ہائوسنگ سیکٹر ہی میں فوج اور سول کا موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔
پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونے والے افسروں کے لیے مکان بنانے کی سکیم شروع کی جس کے مصارف افسر قسطوں میں ادا کرتے تھے۔ آج تک ہر افسر کو اپنی باری پر رہائش گاہ مل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوائے بیوگان کے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا رہی۔ بریگیڈیر ہے یا میجر،رینک کے حساب سے ریٹائرمنٹ پر سر چھپانے کی جو جگہ اس کا استحقاق ہے‘ مل جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مرکزی حکومت کی ہائوسنگ فائونڈیشن کی حالت دیکھیے۔ فائونڈیشن نے ان سرکاری ملازموں کے لیے جو 2007ء میں یا اس کے بعد ریٹائر ہوئے وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر جی 14مختص کیا۔ نو سال ہو گئے، فائونڈیشن پوری قیمت وصول کر چکی، آج تک کسی کو قبضہ تک نہیں ملا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ جہاں ناجائز تعمیرات کو گرانا ہے‘ وہاں مزید تعمیرات ہو رہی ہیں۔ کئی سرکاری ملازم عمر بھر کی پونجی ہائوسنگ فائونڈیشن کے حوالے کر کے پلاٹ کا انتظار کرتے کرتے قبر میں جا رہائش پذیر ہوئے۔ ریٹائرڈ ملازمین کبھی ضلعی انتظامیہ کے پاس جا کر فریاد کر رہے ہیں، کبھی فائونڈیشن کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ زمین تو ہل سکتی ہے گل محمد کے ہلنے کی کوئی امید نہیں۔
سول میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے سلیم بہادر خان کا ذکر ضروری ہے۔ ہائوسنگ فائونڈیشن غالباً 1988ء میں یا اس سے کچھ عرصہ پہلے تشکیل دی گئی۔ کہا گیا کہ جو افسر اسلام آباد میں پلاٹ یا گھر نہیں رکھتے‘ وہ پیسے جمع کرائیں اور اپنی باری پر بنا ہوا مکان لے لیں۔ سلیم بہادر خان اس وقت پاکستان ایئر فورس کے مشیرِ مالیات اور پشاور میں تعینات تھے۔ سی ایس ایس کے افسر تھے یعنی مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے تھے۔ رام پور کے پٹھان! نواب خاندان کے چشم و چراغ! پکے روہیلے! دسترخوان وسیع تھا۔ خاندانی روایت یہی تھی۔ آئے دن گھر میں دعوتیں کرتے اور احباب کی شکم پروری کر کے خوش ہوتے۔ برج کھیلنے کے ماہر تھے۔ فضائیہ کے کئی اعلیٰ ترین افسروں کو برج سکھائی۔ سرکاری گاڑی ملنا تھی مگر نہیں ملی تھی۔ ایک دن اس کالم نگار نے عرض کیا خان صاحب! فلاں بہت بڑی‘ یعنی بہت ہی بڑی اتھارٹی آپ کے ساتھ برج کھیلتی ہے اور آپ کے سامنے طفلِ مکتب ہے، اسی نے آپ کے لیے کار کی منظوری دینی ہے جو آپ کا بلحاظ منصب استحقاق ہے۔ اُسے اشارہ کر دیجیے۔ ہنسے کہنے لگے‘ اظہار میاں! ہم دستِ سوال نہیں دراز کرتے! ہائوسنگ فائونڈیشن نے مرکزی حکومت کے ملازمین سے درخواستیں مانگیں۔ خان صاحب نے درخواست دی۔ کچھ عرصہ بعد سرکاری چھٹی آئی کہ آپ کا تو اسلام آباد میں پہلے ہی مکان ہے، دوبارہ کے اہل نہیں! خان صاحب نے جواب میں لکھا کہ اس مکان کا مجھے فوراً ایڈریس دیا جائے کہ اس پر قبضہ کروں کیونکہ مجھے اپنے اس مکان کا علم ہی نہیں! اس کا جواب تو خیر کیا آتا، معلوم ہوا کہ وزیر صاحب نے خان صاحب کی درخواست ہٹا کر کسی اور کی رکھ دی تھی! یہی صورت حال ہے جس سے تنگ آ کر کسی دل جلے کا کچھ عرصہ قبل روزنامہ ڈان میں خط چھپا کہ یہ کام فوج کے سپرد کیا جائے!
مسلح افواج میں کام کیوں وقت پر ہو رہے ہیں اور صورتِ حال کیوں مختلف ہے؟ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں! فوج کی ترقیوں اور تعیناتیوں میں سیاست دانوں‘ وزیروں اور عوامی نمائندوںکا کوئی کردار نہیں! اسی لیے مسلح افواج میں کوئی لاہور گروپ ہے نہ کشمیری برادری ہے۔ سول میں جس طرح ترقیاں ‘ تبادلے‘ تعیناتیاں اور بیرون ملک تقرریاں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں‘ اگر ان کی تفصیل یکجا کی جائے تو یہ نااہلی‘ اقربا پروری‘سفارش‘ سنگدلی‘ سفاکی‘ وطن دشمنی اور بے حسی کی ایسی داستان ہوگی جس کی مثال دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک پیش کر سکے۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا کو چاہیے کہ اس موضوع پر کتاب لکھیں!
دوسری بڑی وجہ مسلح افواج میں تعیناتی کی مدت
(Tenure)
پر پابندی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ دو سال یا تین سال پورے ہونے پر تبادلہ ہو جاتا ہے۔ یوں مافیا بن سکتا ہے نہ کوئی گروپ! سول میں صورت حال عبرت ناک ہے۔ دو ماہ بعد‘ چھ ماہ بعد یہاں تک کہ ایک ہفتے بعد بھی تبادلہ ہو جائے گا۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ سات سات سال، دس دس سال تعیناتی قائم رہتی ہے۔
Tenure
کے ساتھ یہ ظلم جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوا۔ ان کا ایک ’’پسندیدہ‘‘ اہلکار مشرق وسطیٰ میں آٹھ نو سال’’قائم‘‘ رہا۔ ضیاء الحق کے بعد یہ روایت پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف نے اس ناانصافی کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ وفاق کے شعبہ تعلیمات کو ایک سابق فوجی کے سپرد کیا جسے پانچ بار توسیع دی گئی۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان فوجی آمروں نے ظلم کی یہ روایات مسلح افواج کے اندر بھی قائم کیں؟ اس کا جواب تقریباً ’’نہیں‘‘ میں ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ افواج کے نظام کی ساخت مختلف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان آمروں کی نظر ان غیر قانونی کاموں کے لیے سول اداروں پر جمی رہی۔ افواج کو شاید وہ اپنا گھر سمجھتے تھے اور اپنے گھر کو کوئی نہیں خراب کرتا!
اس کالم نگار کو اندازہ ہے کہ اس تحریر کا ردِعمل کیا ہو گا! مگر ع
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
مسلح افواج کا سول حکومت پر قبضہ کرنا غلط ہے۔ ہر مارشل لاء ہمیں پس ماندہ سے پس ماندہ تر کرتا رہا۔ یہ کالم نگار وہ آخری شخص ہو گا جو جمہوریت کی بساط الٹنے اور فوجی حکومت کے حق میں ہوگا۔ مگر سول اور فوج کے طریقہ کار میں جو فرق ہے اسے بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ سول اداروں کو فوج سے میرٹ اور ’’اپنی باری‘‘ کا سلسلہ سیکھنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کچھ صدر ایوب خان ‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف‘ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل اور کچھ اور فوجی افسر کرتے رہے، اس کی ذمہ داری افواج پر بطورِ ادارہ نہیں ڈالی جا سکتی!
یہ صرف ہائوسنگ‘ تعیناتیوں اور ترقیوں کا معاملہ نہیں‘ فوج ہر شعبے میں اپنی برتری منواتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین مظاہر اس برتری کا گیارہ سینئر افسروں کی جبری ریٹائرمنٹ ہے۔ اس قسم کے اقدامات فوج میں ہمیشہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اب کے صرف یہ ہوا ہے کہ اس اقدام کی خبر عوام کو بھی دی گئی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ احتساب کہاں ہوتا ہے اور کہاں نہیں ہوتا۔ کئی سال پہلے جب سندھ میں کچھ افراد کو ناروا قتل کیا گیا تو اس قصے میں فوجی افسر کے ساتھ سینئر پولیس افسر بھی ملوث تھے۔ فوج نے اپنے افسرکو سزائے موت دی۔ اس پر عمل بھی ہوا۔ رہا سینئر پولیس افسر‘ تو اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
فوج کی اس برتری کا مطلب یہ نہیں کہ فوج وہ کام کرنا شروع کر دے جو سول نے کرنا ہے۔ فوج اپنے دائرہ کار سے باہر جب بھی آئے گی‘ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ آج اگر سندھ کی پولیس غیر سیاسی ہوتی اور میرٹ کی بنیادوں پر اس کا انتظام چلایا جا رہا ہوتا تو رینجرز کی ضرورت ہی نہ ہوتی!
فوج سے سول اداروں کو سبق سیکھنا چاہیے‘ بہت دیر ہو چکی، مزید دیر نہیں ہونی چاہیے! ایسا نہ ہو عوام یہ مطالبہ کر دیںکہ ماڈل ٹائون قتل عام سے لے کر پاناما لیکس تک اور نیب کے جوان افسر کے قتل سے لے کر ایان علی تک‘ سارے معاملات فوج کے سپرد کیے جائیں!
پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونے والے افسروں کے لیے مکان بنانے کی سکیم شروع کی جس کے مصارف افسر قسطوں میں ادا کرتے تھے۔ آج تک ہر افسر کو اپنی باری پر رہائش گاہ مل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوائے بیوگان کے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا رہی۔ بریگیڈیر ہے یا میجر،رینک کے حساب سے ریٹائرمنٹ پر سر چھپانے کی جو جگہ اس کا استحقاق ہے‘ مل جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مرکزی حکومت کی ہائوسنگ فائونڈیشن کی حالت دیکھیے۔ فائونڈیشن نے ان سرکاری ملازموں کے لیے جو 2007ء میں یا اس کے بعد ریٹائر ہوئے وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر جی 14مختص کیا۔ نو سال ہو گئے، فائونڈیشن پوری قیمت وصول کر چکی، آج تک کسی کو قبضہ تک نہیں ملا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ جہاں ناجائز تعمیرات کو گرانا ہے‘ وہاں مزید تعمیرات ہو رہی ہیں۔ کئی سرکاری ملازم عمر بھر کی پونجی ہائوسنگ فائونڈیشن کے حوالے کر کے پلاٹ کا انتظار کرتے کرتے قبر میں جا رہائش پذیر ہوئے۔ ریٹائرڈ ملازمین کبھی ضلعی انتظامیہ کے پاس جا کر فریاد کر رہے ہیں، کبھی فائونڈیشن کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ زمین تو ہل سکتی ہے گل محمد کے ہلنے کی کوئی امید نہیں۔
سول میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے سلیم بہادر خان کا ذکر ضروری ہے۔ ہائوسنگ فائونڈیشن غالباً 1988ء میں یا اس سے کچھ عرصہ پہلے تشکیل دی گئی۔ کہا گیا کہ جو افسر اسلام آباد میں پلاٹ یا گھر نہیں رکھتے‘ وہ پیسے جمع کرائیں اور اپنی باری پر بنا ہوا مکان لے لیں۔ سلیم بہادر خان اس وقت پاکستان ایئر فورس کے مشیرِ مالیات اور پشاور میں تعینات تھے۔ سی ایس ایس کے افسر تھے یعنی مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے تھے۔ رام پور کے پٹھان! نواب خاندان کے چشم و چراغ! پکے روہیلے! دسترخوان وسیع تھا۔ خاندانی روایت یہی تھی۔ آئے دن گھر میں دعوتیں کرتے اور احباب کی شکم پروری کر کے خوش ہوتے۔ برج کھیلنے کے ماہر تھے۔ فضائیہ کے کئی اعلیٰ ترین افسروں کو برج سکھائی۔ سرکاری گاڑی ملنا تھی مگر نہیں ملی تھی۔ ایک دن اس کالم نگار نے عرض کیا خان صاحب! فلاں بہت بڑی‘ یعنی بہت ہی بڑی اتھارٹی آپ کے ساتھ برج کھیلتی ہے اور آپ کے سامنے طفلِ مکتب ہے، اسی نے آپ کے لیے کار کی منظوری دینی ہے جو آپ کا بلحاظ منصب استحقاق ہے۔ اُسے اشارہ کر دیجیے۔ ہنسے کہنے لگے‘ اظہار میاں! ہم دستِ سوال نہیں دراز کرتے! ہائوسنگ فائونڈیشن نے مرکزی حکومت کے ملازمین سے درخواستیں مانگیں۔ خان صاحب نے درخواست دی۔ کچھ عرصہ بعد سرکاری چھٹی آئی کہ آپ کا تو اسلام آباد میں پہلے ہی مکان ہے، دوبارہ کے اہل نہیں! خان صاحب نے جواب میں لکھا کہ اس مکان کا مجھے فوراً ایڈریس دیا جائے کہ اس پر قبضہ کروں کیونکہ مجھے اپنے اس مکان کا علم ہی نہیں! اس کا جواب تو خیر کیا آتا، معلوم ہوا کہ وزیر صاحب نے خان صاحب کی درخواست ہٹا کر کسی اور کی رکھ دی تھی! یہی صورت حال ہے جس سے تنگ آ کر کسی دل جلے کا کچھ عرصہ قبل روزنامہ ڈان میں خط چھپا کہ یہ کام فوج کے سپرد کیا جائے!
مسلح افواج میں کام کیوں وقت پر ہو رہے ہیں اور صورتِ حال کیوں مختلف ہے؟ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں! فوج کی ترقیوں اور تعیناتیوں میں سیاست دانوں‘ وزیروں اور عوامی نمائندوںکا کوئی کردار نہیں! اسی لیے مسلح افواج میں کوئی لاہور گروپ ہے نہ کشمیری برادری ہے۔ سول میں جس طرح ترقیاں ‘ تبادلے‘ تعیناتیاں اور بیرون ملک تقرریاں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں‘ اگر ان کی تفصیل یکجا کی جائے تو یہ نااہلی‘ اقربا پروری‘سفارش‘ سنگدلی‘ سفاکی‘ وطن دشمنی اور بے حسی کی ایسی داستان ہوگی جس کی مثال دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک پیش کر سکے۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا کو چاہیے کہ اس موضوع پر کتاب لکھیں!
دوسری بڑی وجہ مسلح افواج میں تعیناتی کی مدت
(Tenure)
پر پابندی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ دو سال یا تین سال پورے ہونے پر تبادلہ ہو جاتا ہے۔ یوں مافیا بن سکتا ہے نہ کوئی گروپ! سول میں صورت حال عبرت ناک ہے۔ دو ماہ بعد‘ چھ ماہ بعد یہاں تک کہ ایک ہفتے بعد بھی تبادلہ ہو جائے گا۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ سات سات سال، دس دس سال تعیناتی قائم رہتی ہے۔
Tenure
کے ساتھ یہ ظلم جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوا۔ ان کا ایک ’’پسندیدہ‘‘ اہلکار مشرق وسطیٰ میں آٹھ نو سال’’قائم‘‘ رہا۔ ضیاء الحق کے بعد یہ روایت پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف نے اس ناانصافی کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ وفاق کے شعبہ تعلیمات کو ایک سابق فوجی کے سپرد کیا جسے پانچ بار توسیع دی گئی۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان فوجی آمروں نے ظلم کی یہ روایات مسلح افواج کے اندر بھی قائم کیں؟ اس کا جواب تقریباً ’’نہیں‘‘ میں ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ افواج کے نظام کی ساخت مختلف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان آمروں کی نظر ان غیر قانونی کاموں کے لیے سول اداروں پر جمی رہی۔ افواج کو شاید وہ اپنا گھر سمجھتے تھے اور اپنے گھر کو کوئی نہیں خراب کرتا!
اس کالم نگار کو اندازہ ہے کہ اس تحریر کا ردِعمل کیا ہو گا! مگر ع
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
مسلح افواج کا سول حکومت پر قبضہ کرنا غلط ہے۔ ہر مارشل لاء ہمیں پس ماندہ سے پس ماندہ تر کرتا رہا۔ یہ کالم نگار وہ آخری شخص ہو گا جو جمہوریت کی بساط الٹنے اور فوجی حکومت کے حق میں ہوگا۔ مگر سول اور فوج کے طریقہ کار میں جو فرق ہے اسے بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ سول اداروں کو فوج سے میرٹ اور ’’اپنی باری‘‘ کا سلسلہ سیکھنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کچھ صدر ایوب خان ‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف‘ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل حمید گل اور کچھ اور فوجی افسر کرتے رہے، اس کی ذمہ داری افواج پر بطورِ ادارہ نہیں ڈالی جا سکتی!
یہ صرف ہائوسنگ‘ تعیناتیوں اور ترقیوں کا معاملہ نہیں‘ فوج ہر شعبے میں اپنی برتری منواتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین مظاہر اس برتری کا گیارہ سینئر افسروں کی جبری ریٹائرمنٹ ہے۔ اس قسم کے اقدامات فوج میں ہمیشہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اب کے صرف یہ ہوا ہے کہ اس اقدام کی خبر عوام کو بھی دی گئی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ احتساب کہاں ہوتا ہے اور کہاں نہیں ہوتا۔ کئی سال پہلے جب سندھ میں کچھ افراد کو ناروا قتل کیا گیا تو اس قصے میں فوجی افسر کے ساتھ سینئر پولیس افسر بھی ملوث تھے۔ فوج نے اپنے افسرکو سزائے موت دی۔ اس پر عمل بھی ہوا۔ رہا سینئر پولیس افسر‘ تو اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
فوج کی اس برتری کا مطلب یہ نہیں کہ فوج وہ کام کرنا شروع کر دے جو سول نے کرنا ہے۔ فوج اپنے دائرہ کار سے باہر جب بھی آئے گی‘ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ آج اگر سندھ کی پولیس غیر سیاسی ہوتی اور میرٹ کی بنیادوں پر اس کا انتظام چلایا جا رہا ہوتا تو رینجرز کی ضرورت ہی نہ ہوتی!
فوج سے سول اداروں کو سبق سیکھنا چاہیے‘ بہت دیر ہو چکی، مزید دیر نہیں ہونی چاہیے! ایسا نہ ہو عوام یہ مطالبہ کر دیںکہ ماڈل ٹائون قتل عام سے لے کر پاناما لیکس تک اور نیب کے جوان افسر کے قتل سے لے کر ایان علی تک‘ سارے معاملات فوج کے سپرد کیے جائیں!
No comments:
Post a Comment