ہمارے کشکول میں کھنکتے سکے ڈالے مگر آئی ایم ایف کی رسی پھر بھی گردن میں ڈالنا ضروری ہے!
ملک کو آئی ایم ایف کے ساہوکارے کے حضور گروی رکھ کر حضرت علامہ اسد عمر واپس اسی ملازمت پر چلے جائیں گے جہاں عام روایت کے مطابق وہ پچاس یا اٹھاون لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے۔ بطور وزیر خزانہ ان کی فتوحات مکمل ہو جائیں گی۔ مقصد حاصل ہو چکا ہو گا! تاریخ میں نام آ جائے گا!۔
کیا آئی ایم ایف صرف ان ملازمین کی پنشن پر کلہاڑی چلائے گا جو مستقبل میں ریٹائر ہوں گے؟ یا یہ ایکشن موثر بہ ماضی ہو گا؟ یعنی ان تمام ملازمین پر بھی جو اس فیصلے سے پہلے پنشن لے رہے ہیں، اس رحم دلانہ فیصلے کا اطلاق ہو گا؟ ان ملازمین میں سول کے علاوہ فوج کے سابق سپاہی بھی ہوں گے! کیا عجب آئی ایم ایف یہ شرط بھی مسلط کرے کہ ’’قومی بچت‘‘ (نیشنل سیونگز) کے ادارے کے تحت عوام کی جو پونجی حکومت کی تحویل میں ہے، وہ ضبط کر لی جائے تاکہ نہ رہے بچت کی رقم نہ دینا پڑے اس پر منافع!!
ڈالر کی قیمت ایک سو ساٹھ تک جانے کی صورت میں گرانی کی لہر اتنی بلند ہو گی کہ سر ڈوب جائیں گے۔ بقول فیض… پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو پایاب ہے جو موج، گزر جائے گی سر سے بجلی اور گیس کے نرخ رسائی سے باہرہو جائیں گے۔ تیل والے چراغ، شمعیں، قندیلیں، لالٹینیں واپس آئیں گی۔ ساتھ ہی پروانے بھی! پانی کی قلت پہلے ہی سے ہے!
یہ سارے اقدامات، ریٹائرمنٹ کی نئی عمر، پنشن کا خاتمہ، بجلی گیس کی گرانی، پانی کی کمیابی اور بہت سے دیگر اقدامات جن کا عوام تصور نہیں کر سکتے مگر تحریک انصاف کی قوت متخیلہ جن سے لبالب بھری ہے، یہ سارے اقدامات حکومت کے تابوت میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ کیا عجب عوام اسحاق ڈار کی واپسی کا مطالبہ کر دیں اور یوں ڈار صاحب انٹرپول کا وارنٹ گلے میں لٹکانے کے بجائے پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے واپس آئیں!
عمران خان کے سامنے دو راستے تھے۔ خالق پروردگار نے انسان کو دونوں چوائس عطا فرمائے ہیں۔ اِنا ھدیناہُ السبیل اِما شاکِرا و اِما کفورا۔ بے شک ہم نے اسے راستہ دکھایا۔ یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا۔ بائیس سال کی جدوجہد جس کا تذکرہ اہل پاکستان نے اتنا سنا کہ حفظ ہو گیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملا۔ مگر افسوس! انہوں نے بھی کاغذ سے کشتی ہی بنائی حالانکہ مہاتیر نے اسی کاغذ سے کشتی نہیں، سمندر بنایا تھا!۔ پنجاب انہوں نے بظاہر بزدار کو اور بباطن کسی اور کے حوالے کیا۔ یوں جس تجربہ گاہ کو وہ کے پی کے کا نام دیتے تھے، پنجاب کے معاملے میں بیکار ثابت ہوئی۔ وفاق میں مسلم لیگ نون، جی ڈی اے اور کچھ گروہوں کی چچوڑی ہوئی ہڈیاں مینو پر درج کیں اور ریستوران کے کاؤنٹر پر بیٹھ گئے۔ ریستوران چلنے سے پہلے ہی نقصان سے دوچار ہو گیا۔ اب کوئی اور کاروبار کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کو دھتکار کر عمران خان ایک اور مہاتیر بن سکتے تھے! جنوبی ایشیاکے مہاتیر، قوم خوشی سے صعوبتیں برداشت کرتی! اب یہ ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا پٹہ قوم کے گلے میں ہے۔ صعوبتیں اس بے حرمتی کے علاوہ ہیں! گرانی کا سربفلک پہاڑ سر پر اٹھائے، پٹے کا سرا آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے، قوم ڈگمگا رہی ہے! جلد آئی ایم ایف اسے گھسیٹ رہا ہو گا۔ کیونکہ ڈگمگانے والے لڑکھڑانے والے، زیادہ دور تک نہیں چل سکتے۔ جلد یا بدیر انہیں گھسیٹنا پڑتا ہے۔
تبدیلی افتخار ٹھاکر کے گیتوں تک ہی محدود رہی! وہی ہر حکومت کے ساتھ رہنے والے عشرت حسین، وہی ہر حکومت کے امیر المیڈیا یوسف بیگ مرزا۔
کوئی تیرو تبر اپنا بھی نکالا ہوتا
میرے ہی ا سلحہ سے اس نے گرایا ہے مجھے
ہاں! بزدار اور اسد عمر اپنی زنبیل سے نئے نکالے ہیں! رہا آئی ایم ایف! تو جیلر بھی وہی ہے۔ قیدی بھی وہی پرانا۔ ٹھیکہ اب کے پاکستانیوں کو قیدی بنانے کا آئی ایم ایف نے خان صاحب کو دیا ہے!!
No comments:
Post a Comment