یہ اطلاع میری بھتیجی فاطمہ گیلانی نے دی۔ پروفیسر معظم منہاس وہاں چلے گئے جہاں سب جاتے ہیں مگر وہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔�انسان اوپر سے سب ایک سے لگتے ہیں۔ سب کا ایک سر‘ دو آنکھیں اور دو کان! مگر اندر جہانوں اور زمانوں کا فرق ہوتا ہے۔ وحشی تاتاری کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا قیدی کون ہے ؟ وہ اسے سینکڑوں ہزاروں دوسرے عام قیدیوں کی طرح سمجھ رہا تھا کیونکہ اوپر سے اس کا قیدی دوسرے قیدیوں ہی کی طرح تھا۔جب ایک خریدار نے چاندی کے ہزار سکے اس قیدی کے عوض پیش کیے تو قیدی نے تاتاری سے کہا: اس قیمت پر مجھے نہ بیچناکہ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کسی نے بھوسے کے گٹھے کی پیشکش کی تو قیدی نے کہا: قبول کر لو کہ یہی میری قیمت ہے۔ اس وحشی تاتاری کو کیا معلوم تھا کہ یہ قیدی تو عطار ہے۔ عالموں کا عالم اور صوفیوں کا صوفی ! فقیروں کا فقیر اور داناؤں کا دانا! اس نے بھنّا کر اسے قتل کر دیا! پروفیسر معظم منہاس بھی دیکھنے میں عام آدمیوں کی طرح لگتے تھے۔ طویل قامت! بھاری جسم! کھلی پیشانی ! اس خطۂ زمین میں ایسے لاکھوں افراد پائے جاتے ہیں مگر ان میں پروفیسر معظم منہاس جیسا کوئی نہیں! پروفیسر صاحب کی موت کسی عام آدمی کی موت نہیں! یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں! رومی نے کہا تھا کہ خواجہ سنائی کی موت کوئی چھوٹی بات نہیں! وہ کوئی تنکا تھوڑی تھا جسے ہوا اُڑا لے جاتی۔ وہ دانہ بھی نہیں تھا جسے زمین دبا لیتی۔ وہ کوئی کنگھی نہیں تھی جو بالوں سے ٹوٹ جاتی! وہ پانی نہیں تھا جسے سردی منجمد کر دیتی۔ وہ تو مٹی کے اس گھروندے میں زر کا ذخیرہ تھا۔ وہ تو ان دنیاؤں کو جَو کے ایک دانے کے برابر سمجھتا تھا۔ اس نے خاکی جسد کو خاک پر ڈالا اور خود آسمانوں کی طرف پرواز کر گیا !�وفاقی دارالحکومت میں ایک سے ایک محل ایسا ہے کہ رباط اور جدہ میں ایسے محل کیا ہوں گے ! اسی بھرے بھرائے مگر اُتھلے شہر کے‘ اسی روشنیوں سے جگمگاتے مگر اندر سے تاریک شہر کے‘ ایک بارہ مرلے کے اوسط درجے کے گھر میں پروفیسر صاحب رہتے تھے۔ اس گھر کے لان میں جامن کا ایک درخت تھا۔ ان سطور کے لکھنے والے نے جامن کبھی رغبت اور اشتیاق سے نہیں کھائے۔ مگر پروفیسر صاحب کے لان کا یہ درخت جامن گراتا تو ایک ایک جامن ہیرے اور موتی کی طرح لگتا اور میں دلبستگی اور آرزومندی کے ساتھ کھاتا کہ کیا خبر اُس علم کے دریا کا کوئی ایک آدھ قطرہ میرے حصے میں بھی آجاتا جو پروفیسر صاحب کے سینے کے اندر موجزن تھا! انگریزی ادب اور لغت کے وہ بہت بڑے عالم تھے۔ بائیس برس شرق اوسط میں انگریزی لغت اور ادب کی تعلیم دی۔ شہزادے اور بادشاہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔ انہیں جھُک کر ملتے۔خود پروفیسر صاحب نے اس عرصہ میں عربی سیکھی۔امتحان پاس کیے۔مقامی لہجے( Colloquial)کے گویا ماہر ہو گئے۔میری ان سے جب ملاقات ہوئی وہ شرق اوسط سے واپس آچکے تھے۔ اُن سے یارِ مہرباں سید فاروق گیلانی نے ملاقات کرائی۔ یہ دونوں اصحاب اسلام آباد کلب میں بیٹھتے تھے۔ بیٹھتے کیا تھے۔ مجلس آرائی کرتے تھے۔ یہ چراغ تھے۔ان سے علم کی ادب کی‘ فصاحت کی‘ شاعری کی‘ منطق کی‘رموز و اسرار کی‘ شعاعیں پھوٹتی تھیں۔ دونوں فیاض تھے اور انتہا درجے کے مہمان نواز! میں بھی اس مجلس کے خوشہ چینوں میں تھا۔ بس چلتا تو پروفیسر صاحب سے سبقاً سبقاً‘ شیکسپئیر‘ ٹی ایس ایلیٹ اور ایزرا پاؤنڈ پڑھتا۔ جدید اور قدیم انگریزی ادب ان کے سامنے دست بستہ کھڑا تھا۔ انگریزی کی کلاسیکی شاعری ان کی کنیز تھی! کوئی ایک مجلس بھی ان کے ساتھ ایسی نہ تھی جس میں کچھ سیکھا نہ ہو۔ ان کا انگریزی کالم ایک پہاڑی جھرنے کی طرح ہوتا جس سے لفظ اور جْملے آہستگی کے ساتھ نکلتے مگر دور‘بہت دور‘ تک جاتے۔ کیا سحر طاری کر دیتی ان کی انگریزی انشا پردازی! نصر اللہ خان عزیز نے ابو الکلام آزاد کی خطابت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی تھی '' یوں لگتا تھا جیسے قمقموں سے روشنی نکل نکل کر خلقت کے سر پر چادر کی طرح تانی جا رہی ہو‘‘ پر و فیسر صاحب انگریزی بولتے یا لکھتے تو لگتا روشنی ستاروں سے چھن چھن کر ہم پر برس رہی ہے۔ پھر جانے کیا سوجھی۔ اڑسٹھ سال کی عمر میں قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کرنے لگے۔ خمیر لٹریچر سے بنا تھا۔ قانون کو بھی اسی رفعت پر لے گئے۔ بولتے تو عدالتیں ہمہ تن گوش ہو جاتیں کہ قانون اور ادبِ عالیہ یکجا ہو رہے ہوتے۔ جج حضرات ان کی انگریزی سے مسحور ہو جاتے۔ حیران ہو جاتے! انہیں کیا معلوم کہ علم اور فصاحت کا یہ بحر بیکراں معاوضے کے لیے وکالت نہیں کر رہا بلکہ اپنی اُس رگ کی تسکین کر رہا ہے جو علم کی جویا ہے اور جوایک سے ایک نئی منزل کی تلاش میں ہے۔�پھر اس منڈلی کو نظر لگ گئی۔ فاروق گیلانی نے ڈھلتے ہوئے سال کے ایک بے فیض دن‘ چرم کے موزے پہنے۔چادر کندھے پر ڈالی۔ پٹکا کمر سے باندھا۔ عصا ہاتھ میں لیا۔ گھوڑے پر بیٹھے۔ مہمیز لگائی اور نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ میں ملک سے باہر ہوا ماپ رہا تھا اور گرد چھان رہا تھا۔ پروفیسر صاحب کو فون کیا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ ہماری تکون ٹوٹ گئی تھی! مثلّث کا وَتر چلا گیا تھا۔ میں نے مرثیہ کہا تو ہر شعر پر تڑپ تڑپ اٹھے۔ صادق نسیم کا یہ شعر انہیں سنایا تو گویا اسے حرزِ جاں ہی بنا لیا�
وہ میرا شعلہ جبیں‘ موجۂ ہوا کی طرح
دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا
پروفیسر صاحب کلب میں آتے رہے۔ فرینچ فرائز اور اچھی چائے ! بس انہی دو اشیا کے رسیا تھے۔ کوشش کرتا کہ کسی مجلس سے غیر حاضر نہ رہوں کہ غیر حاضری طالبِ علم کے لیے گھاٹے کا سودا تھی۔میرے اور فاروق گیلانی کے بچوں کو کوئی کامیابی ملتی تو خوشی منانے کے لیے دعوتیں کرتے۔ عام گفتگو میں بھی مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ عرض کیا کہ خود نوشت تحریر فرمائیں۔ کہنے لگے ''بادشاہ ہیں آپ ! ادھر گھُٹنے کام نہیں کر رہے‘ آپ کہتے ہیں خود نوشت لکھوں!!‘‘ مرضیہ بیٹی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا: انکل خود نوشت کو چھوڑیں‘ بس زندگی سے لطف اٹھائیں‘‘۔بہت خوش ہوئے کہ یہی کچھ وہ چاہتے تھے۔ فاطمہ بیٹی کا نام انہوں نے
unguided missile
رکھا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ خیال اُن کا اُسی نے رکھا۔ آہستہ آہستہ گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔یہ اور بات کہ لکھنے پڑھنے کا کام کم نہ ہوا۔ مطالعہ گھُٹی میں پڑا ہوا تھا۔ کالم پڑھ کر فون کرتے اور حوصلہ افزائی فرماتے! صاف معلوم ہو رہا تھا کہ چراغ بھڑک کر بجھنے کو ہے۔ ایک روشن ستارہ ٹوٹنے کو ہے! تقویم کا ایک صفحہ الٹنے کو ہے۔ تند و تیز ہوا ایک بلند ٹیلے کی ریت کو آہستہ آہستہ اُڑا لے جا رہی تھی۔ ہم ٹیلے کو کَم ہوتے‘ گھَٹتے‘ دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے۔ آخری فتح قدرت کی ہوتی ہے یا شاید موت کی ! پروفیسر صاحب‘ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ لافانی مصرع اکثر پڑھا کرتے:
I have measured out my life with coffee spoons
کہ میں نے اپنی زندگی کو کافی کے چمچوں سے ماپا ہے۔ ہمیں جب کافی کے چمچوں سے زندگی کو ماپنا سکھا چکے تو خود چلے گئے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment