چلیے! 1757ء ہی سے بات شروع کرتے ہیں!�اگرچہ اس سے پہلے ہی انگریزی عمل دخل قائم ہو چکا تھا اور مغلیہ سلطنت کے دست و بازو ٹوٹنا شروع ہو چکے تھے؛ تاہم پہلی فیصلہ کن جنگ1757ء ہی میں لڑی گئی۔ پلاسی کے میدان میں انگریز غالب آ گئے۔ تاریخ ہی نہیں‘ اہلِ ہند کی تقدیر بھی بدل گئی۔ پلاسی کی فتح لارڈ کلائیو کی ٹوپی میں سرخاب کاپَر تھا۔ اسے یہ فخر سجتا بھی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے آئر لینڈ میں جو جائیداد خریدی اس کا نام پلاسی رکھا! 1757ء سے لے کر1947ء تک تقریباً دو صدیاں بنتی ہیں۔ ان دو صدیوں میں کوئی ظلم‘ کوئی تشدد‘ کوئی ناانصافی ایسی نہیں جو انگریزوں نے اہلِ ہند پر نہ کی ہو۔ تفصیل سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔بہت سی کتابیں خود انگریزوں نے لکھی ہیں۔ کچھ حالات ان کے روزنامچوں میں درج ہیں۔ ایک ایک انگریز افسر کے پاس پچاس پچاس مقامی نوکر ہوتے تھے جن کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ ہر ممکن طریقے سے مقامی لوگوں کو ذلیل کیا جاتا تھا۔ نکلسن‘ جس کی یادگار آج بھی ٹیکسلا کے قریب پہاڑ پر بنی نظر آتی ہے‘ ایک درندے سے کم نہ تھا۔ سرحد میں اس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ایک مقامی عزت دار شخص نے اس کی موجودگی میں تھوک دیا تو نکلسن نے اسے وہ تھوک چاٹنے پر مجبور کیا۔ ایک مولوی صاحب نے گزرتے ہوئے سلام نہ کیا تو بلا کر اپنے ہاتھ سے ان کی داڑھی مونڈ دی جو ایک مسلمان کے لیے شرم اور اذیت کا باعث ہے۔ بات بات پر کوڑے مارنا اور پھانسی دینا اس کے لیے عام بات تھی۔ جس بربریت سے1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد لاکھوں لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں اور دہلی میں محلوں کے محلے مسمار کر کے ان پر ہَل چلائے گئے‘ اس کی مثال شاید ہی تاریخ میں ملے۔1600ء میں بر صغیر پوری دنیا کی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد پیدا کر رہا تھا جبکہ برطانیہ صرف1.8 فیصد! انگریز رخصت ہوئے تو یہی بر صغیر دنیا کی پیداوار کا صرف تین فیصد پیدا کر رہا تھا۔ انگریز آئے تو بر صغیر کی ٹیکسٹائل انڈسٹری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ خاص طور پر ریشم کی بہت زیادہ طلب تھی۔ انگریزوں نے بنگال کے لوگوں سے ٹیکس کے نام پر ان کا خون تک نچوڑ لیا۔ اپنی مرضی کی فصلیں بونے پر مجبور کیا۔ ہولناک قحط پڑے۔ انگریزی عہد میں تیس لاکھ انسان قحط کی وجہ سے لقمۂ اجل بنے۔ 1765ء سے لے کر 1938ء تک کے عرصہ میں انگریزوں نے 45کھرب ڈالر لُوٹ کر برطانیہ میں منتقل کیے۔ چرچل کا یہ قول مشہور ہے کہ‘‘ مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ یہ وحشی جانور ہیں اور ایسے ہی ان کے مذاہب ہیں‘‘۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران گندم بنگال کے منہ سے چھین کر‘ انگریزی افواج کے لیے یوگو سلاویہ بھیج دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قحط پڑا اور چالیس لاکھ سے زیادہ لوگ مر گئے۔ اس پر چرچل نے لکھا کہ '' قحط ان کی اپنی غلطی ہے۔ خرگوشوں کی طرح یہ بچوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں‘‘۔ نسلی امتیاز کا یہ عالم تھا کہ جس جرم کی سزا ایک انگریز کو چھ ماہ قید کی صورت میں ملتی تھی‘ اسی جرم کی سزا میں مقامی آبادی کے فرد کو بیس سال قید میں رکھا جاتا تھا۔�معجزہ یہ ہوا کہ جن لوگوں کو انگریز جانوروں سے بد تر سمجھتے تھے اور جن کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک روا رکھتے تھے‘ انہی میں سے ایک آج برطانیہ کا وزیر اعظم ہے! تعجب ہے! اور سخت تعجب!! ایسی پستی! ایسی بلندی! آج لندن کا میئر ایک پاکستانی نژاد شخص ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم ایک بھارت نژاد! بلکہ بھارت نژاد نہیں‘ وہ بھی اصلاً پاکستان نژاد ہی ہے! رِشی سوناک کا دادا یا پردادا تقسیم سے پہلے گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے افریقہ چلا گیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ خاندان برطانیہ منتقل ہو گیا۔�کمال کا کام انگریز نے یہ کیا کہ ہندوستان اور دوسری نو آبادیوں پر جتنا ظلم ڈھایا‘ اپنے ملک کے اندر نظام کو اتنا ہی شفاف رکھا۔ چرچل کی یہ بات مشہور ہے! دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بج رہی تھی تو اس نے بہت اعتماد سے کہا تھا کہ جب تک برطانیہ کی عدالتیں کام کر رہی ہیں‘ برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ نہ صرف بس ڈرائیوروں کے بیٹے بیٹیاں پارلیمنٹ تک پہنچے بلکہ پاکستانی اور بھارتی نژاد ہونے کے باوجود پہنچے۔ یہ جو ہم خوشی کے مارے دانت نکالتے ہیں کہ دیکھا‘ لندن کا میئر پاکستان نژاد ہے اور برطانیہ کا فلاں وزیر ہمارا آدمی ہے تو اصولی طور پر خوش ہونے اور اترانے کے بجائے ہمیں شرم آنی چاہیے! ہمارا اپنا رویہ اس ضمن میں کیا ہے؟ ہمارے ہاں کتنے بس ڈرائیوروں کے بیٹے بیٹیاں پارلیمنٹ تک پہنچے؟ کیا ہم مذہبی‘ نسلی اور لسانی تعصب سے آزاد ہیں؟ اندرونِ سندھ سے کیسی خبریں آتی ہیں؟ ہمیشہ غیر مسلم لڑکی ہی اسلام قبول کرتی ہے! مرد نہیں کرتے!! امریکہ میں مقہور اور مظلوم کالوں کی اولاد قصرِ صدارت میں متمکن ہو گئی۔ برطانیہ میں ہندوستانی غلاموں کی اولاد پارلیمنٹ تک تو پہنچی ہی تھی‘ اب دس ڈاؤننگ سٹریٹ میں بھی داخل ہو گئی۔ اور ہم! ہم کیا کر رہے ہیں؟ بسوں سے مسافروں کو اتارتے ہیں اور شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر قتل کرتے جاتے ہیں! وہاں عقیدہ دیکھے بغیر حکومت سپرد کر دی‘ یہاں عقیدہ دیکھے بغیر جینے کوئی نہیں دیتا اور عقیدہ دیکھ کر مار دیا جاتا ہے! حد یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ رہی ہیں! مذہب ہمارے دلوں میں نہیں! زندگیوں میں مذہب کی جھلک تک نہیں دکھائی دیتی! اور دلوں اور زندگیوں کے علاوہ ہر جگہ مذہب موجود ہے! عقیدے سینوں سے نکلے اور کہیں مسجدوں کے دروازوں پر لکھ دیے گئے اور کہیں گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر! صادق خان لندن کا میئر بن گیا اور چھ سال سے میئر ہے۔ کسی نے عقیدہ پوچھا نہ دیکھا۔ ساجد جاوید صحت اور خزانے جیسی وزارتوں کا انچارج رہا۔ کسی نے عقیدہ نہ پوچھا۔ یہ درست ہے کہ وہاں اسلامو فوبیا بھی ہے۔ایک خاتون منسٹر نے دعویٰ بھی کیا کہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہٹنا پڑا مگر ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ اس دعوے کو چیلنج بھی کیا گیا۔ کئی مسلمان مرد اور خواتین پارلیمنٹ میں ہیں اور مقامی حکومتوں میں شامل ہیں۔ ہرجیت سنگھ سجن چھ سال کینیڈا کا وزیر دفاع رہا اور اب انیتا آنند وزیر دفاع ہے جس کا باپ تامل تھا اور ماں پنجابی!�کمال ان پاکستان نژاد اور بھارت نژاد افراد کا نہیں! کمال ان ملکوں کے سسٹم کا ہے! ان ملکوں نے نسل‘ رنگ اور مذہب کے حصار سے اپنے آپ کو نکالا اور سب کو خوش آمدید کہا۔ جو لوگ کل ان کے غلام تھے‘ آج ان کی اولاد کو قبول کیا اور آزادی کا ماحول بھی دیا۔ چالیس چالیس سال مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والوں کو جب شہریت ملتی ہے نہ ملکیت تو وہ کینیڈا چلے جاتے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ جہاں شہریت بھی ملتی ہے‘ ملکیت کے لا محدود حقوق بھی اور نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں مناصب بھی! ترقی کی حد آسمان ہے! آسٹریلیا میں مصریوں اور لبنانیوں کے پاس اتنے بڑے بڑے تعمیراتی بزنس ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے!�پلاسی کے فاتح لارڈ کلائیو اور دس ڈاؤننگ سٹریٹ کے نئے مکین کے درمیان دو سو پینسٹھ برس کا فاصلہ ہے۔ کلائیو کو فتح اس لیے ملی کہ ہندوستان میں اندرونی استحکام نہیں تھا۔ رِشی سوناک کو وزارت عظمیٰ اس لیے ملی ہے کہ برطانیہ اندر سے مستحکم ہے!!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment