کچھ سوال ہر امتحان میں ضرور پوچھے جاتے ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے اسباب کیاتھے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاؤں کیسے جمے؟ انگریزوں کی حکومت کیسے قائم ہوئی؟
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اسباب تھے؟ درسی کتابوں میں کچھ اسباب رٹائے جاتے ہیں۔ رہےمؤرّخ تو سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی ہے۔ انگریز مؤرخ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، ہندواپنا! مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں تعداد میں نسبتاً کم ہیں۔ ان کا موقف الگ ہے مگر آج ہمآپ کے لیے تاریخ کا یہ باب آسان کیے دیتے ہیں۔ آپ کو ضخیم کتابیں چھاننے کی ضرورتنہیں۔ صرف عبدالحلیم شرر کا تحریر کردہ سلطنت اودھ کا حال پڑھ لیجیے۔ یہ احوال تاریخ کیکئی کتابوں پر بھاری ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر مؤرخ سے زیادہ ناول نگار، صحافی، مترجم،ڈرامہ نگار اور مضمون نگار تھے؛ تاہم لکھنؤ کا حال جس طرح شرر نے لکھا ہے اسے پڑھ کرانسان صرف ایک نتیجہ نکالتا ہے اور وہ یہ کہ اگر زوال نہ آتا تو یہ ایسے ہی ہوتا جیسے گندمبونے سے آم کے درخت اُگ آئیں!
ہماری تاریخ میں منحوس ترین دن وہ تھا جب 1764ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بکسر کی جنگجیت لی۔ دہلی کا بادشاہ شاہ عالم‘ اودھ کا نواب شجاع الدولہ اور بنگال کا حکمران میر قاسمتینوں مشترکہ فوج لے کر آئے مگر پھر بھی ہار گئے۔ مغل سلطنت کے تین انتہائی خوش حالصوبوں بنگال، بہار، اڑیسہ میں عوام سے براہ راست ٹیکس لینے کی اتھارٹی انگریزوں کو ملگئی۔ لکھنؤ (اودھ) کے نواب شجاع الدولہ نے انگریز کی سرپرستی قبول کر لی۔ اس کے بعدبانوے سال (یعنی تقریباً ایک صدی) اودھ کے نوابوں نے مکمل عیاشی میں گزارے جس کیتفصیل میں جائیں تو حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اصل حکومت انگریز ریذیڈنٹ کے ہاتھمیں تھی۔ بنیادی طور پر اودھ کے حکمران تین قسم کی لذتوں میں غرق تھے۔ موسیقی، خوراککا چٹخارہ اور جنسی چٹخارہ۔ جانوروں کی لڑائیاں دیکھنا بہت بڑا مشغلہ تھا۔ شیر کی لڑائی، چیتےکی لڑائی، تیندوے کی لڑائی، ہاتھی کی لڑائی، اونٹ کی لڑائی، گینڈے کی لڑائی‘ بارہ سنگھے کیلڑائی، مینڈھے کی لڑائی، طیور کی لڑائی۔ یہ سب لڑائیاں بادشاہ اور امرا کی سرپرستی میں کرائیجاتی تھیں۔ بازیاں اس کے علاوہ تھیں جن میں مرغ بازی، بٹیر بازی، تیتر بازی، کبوتر بازی اورپتنگ بازی پر بادشاہ اور رعایا یکساں طور پر جان دیتے تھے۔ موسیقی کا الگ سلسلہ تھا۔کتھک اور دوسرے ناچ شرفا کے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ بھانڈ اور ڈومنیاں عالی مرتبت ہوگئی تھیں۔ جو عیاشیاں کھانے پینے کے حوالے سے تھیں ان کا ذکر پڑھ کر دماغ چکرانے لگجاتا ہے۔ انتظام سلطنت انگریز کے پاس تھا۔ کٹھ پتلی بادشاہ اور پست ذہن امرا و عمائدینپیٹ پوجا کے نئے نئے تجربے کر رہے تھے۔ نواب اور بیگم کے لیے کھانا ہر روز چھ مختلفباورچی خانوں سے آتا۔ واجد علی شاہ نے دہلی کے شہزادے کی دعوت کی۔ دستر خوان پر مربہرکھا گیا۔ مہمان نے لقمہ کھایا تو چکرا گیا۔ یہ اصل میں قورمہ تھا۔ اب شہزادے نے بدلہ لیناتھا۔ جوابی دعوت ہوئی۔ پلاؤ، بریانی، قورمہ، کباب، چپاتیاں، اچار، چٹنیاں، پراٹھے سب شکرکے بنے ہوئے تھے۔ سالن بھی شکر کا، چاول بھی شکر کے! ایک شہزادے کی شادی پر سترقسم کے چاول پکائے گئے۔ کھچڑی جو دیکھنے میں چاول کی لگتی اصل میں بادام اور پستے کیہوتی۔ باورچی تو تھے ہی، ایک خاص پیشہ رکاب دار تھا‘ یعنی چھوٹی مگر حد درجہ نفیس ہانڈیاںپکانے والے! نواب غازی الدین کے لیے چھ پراٹھے تیس سیر گھی میں پکتے۔ وزیر ذرا با ضمیرتھا۔ اس نے گھی کی مقدار کم کروا دی۔ نواب کو معلوم ہوا تو وزیر کو تھپڑ اور گھونسے رسیدکیے۔ ایک رئیس صاحب کے خاصے کا پلاؤ 43 سیر گوشت کی یخنی میں پکتا۔ شیر مال کو لکھنؤ کینیشنل روٹی قرار دیا گیا۔ ایک خاص پلاؤ ایجاد ہوا جسے موتی پلاؤ کہا گیا۔ ترکیب یوں تھی کہچاندی اور سونے کے ورق انڈے کی زردی میں حل کیے جاتے۔ پھر اس محلول کو مرغ کےنرخرے میں بھر کر نرخرے کے ہر ہر جوڑ پر باریک دھاگا باندھ دیا جاتا۔ پھر جوش دیا جاتا۔پھر چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کی جاتی۔ اس میں سے موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشتکے ساتھ دم کیے جاتے۔ کچھ رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور ان پر چاندی کے ورق چڑھادیتے۔ یہ بھی ہوا کہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بنا کر اس طرح پکائی گئیں کہ صورت نہبگڑے۔ انہیں پلیٹ میں بٹھا دیا گیا۔ چاولوں کی شکل دانے جیسی کر دی گئی۔ یوں معلومہوتا جیسے مہمان کے سامنے پلیٹ میں چڑیاں دانہ چُگ رہی ہیں۔ کریلے دیکھنے میں کچے لگتےمگر کاٹ کر کھائے جاتے تو عجیب لذت اور ذائقہ ہوتا۔بہت سے کھانوں کے مجموعے کو لکھنؤمیں تورا کہا جاتا۔ ایک تورے میں مندرجہ ذیل غذائیں لازمی طور پر ہوتیں: پلاؤ۔ متنجن، شیرمال‘ سفیدہ (میٹھے چاول بغیر رنگ کے)‘ قورمہ‘ تلی ہوئی اروی گوشت کے ساتھ‘ شامی کباب‘ کئی اقسام کے مربے، اچار اور چٹنیاں۔ اس زمانے میں لکھنؤ نے عالم‘ یا سپاہی، یا سائنسدان نہیں، صرف باورچی پیدا کیے۔ ہندوستان بھر میں لکھنؤ کے باورچیوں کی دھوم تھی۔دکن، بھوپال، رام پور، بنگال غرض ہر جگہ باورچی لکھنؤ کے ہوتے۔ لکھنؤ والوں نے ملائی کانام بدل کر بالائی رکھا۔ بالائی کی تہہ پر تہہ ایک خاص طریقے سے بٹھائی جاتی۔ باقر خانی بھیوہیں کی ایجاد ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے مضمون گزشتہ لکھنؤ میں منشی پریم چند کے ایک افسانے کا اقتباسنقل کیا ہے... “
“”نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹےبڑے سب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کیپینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں،شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں، سبھی جگہ نفسپرستی کی دُہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خواری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعرا بوس و کنارمیں مست، اہل سیف تیتر بازی میں، ہر کوئی سرمہ و مسّی، عطر و تیل کی خرید و فروخت کادلدادہ، غرض سارا ملک نفس پرستی کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر وجام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، علم و حکمت کن کن ایجادوں میں مصروفہے، بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جا رہی ہیں، اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیرلڑ رہے ہیں۔ تیتروں کی پالیاں ہو رہی ہیں۔ کہیں چوسر ہو رہی ہے۔ کہیں شطرنج کےمعرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ نواب کا حال اس سے بھی بد تر تھا۔ حظِ نفس کے لیے نئےنئے نُسخے سوچے جاتے تھے یہاں تک کہ فقرا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کےبجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کی تعلیمحاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے تلمذ کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہنکو تیز کرنے کے لیے شطرنج کو کیمیا سمجھا جاتا تھا—“”
۔ دلی کا حال اس سے مختلف نہ تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کباب سے لے کر افیون کیپینک تک سب کچھ مست کر دینے والا تھا۔ سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز مکار اورظالم تو تھے، جفاکش اور محنتی بھی تھے۔ ہماری لکھی ہوئی تاریخ میں ان کی مکاری کا ذکر توبہت ہے، ان کی جفا کشی اور شدید محنت کا کوئی ذکر نہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئےکلائیو کا مقابلہ پالکی میں سوار، تکیے پر ٹیک لگانے والے سراج الدولہ کرتے بھی تو کیسے کرتے
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment