بات گھبرانے کی بھی ہے اور فخر کرنے کی بھی!
یہ کیسا وقت آن پڑا کہ بے دینی اور اسلام دشمنی کی لہر‘ عالم اسلام تک آ پہنچی! دشمن کے ایجنٹ ہمارے ملکوں میں گھس آئے۔ کسی نے ایک لبادہ پہنا‘ کسی نے دوسرا! ہم پہچان ہی نہیں سکتے کہ کون کیا ہے!
کورونا کے نام پر ترکی سے لے کر مصر تک‘ ایران سے لے کر مراکش تک‘ ہماری مسجدیں بند ہو گئیں اور تو اور علما نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ مسلمانوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ اذان میں حیَّ عَلی الصٰلواۃ کے بجائے صلوا فی بیوتکم کے الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔ جامعہ ازہر مصر کی سپریم کونسل نے بھی فتویٰ دے دیا کہ نماز باجماعت اور نمازِ جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے بھی ہدایت کر دی کہ تراویح اور عیدالفطر کی نمازیں گھروں میں ادا کریں اور یہ کہ تراویح سنّت ہے فرض نہیں اور یہ کہ نبی اکرمﷺ تراویح کی نماز گھر پر بھی ادا فرماتے تھے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق سعودی علماء سپریم کونسل نے بھی مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ جہاں کورونا کا حملہ جاری ہے تو وہ نماز اور تراویح گھروں میں ادا کریں!
قصّہ مختصر‘ اسلامی ملکوں میں غیر معینہ مدت کیلئے مساجد میں نماز باجماعت پر پابندی ہے‘ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ پیش آیا ہے حرمِ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ میں بھی زائرین کے داخلے پر پابندی ہے!
ان دگرگوں حالات میں ہم اہل پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے اسلام کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا اور تھام لیا۔ عالم اسلام میں یہ صرف ہمارے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے مسجدیں کھولے رکھنے کا فتویٰ دیا‘ نمازِ باجماعت جاری رکھنے کا حکم دیا اور اب رمضان میں تراویح کی نماز بھی گھروں کے بجائے مسجدوں میں ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
ہمارے دینی پیشواؤں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتِ پاکستان کو بھی قائل کر لیا کہ حکومت ان کے مؤقف کی حمایت کرے؛ چنانچہ اب ہمارا ملک‘ کورونا زدہ اسلامی ملکوں میں‘ کم و بیش واحد ملک ہے جہاں مسجدوں میں نمازی باقاعدہ حاضر ہو رہے ہیں!
اس امتیازی حیثیت پر‘ ہم اہلِ پاکستان‘ جتنے خوش ہوں‘ جس قدر اطمینان کا اظہار کریں‘ جتنا شکر بجا لائیں‘ اتنا ہی کم ہے! یہ ایک سرخاب کا پَر ہے ‘جو ماشا ء اللہ ہماری ٹوپی میں لگا ہے!
کچھ ناعاقبت اندیش اس قسم کی غلط باتیں کہہ رہے ہیں کہ دوسرے مسلمان ملکوں میں مذہب کو کاروبار کا ذریعہ بنانے کی اجازت ہے نہ چندہ مدارس اور طلبہ کے نام پر جمع کر کے ذاتی مصارف پر خرچ کرنے کا رواج ہے۔ نہ ہی مدرسہ قائم کرنا اور چلانا پیشوں میں سے ایک پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ بدنہاد یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ ملائیشیا ‘مصر‘ ترکی‘ مراکش اور مڈل ایسٹ کے تمام عرب ملکوں میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں اور یہ کہ ان تمام ملکوں میں مسجدوں کی امامت اور خطابت کا سلسلہ موروثی اور خاندانی نہیں!
مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ناعاقبت اندیش‘ بدنہاد‘ مفسد اور مذہب دشمن لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا چاہیے نہ انہیں کوئی اہمیت دینی چاہیے! ان کم فہم معترضین کو معلوم ہی نہیں کہ نیک مقاصد کیلئے چندہ جمع کرنا کارِ ثواب ہے اور مسجدوں کو خاندانی سلسلوں کی تحویل میں دینے سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ کسی وقت خدانخواستہ امام صاحب داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیں تو نیا امام تلاش نہیں کرنا پڑتا اور خلف الرشید فوراً تیار ملتا ہے!
مگر ایک بات کا قلق ہے اور بہت قلق ہے! عالمِ اسلام پر ابتلا کا وقت ہے اور ہمارے محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس ابتلا کی فکر نہیں فرما رہے! وہ صرف اس پر مطمئن ہیں کہ پاکستان میں مسجدیں کھلی ہیں‘ نماز باجماعت ہو رہی ہے اور تراویح کی نماز بھی ادا کی جائے گی۔ انہیں دوسرے مسلمان ملکوں کی فکر نہیں نہ ان ملکوں کے نمازیوں کی پروا ہے! عالم اسلام ہمارے علما کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
ہمارے علماء کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ غلط کو غلط کہنا ایک مسلمان عالمِ دین پر فرض ہے! الازہر‘ سعودی مفتی صاحب اور ان ملکوں کی سپریم علما کونسلیں‘ اگر درست بات کرتیں تب تو ہمارے علما کی خاموشی قابل ِفہم تھی مگر وہ درست نہیں‘ جبھی تو ہمارے علما نے ان کے فتاویٰ کے برعکس یہاں مختلف احکام جاری کئے۔تو ان حالوں‘ ہمارے علما کی خاموشی ہم مقتدیوں کیلئے باعثِ تشویش ہے!ہم التجا کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف علماء کرام قدم اٹھائیں‘ حرمین شریفین بند ہیں۔ اگر یہ درست نہیں تو علما خاموش کیوں ہیں؟ وہ احتجاج کریں‘ ہم عوام ان کا ساتھ دیں گے! دوسرے ملکوں کے علما اور مفتیوں کی آخر ہمارے علما اور ہمارے مفتیوں کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے؟ اسلام کا جو علم ہمارے ان مقدس رہنماؤں کو حاصل ہے‘ اس کی ثقاہت کا دوسرے مسلمان ملکوں کے علما سوچ ہی نہیں سکتے! کہاں ہمارے علما! کہاں مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ! کہاں ہمارے مفتیان عظام کہاں الازہر کی سپریم کونسل! چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک!
علما کی خاموشی اس نازک موقع پر ہماری فہم سے باہر ہے۔ ہمیں تو انہی بزرگوں نے یہ پڑھایا تھا کہ ؎
اگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم‘ گناہ است
بصارت سے محروم ایک شخص کنویں کی طرف جا رہا ہے تو ایسے موقع پر خاموشی گناہ کے مترادف ہے!
اے ہمارے مقدس علما ء کرام! اے واجب الاحترام مفتیانِ عظام! اُٹھیے! عالم اسلام پر چھائے ہوئے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیے! آپ ہمارے رہنما اور ہادی ہیں! ہم آپ کے پیچھے ہیں۔
پہلے تو علما حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کریں کہ وہ مداخلت کرے اور ان ملکوں میں‘ مسجدوں کو‘ بشمول حرمین شریفین‘ کھلوانے کے اقدامات کرے! اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنما‘ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے‘ ان مسلمان ملکوں کے سفارت خانوں سے رجوع فرمائیں اور جا کر اپنا احتجاج نوٹ کرائیں تاکہ دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص معلوم ہو جائے کہ جب مراکش سے لے کر ملائیشیا تک اور ترکی سے لے کر یمن تک دین کا علم عنقا ہو گیا ہے اور کسی کو اسلامی احکام کا پتہ نہیں‘ تو ہمارے علما اس وقت بھی علم اور تفقہ سے پوری طرح بہرہ ور ہیں!
اگر یہ تدبیریں کارگر نہ ثابت ہوں تو یہ جہاد رکنا نہیں چاہیے۔ اگلے مرحلے میں ہمارے علماء کرام کا وفد ان تمام ملکوں میں جا کر ان کی حکومتوں کو سمجھائے۔ ان کے اہلِ علم سے مناظرہ کرے اور اگر حق بات کیلئے مجادلہ بھی کرنا پڑے تو پیچھے نہ ہٹیں!اس وفد کے تمام اخراجات ہم عوام اٹھائیں گے اس لیے کہ ہمارے مالی وسائل اس نیک کام پر نہ خرچ ہوئے تو پھر کہاں خرچ ہوں گے؟
پش نوشت۔ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دوسرے مسلمان ملکوں کے علما کو سمجھانے کے بجائے حضرت مولانا فضل الرحمن نے ایک لحاظ سے ان کی حمایت کردی ہے اور فرمایا ہے
کہ ''میں نماز گھر میں پڑھوں گا اور تراویح بھی گھر میں پڑھوں گا‘‘۔
مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے
کہ''ایک وبا پوری دنیا کو لاحق ہے تو پھر جو بھی احتیاطی تدابیر اس حوالے سے ہیں وہ سب اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ سعودی حکومت نے بھی وہاں اگر پابندیاں لگائی ہیں تو ہم سے زیادہ وہ حرمین کے تقدس اور مقام کو جانتے ہیں اور ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کرئہ ارض کے کونے کونے سے مسلمان اُدھر کا رخ کرتے ہیں تو اس کا ان کو بھی احساس ہے‘ لیکن انسانی ہمدردی کا تقاضا اس وقت یہ ہے کہ اس قسم کے اجتماعات سے پرہیز کیا جائے اور یہی پرہیز اس کا علاج ہے‘‘۔
یہ جو بازار‘ بینک وغیرہ کھلے ہیں تو اس کے متعلق مولانا ...
نے کہا ہے
کہ ''ردعمل یہ آیا کہ اگر یہ جگہیں کھلی ہیں تو پھر مساجد کو کیوں بند کیا جاتا ہے تو میں نے ذاتی طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ مناسب بات نہیں ہو گی کہ وہ کھلی ہیں تو مسجد بھی کھلی رہے‘ جب ہم قبول کر رہے ہیں تو دوسری جگہ جہاں حکومت کی نظر نہیں پڑ رہی ہے وہاںبھی اس کی نظر پڑے اور وہاں بھی قدغن لگائیں تاکہ لوگوں کا جمگھٹا نہ ہو اور یہ بیماری کم سے کم پھیلے‘‘۔
ہم محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی توجہ مولانا کے اس بیان کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی عرض ہے کہ جو وفد ہمارے علما کا مسلمان حکومتوں کو سمجھانے اور وہاں کے علما سے مناظرے (اور بوقت ضرورت مجادلے) کیلئے جائے تو اس میں مولانا فضل الرحمن کو شامل نہ کیا جائے!!
No comments:
Post a Comment