مولانا طارق جمیل صاحب نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ شاید رفعِ شر کے لیے۔ شاید انکسار کے سبب! غلطی کو تسلیم کرنا بڑائی کی علامت ہے۔ اس سے شان میں کمی نہیں‘ اضافہ ہوتاہے!
اس میں کیا شک ہے کہ میڈیا نے قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک میں صحافیوں نے جان کی بازی لگائی ہے۔ میڈیا کا ایک کردار ہے قومی تعمیر میں۔ سکینڈل بریک کرنے میں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکومتِ وقت کی جہاں حمایت ہوتی ہے وہاں اسی میڈیا پر حکومتِ وقت پر تنقید بھی ہوتی ہے جو آسان کام نہیں! اس میں پرنٹ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا معیار ریٹنگ ہے۔ ریٹنگ کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سطح سے نیچے آنا پڑتا ہے۔ جبھی تو بعض ایسے افراد کو بھی اینکر حضرات اکثر و بیشتر انٹرویو کے لیے بلاتے رہتے ہیں جو متین کم اور مقبول زیادہ ہیں!
رہی مولانا صاحب کی یہ بات کہ ساری قوم یا سارا معاشرہ ہی جھوٹا ہے تو انہوں نے وضاحت کر دی کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمومی رویہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس دورِ فتن میں بھی سچ بولتے ہیں اور بول رہے ہیں۔ یوں بھی کُلّیہ یہ ہے کہ جب ہم سو فیصد کہتے ہیں تو مراد نوے پچانوے فیصد ہوتی ہے اور جب صفر فیصد کہتے ہیں تو مراد پانچ دس فیصد ہوتی ہے!
اس میں کیا شک ہے کہ بحیثیت مجموعی ہماری دیوار جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور بے تحاشا بولتے ہیں۔ دکاندار گاہک سے‘ گاہک دکاندار سے‘ والدین اولاد سے‘ اولاد والدین سے‘ افسر ماتحت سے‘ ماتحت افسر سے‘ عوام رہنمائوں سے‘ رہنما عوام سے سب جھوٹ بولتے ہیں۔ برملا بولتے ہیں۔ جھوٹ کی ایک بدترین قسم وعدہ خلافی ہے اور ہمارے ہاں تو ریاست کے ایک سابق سربراہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ وعدہ قرآن و حدیث نہیں کہ پورا کیا جائے! گویا وعدہ خلافی کا جواز مہیا کیا جا چکا ہے!
دکاندار گاہک سے کہتا ہے یہ کپڑا یا جو بھی چیز ہے‘ لے جائیے‘ کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ گاہک گارنٹی کی تحریر مانگتا ہے تو دکاندار کہتا ہے گارنٹی زبانی ہے۔ دوسری طرف گاہک جھوٹ بولتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اس قیمت پر لے گیا تھا۔ تب دکاندار کہتا ہے کہ خدا کا خوف کیجیے‘ دکان تو تین دن پہلے شروع کی ہے۔ پچھلے ہفتے تھی ہی نہیں!
کیا ہم مقررہ وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ملاقات کا وقت پانچ بجے طے ہو تو سات بجے پہنچتے ہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ راستے میں ہیں۔ سائل چل چل کر جوتے توڑ دیتا ہے مگر ہر بار دفتر کا اہلکار کہتا ہے :کل آئیے کام ہو جائے گا۔ کتنی باراتیں مقررہ وقت پر پہنچتی ہیں؟ کتنے ولیمے دیئے ہوئے وقت پر منعقد ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کا انتظار ہو رہا ہے۔ وہ گھنٹوں تاخیر سے آتے ہیں۔ تب حاضرینِ مجلس کو کھانا ملتا ہے۔ ٹرینیں اور جہاز چلانے والے وعدے کے کتنے پابند ہیں؟ جہاں دوسری ائیر لائنوں کے جہاز وقت سے پانچ منٹ پہلے لینڈ کرتے ہیں‘ وہاں ہمارے جہاز گھنٹوں لیٹ پہنچتے ہیں۔ ہماری ائیر لائنز کے بارے میں تو یہ کہاوت ہی بن گئی تھی کہ کنکٹنگ فلائٹ مِس کراتی ہے۔ یہ بھی تب کی بات تھی جب دنیا کے بہت سے شہر‘ ہماری منزلوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب تو بہت کچھ چھن چکا!
جھوٹ کو کوّر کرنے کے لیے ہم نے یُو ٹرن کی اصطلاح عام کی! ایک زمانہ تھا کہ وعدہ خلافی معشوق کی مشہور تھی۔ اب ہر شخص معشوق ہے! ہماری ٹیلی فون کالوں کا سروے کیا جائے تو چالیس پچاس فیصد کالیں تو صرف اس ''یاددہانی‘‘ کی نکلیں گی کہ آپ نے فلاں وقت آنا تھا‘ آئے نہیں۔ فلاں شے پہنچانا تھی‘ نہیں پہنچائی۔ مال ڈیلیور کرنا تھا‘ انتظار کر رہے ہیں! جب ہم بورڈ پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ کھانے یا نماز کا وقفہ ایک سے دو بجے تک ہے تو یہ وعدہ ہے کہ دو بجے آ جائیں گے‘ مگر سائل کھڑے ہیں‘ دو بجے کوئی نہیں آتا۔ کھڑکی اُس وقت کھلتی ہے جب مرضی ہو‘ جب دل چاہے!!
مثال ہم سرورِ کونینﷺ کی دیتے ہیں کہ کسی نے انتظار کرنے کا کہا اور پھر بھول گیا۔ آپؐ تین دن وہاں انتظار فرماتے رہے۔ رویّہ ہمارا بالکل مختلف ہے۔ جنہیں ہم کفار گردانتے ہیں‘ ان کے ہاں ایک ایک سیکنڈ کے حساب سے وعدے کی پابندی ہے۔ دعوت پر بلائیں تو عین مقررہ وقت پر پہنچیں گے۔ دکانیں دیئے ہوئے وقت پر کھلیں گی اور بند ہوں گی! زندگی اس وجہ سے ہموار ہے اور سہل ہے۔ اپنے ہاں کچھ مشکلات کا حل تو ہمارے بس میں نہیں‘ مگر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے ہم نے مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رکھا ہے جبکہ یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ایک عام شہری جھوٹ بولتا ہے یا وعدہ شکنی کرتا ہے تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے یا سیاست دانوں کو کیسے ملزم ٹھہرا سکتے ہیں یا اہلِ مذہب کی کیا غلطی ہے؟ کون سا واعظ ہے جو سچ بولنے کی تلقین نہیں کرتا؟ کون سا عالمِ دین ہے جو عہد شکنی کی سزا سے نہیں ڈراتا مگر ہم عوام ہیں کہ اسی ڈھرے پر چلے جا رہے ہیں! خدا کا خوف ہے نہ معاشرے کا! ایسے میں اگر مولانا نے ایک عمومی رنگ میں‘ اکثریت کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ سب جھوٹ بولتے ہیں تو کیا غلط کہا ہے؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سچ کوئی نہیں بولتا۔ بہت سے لوگ‘ الحمد للہ ایسے موجود ہیں جو سچ بولتے ہیں اور دروغ گوئی سے احتراز کرتے ہیں!
ہاں! ایک گزارش کرنی ہے۔ یہ کالم نگار ان کا مداح ہے! وہ بھی اس بے بضاعت پر کرم فرمائی کرتے ہیں۔ کوئی غلط فہمی ہو تو فون پر وضاحت فرماتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے مسئلہ اٹھا تو انہوں نے بیرون ملک سے وڈیو کال پر یاد فرمایا اور مسئلہ سمجھایا۔ وضاحت بھی فرمائی۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ ہر شخص سے‘ قطعِ نظر اس کی حیثیت کے‘ بات کرتے ہیں اور خود بات کرتے ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صرف مشاہیر اور Celebrities پر توجہ دیتے ہیں تو یہ یوں غلط ہے کہ مشاہیر سے بات کرتے ہیں تو وہ میڈیا میں خبر بن جاتی ہے۔ عام لوگوں سے وہ ہر وقت رابطے میں ہیں‘ مگر ظاہر ہے اس کی خبر نہیں بنتی نہ بن سکتی ہے!
گزارش یہ ہے کہ اگر حضرت مولانا کسی حکمران کے پاس بھی نہ جائیں تو کیا حرج ہے! نواز شریف کے پاس جاتے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اعتراض کرتے تھے۔ اب موجودہ وزیراعظم سے ملتے ہیں تو حکومت کے مخالف معترض ہیں۔ اگر اس ہنگامہ خیزی سے گریز کرنے میں عافیت ہو تو اس عافیت کو کیوں نہ اپنایا جائے؟ حکمرانِ وقت کو‘ خواہ میاں صاحب ہوں خواہ کپتان صاحب ہوں‘ اگر نصیحت کی ضرورت ہے تو کنواں پیاسے کے پاس چل کر کیوں آئے؟ پیاسا کنوئیں کی طرف کیوں نہ قدم بڑھائے؟ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
حکمرانی کی تاریخ بھی عجیب ہے! حکمران پامسٹوں‘ نجومیوں یہاں تک کہ ملنگوں کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ پیٹھ پر ڈنڈے کھاتے‘ دور افتادہ بستیوں کا سفر کرتے ہیں۔ ''بابوں‘‘ کے ہاں حاضریاں لگواتے ہیں۔ پیر مردوں اور پیر خواتین کی درگاہوں میں جاتے ہیں۔ تو پھر مولانا طارق جمیل صاحب جیسے علما اور مبلغین کے حضور کیوں نہیں حاضر ہوتے؟ دعا کرانی ہے تو انہیں زحمت دینے کے بجائے‘ ان کے آستانے پر جائیں!
حکمران ہمیشہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ لاکھ حامی تو دو لاکھ مخالف! کوئی حکمران بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو سو فیصد ہم نوائی حاصل ہو! اس لیے ان سے احتراز ہی میں عافیت ہے! بجائے اس کے کہ بعد میں وضاحتیں کرنا پڑیں اور اعتذار کرنا پڑے‘ کیا بہتر نہیں کہ دامن ہی بچا لیا جائے؟ میڈیا کے اس طلسماتی دور میں کسی حکمران کو نصیحت کرنی ہو‘ تنبیہ کرنی ہو‘ تو مسجد میں بیٹھ کر کریں‘ تب بھی چند منٹ کے اندر اندر وہاں پہنچ جائے گی! یہ الگ بات کہ حکمران اس پر توجہ دیں یا درخورِ اعتنا نہ سمجھیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment