''اٹھارہ مہینے پہلے یہاں کوئی برطانوی مسافر طیارہ نہیں آتا تھا! آج ایک ہفتے میں بیس سے زیادہ پروازیں آ رہی ہیں۔ یہ پاکستان پر ہمارے اعتماد کی نشانی ہے‘‘ یہ بیان برطانیہ کے محترم سفیر کا ہے۔ پہلے برٹش ایئر ویز کی پروازیں شروع ہوئیں۔ اب ایک اور برطانوی ایئر لائن کے جہازوں نے آنا جانا شروع کیا ہے۔ اس کی پہلی پرواز کی مناسبت سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سفیر صاحب نے یہ اظہارِ مسرت اسی موقع پر کیا۔
کیا زبردست کامیابی ہے پاکستان کی! اپنی ایئر لائن کو، جس کا شہرہ ایک زمانے میں چار دانگِ عالم میں تھا اور جو امریکی‘ برطانوی اور یورپی مسافروں کی اولین چوائس ہوتی تھی، نوچ نوچ کر، بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر، کھا کھا کر، ہڈیوں کے پنجر میں تبدیل کیا اور اب بے حمیتی کا یہ عالم ہے کہ جس برطانیہ کی فضاؤں میں پی آئی اے کے اوپر کَندہ، پاکستانی پرچم چمکتا تھا وہاں پی آئی اے پر پابندی ہے، اور پاکستانیوں اور پاکستانی تارکین وطن کا سارا انحصار بدیشی ایئر لائنوں پر ہے۔ کیا کمال ہے ہمارا! مکمل چھان بین کیے بغیر ہم نے سرکاری سطح پر یہ ''خوشخبری‘‘ دنیا بھر کو سنائی کہ ہمارے پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ اپنے گندے کپڑے سب کو دکھا کر، چوک پر دھوئے۔ رائی کا پہاڑ بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سرکاری شہادت کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ، یورپ، ہر جگہ سے، ہماری ایئر لائن کو بیک بینی دو گوش نکال باہر کیا گیا۔ اب ہم تدفین سے فارغ ہو کر، دعائے مغفرت کر کے، غیر ملکی ایئر لائنوں کی آمد کی خوشی میں جشن مناتے پھر رہے ہیں! واہ! کیا بات ہے ہماری! آفرین ہے ہم پر!
اڑھائی سو سال پہلے بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ بر صغیر دنیا بھر کی صنعتی پیداوار کا ایک چوتھائی پیدا کر رہا تھا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں یہ لیڈر تھا۔ مصنوعات برطانیہ میں جاتی تھیں تبھی تو چھینٹ، شال، پاجامہ،خاکی، کمربند اور کئی دوسرے الفاظ انگریزی لغت کا حصہ بنے۔ میکسیکو تک ہندوستان کی مصنوعات پہنچیں اور وہاں کی مقامی صنعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔ 1586ء اور 1605ء کے درمیانی عرصے میں یورپ سے اٹھارہ مِیٹرک ٹن چاندی ہر سال بر صغیر میں پہنچتی رہی۔ اس کے بدلے میں مصنوعات خریدی جاتی تھیں۔ مغل (Mogul) کا لفظ آج بھی انگریزی میں وی آئی پی، سیٹھ اور بڑے آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پھر ہماری گردنوں پر استعمار بیٹھ گیا۔ ہمارے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے گئے۔ ہماری صنعتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خام مال برطانیہ بھیجا گیا۔ وہاں سے مصنوعات آئیں جو ہمیں مہنگے داموں بیچی گئیں اور ہماری خریداری سے جمع شدہ روپیہ پھر برطانیہ جا پہنچا مگر یہ سب تو کلائیو اور اس کے جانشینوں نے کیا تھا‘ جو دشمن تھے۔ آج قومی ایئر لائن کی تباہی اپنوں نے کی۔ ہمارے اپنے نمائندے نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ لائسنس جعلی ہیں۔ دنیا الرٹ نہ ہوتی تو کیا کرتی؟ سب ہماری طرح اندھے تھوڑی ہیں۔ خاموشی سے ایکشن لیا جاتا! بگاڑ کی اصلاح کی جاتی۔ ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھر کو آگ گھر کے چراغ سے نہیں لگی‘ گھر والوں نے گھر پر پٹرول انڈیل کر آگ لگائی۔ ہوا بازی کا اربوں کا کاروبار ہم نے پلیٹ میں رکھ کر دوسروں کو پیش کر دیا اور خود بے حس ہو کر بیٹھ گئے! اگر کوئی شرم دلانے کیلئے جتاتا ہے کہ پشت پر درخت اُگائے بیٹھے ہو تو پلک تک نہیں جھپکاتے اور تنک کر جواب دیتے ہیں کہ اچھا ہے۔ چھاؤں میں بیٹھیں گے!
اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے سے بہت پہلے قومی ایئر لائن تباہی کے راستے پر روانہ ہو چکی تھی‘ مثلاً بنکاک ہماری پروازیں عام جاتی تھیں‘ وہ ختم ہوئیں۔ پورا سیکٹر ہاتھ سے نکلا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے سیکٹر چھن گئے۔ کئی برسوں سے پاکستانی مسافر مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنوں کے محتاج ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس میدان میں کیا تیر مارا؟ کیا حاصل کیا؟ پنجابی محاورے کی رُو سے سواہ تے مٹی! یعنی راکھ اور خاک! حاصل تو خیر کیا ہوتا مغربی ممالک سارے ہی، بیک جنبش زبان، ہم نے کھو دیے۔ ''تبدیلی‘‘ اس ضمن میں کچھ بھی نہ تبدیل کر سکی۔ ایک حل یہ تھا کہ یونینوں کو ترغیب اور تحریص سے قائل کر کے ڈوبتی ایئر لائن کو سیدھے سبھاؤ نجی شعبے کے حوالے کر دیا جاتا۔ حکومت یہ نہ کر سکی۔ دوسرا حل یہ تھا کہ زائد از ضرورت ملازمین کو پُر کشش پیکیج دے کر فارغ کیا جاتا۔ دنیا میں فی جہاز ہماری افرادی قوت شاید سب سے زیادہ ہے۔ اس کو ڈاؤن سائز کیا جاتا۔ یہ بھی نہ کیا گیا۔ غرض کچھ بھی نہ کیا گیا۔ اوپن مارکیٹ سے پروفیشنلز نہ لیے گئے۔ الٹا کمرشل ایئر لائن کو جنگی جہازوں کے ماہرین کے سپرد کر دیا گیا۔ کیا سنگا پور ایئر لائن، اتحاد، ایمیریٹس اور دوسری کامیاب ایئر لائنوں کو ان ملکوں کے جنگی ہوا بازوں نے سنبھالا ہوا ہے؟ کہیں بھی نہیں! یاد رہے کہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان اور ایئر مارشل (ر) نور خان مستثنیات تھے۔ ان میں اتنی جرأت تھی کہ طاقت ور ترین شخصیت کے لیے بھی پرواز میں ایک منٹ تاخیر کی اجازت نہیں دیتے تھے، بزنس یا تو پیور، خالص بزنس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ جن ایئر لائنوں کے نام اوپر لیے گئے ہیں‘ ان کے سربراہ اور شعبوں کے ہیڈ خالص اور خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر چُنے اور تعینات کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں اکثر و بیشتر تعیناتیاں اقربا پروری، دوست نوازی یا سفارش کی بنیاد پر ہوئیں۔ یہ حضرات یونینوں کے عفریت کو بھی کنٹرول نہ کر سکے۔
دوسرا سفید ہاتھی سٹیل مل تھی۔ وہاں بھی حالات دگرگوں ہیں۔ کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس بھونڈے طریقے سے ملازمین کو نکالا گیا ہے‘ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ یگانہ چنگیزی نے شاید اسی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں
انگریزی میں ایک لفظ ہے Mercenary اس کے معنی ہیں‘ کرائے کے سپاہی‘ جو جذبے سے نہیں لڑتے بلکہ معاوضے کی خاطر لڑائی میں شریک ہوتے ہیں! کبھی کسی فوج نے کرائے کے سپاہیوں کی بنیاد پر فتح نہیں پائی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے، بد قسمتی سے، اپنی جماعت کے ارکان کے بجائے، دوسروں پر بھروسہ کیا۔ مالیات، داخلہ، اقتصادی امور، قانون، بین الصوبائی امور، توانائی، پٹرولیم، تجارت، صنعت، ٹیکسٹائل، بیوروکریسی میں اصلاحات، اوورسیز پاکستانی، سیاحت، صحت، غرض تمام اہم معاملات ان افراد کے ہاتھوں میں ہیں جو پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ بہت سے تو الیکشن کے راستے آئے بھی نہیں، ان کا تعلق عوام سے ہے نہ حکومت سے! کوئی ورلڈ بینک کا پنشنر ہے، کوئی آئی ایم ایف سے درآمد شدہ اور کوئی کسی اور ملک کا شہری! یہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ کسی سیاسی جماعت کے نظم سے وابستہ ہیں۔ ان کے یہاں، ملک کے اندر Stakes ہی نہیں ہیں۔ کل کو بساط الٹی تو وہ شوکت عزیز کی طرح جہاز پر بیٹھیں گے اور اپنے اپنے اصلی وطن کی راہ لیں گے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کو کبھی دکھائی ہی نہ دیں گے۔ امداد آکاش نے کیا خوب کہا ہے:
مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا، نکل گیا
افسوس! صد افسوس! ایک سنہری موقع تھا جو کچھ خوئے انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا اور کچھ نا اہلی اور نا تجربہ کاری کی نذر ہو گیا!
دامن خالی ہاتھ بھی خالی، دست طلب میں گرد طلب
عمر گریزاں! عمر گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment