پندرہ سال سے کچن کی دیوار گری پڑی ہے۔ رات کو بلیاں کچن میں گھس جاتی ہیں۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ گھر کی چاردیواری قائم ہے ورنہ کتے بھی کچن میں رکھے برتنوں میں منہ مار رہے ہوتے۔ بیوی چلّا چلّا کر تھک گئی۔بیٹی نے کئی بار یاد دلایا۔ مگر چودھری صاحب سے دیوار دوبارہ نہ بنی۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ انہی چودھری صاحب کو شہر کی تعمیرِ نو کا ٹھیکہ دے دیا گیا! لطیفہ! اور اتنا دردناک! جو شخص پندرہ سال میں گھر کے کچن کی مرمت نہ کر سکا‘ وہ پورے شہر کی تعمیرِ نو کس طرح کرے گا؟
پندرہ سال پہلے وفاقی دار الحکومت میں ایک تنازع اٹھا۔ جو ہوا غلط ہوا۔ مگر جو ہونا تھا‘ ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ آج‘ پندرہ سال کے بعد بھی‘ اس تنازع سے جُڑی شاہراہ‘ جو شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے‘ بند ہے! یہ شاہراہ میلوڈی مارکیٹ کو آب پارہ بازار سے ملاتی ہے۔ اس ڈبل شاہراہ کا ایک حصہ کئی سال سے ٹریفک کے لیے بند رہا۔ ڈبل روڈ‘ عملاً‘ سنگل روڈ بنی رہی۔ شہری‘ اور پورے ملک سے آنے والے مسافر‘ سالہا سال اذیت میں مبتلا رہے۔ خدا خدا کر کے گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے شاہراہ واگزار ہوئی۔ اور اب پھر بند کر دی گئی ہے!
آپ انصاف کیجیے‘ جس ملک سے‘ جس ملک کی حکومتوں سے‘ جس ریاست سے‘ ایک مسجد اور شاہراہ کا مسئلہ حل نہیں ہورہا اور پندرہ سال سے شہری سولی پر اٹکے ہوئے ہیں‘ وہ ملک‘ وہ ریاست‘ اس ملک کی حکومتیں‘ اس زعم میں ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں گی‘ افغانستان کا مسئلہ حل کر لیں گی‘ خارجہ امور طے کر یں گی اور تئیس کروڑ آبادی والا ملک چلا لیں گی! تو پھر ملک ٹھیک اُسی طرح چل رہا ہے جیسے دارالحکومت میں یہ شاہراہ چل رہی ہے! کوئی آپ سے پوچھے کہ پاکستان کس طرح چل رہا ہے تو چُپ کر کے اُسے یہ بند شاہراہ دکھا دیجیے۔ سمجھ جائے گا کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے!
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قصور مسجد والوں کا ہے یا انتظامیہ کا‘ نہ یہ ہمارا منصب ہے! ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسئلے کو حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ اندازہ لگائیے! اس دارالحکومت کے نام پر کتنا بڑا سیٹ اَپ قائم ہے۔ ڈپٹی کمشنر‘ اس کے اوپر چیف کمشنر! پھر ایک بہت بڑا ترقیاتی ادارہ۔ اس کا چیئر مین۔ اس کے نیچے ممبر۔ پھر ڈی جی۔ پھر ڈائریکٹر۔ نیچے افسروں اور اہلکاروں کے لشکر کے لشکر۔ پھر ان سب کے اوپر وزارت! وزارت میں گریڈ بائیس کے سیکرٹری صاحب! ان کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹریوں‘ جوائنٹ سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کے گروہ! ان کے نیچے پھر افسروں اور اہلکاروں کے لشکر! ان سب کے اوپر وزیر صاحب اور ان کا عملہ! ذرا سوچیے۔ یہ سارا سیٹ اَپ اس بھوکی‘ ننگی‘ قلاش قوم کو کتنے میں پڑ رہا ہوگا! گاڑیاں! پٹرول! ڈرائیور‘ سرکاری مکانات! تنخواہیں! ہاؤس رینٹ‘ میڈیکل اور ٹی ڈی اے کی مَدّات (Heads) میں آسمان بوس اخراجات! اور اس سارے قوی ہیکل سیٹ اَپ کا حاصل حصول اور وصول کیا ہے ؟ ایک مسجد اور ایک شاہراہ کا مسئلہ پندرہ سال سے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ حل کیا ہے! شاہراہ کا ایک حصہ بند کر دیجیے! ماں صدقے!! کوتاہ نظری (Myopia) کی اس سے بد تر مثال کیا ہو گی ؟ کند ذہنی اور کسے کہتے ہیں ؟ اور جب یہ سب اہلکار اور افسر Presentation دینے کھڑے ہوں گے تو مشن سٹیٹمنٹ اور وژن کے نام پر ستارے توڑ لانے کی باتیں کریں گے! سنتے جائیے! سر دھنتے جائیے! باہر نکلیں گے تو شاہراہیں بند! اور جس شاہراہ کا ہم ماتم کر رہے ہیں وہ شہر کے دل میں واقع ہے! ایک طرف آبپارہ کا‘ مصروف‘ لوگوں سے چھلکتا بازار‘ ایک طرف اتوار بازار! ایک طرف میلوڈی مارکیٹ‘ جس کے اندر شہر کا مصروف ترین فوڈ پارک‘ ساتھ جی پی او! ساتھ ہسپتال! ارد گرد سکول اور کالج! آبادی چاروں طرف گنجان! اور غضب خدا کا پندرہ برسوں سے مسئلے کا حل صرف یہ کہ شاہراہ بند کر دیجیے!
کیا اربابِ اختیار اتنا نہیں کر سکتے کہ علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دیں۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کمیٹی کی سربراہی قبول فرمائیں۔ جامعہ اشرفیہ اور دیگر معروف مدارس کے علما کو اس کمیٹی میں شامل کریں۔ جہاں تک ہمیں علم ہے‘ مولانا عبد العزیز‘ جو خود عالم ہیں‘ علما کا بہت احترام کرتے ہیں اور ایک شائستہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے والد گرامی مرحوم‘ مولانا محمد عبداللہ سے اس قلمکار کے والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہورالحق ظہورؔ کے بہت اچھے مراسم تھے۔ کمیٹی کے سامنے فریقین کا موقف رکھا جائے۔ قانونی پوزیشن واضح کی جائے اور پھر کمیٹی کے فیصلے پر پوری دیانتداری اور صدقِ دل سے عمل کیا جائے! کیا ارباب ِاختیار کو نہیں معلوم کہ اگر مسئلہ حل نہ کیا گیا تو کسی بھی وقت بات بڑھ سکتی ہے! سلگتی ہوئی چنگاری کسی بھی وقت بھڑک کر شعلہ بن سکتی ہے! جو کچھ ہو چکا‘ کیا وہ کافی نہیں ؟ کیا ہم کسی اور المیے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ان اربابِ اختیار کی خدمت میں یہ عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ایک صاحب تھے جنہیں دنیا سعدی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ گھومتی ہوئی کرسی پر بیٹھتے تھے نہ ان کے آگے پیچھے نقیب ہٹو بچو کی آوازیں لگاتے تھے مگر تھے بہت جہاندیدہ اور دانا! اچھے زمانوں میں تربیت کے لیےHumpty Dumpty اور Twinkle Twinkle یاد نہیں کرائے جاتے تھے بلکہ سعدی کی گلستان اور بوستان پڑھائی جاتی تھی۔ اس سے ادب آداب بھی آتا تھا اور زندگی گزارنے اور حکومت کرنے کا اسلوب بھی!! تو یہی صاحب‘ سعدی‘ کہتے ہیں کہ
سرِ چشمہ شاید گرفتن بہ مِیل
چو پُر شُد‘ نشاید گذشتن بہ پیل
کہ چشمے کا سوراخ ابتدامیں ایک سلائی سے بند ہو جائے گا لیکن اگر پانی زیادہ ہو گیا تو ہاتھی پر سوار ہو کر بھی پار جانا ممکن نہیں ہو گا!
یہ صاحب یہ بھی کہتے ہیں :
دیدیم بسی کہ آبِ سر چشمہ خُرد
چون بیشتر آمد‘ شتر و بار ببرد
یعنی ہم نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ چھوٹے سے چشمے کا پانی جب زیادہ ہو گیا تو اونٹ اور اس پر لدا ہوا سامان‘ سب کچھ بہالے گیا۔
اور اگر مزید پندرہ برس اسی ایڈہاک ازم اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے ساتھ گزارنے کا پلان ہے تو اعتراف کیجیے کہ ریاست اور حکومتیں یہ مسئلہ حل کرنے کے قابل نہیں! آخری حل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو یا دوست ملکوں کو اپیل کیجیے کہ آکر فی سبیل اللہ اس مسئلے کا حل نکال دیں۔ چین کے صدر‘ ترکیہ کے صدر اور سعودی عرب کے بادشاہ پر مشتمل ایک ہائی لیول کمیشن ہو جو آ کر بتائے کہ شہرکے عین درمیان‘ شاہراہ بند کر دینا کوئی اندازِ حکمرانی نہیں! ٹوپی چھوٹی ہو تو سر نہیں کاٹتے‘ ٹوپی بڑی کرتے ہیں! یہ کبوتر کی صفت ہے کہ آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے بلّی کا خطرہ ٹل گیا! مسائل آنکھیں چرانے سے نہیں حل ہوتے۔ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہوتی ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں اپنے ہی دارالحکومت کی ایک شاہراہ نہیں کھول سکتیں تو پھر اس میں تعجب ہی کیا ہے اگر آج ملک مسائلستان بنا ہوا ہے۔ زمین کا ملکیتی ڈھانچہ‘ سرداری نظام‘ بڑھتی ہوئی آبادی‘ خواندگی کا تناسب‘ سمگلنگ‘ مہنگائی‘ حقوق ِنسواں‘ ٹریفک‘ لوڈ شیڈنگ‘ یہ سب ان کی بساط سے باہر ہیں! جبھی تو قوموں کی فہرست میں ہمارا مقام باعث ِ شرم ہے!!!
No comments:
Post a Comment