عبداللہ صاحب یاد آ رہے ہیں!
یہ ملازمت کے درمیانی عرصہ (مِڈکیریئر) کی بات ہے۔ اگلی ترقی کیلئے تربیتی کورس لازم تھا۔ ساڑھے چار ماہ کا یہ تربیتی کورس کراچی کرنا تھا یا لاہور یا پشاور! اسلام آباد سے پشاور نزدیک ترین تھا؛ چنانچہ پشاور کا انتخاب کیا۔ اس میں قدرت کی مصلحت تھی۔ تربیتی کورس بھی ہو گیا‘ ترقی بھی مل گئی‘ مگر کورس کا اصل حاصل عبداللہ صاحب سے ملاقات تھی۔ وہ ان اکابر میں سے ہیں جن سے راہ و رسم زندگی کی راہیں تبدیل کر دیتی ہے؎
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وہ ان رجالِ خیر سے ہیں جن سے مل کر زندگی گزارنا نہیں زندگی بسر کرنا آ جاتا ہے۔ ڈی ایم جی کے افسر رہے۔ ڈی ایم جی کے افسر تو بہت ہیں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، مگر عبداللہ صاحب، سول سروس کے اس گروپ کیلئے خود باعثِ اعزاز تھے۔ ملازمت اپنے ڈھب سے کی۔ بے خوف اور بے نیاز ہو کر! فارسی شعروادب پر مکمل دسترس! انگریزی زبان کے غضب کے مقرّر! ہمارے تربیتی کورس کے دوران محمدعلی کلے نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ہمارے ادارے میں بھی آئے۔ عبداللہ صاحب نے تقریر کی۔ ایسی کہ سننے والوں کو یاد ہی نہ رہا کس دنیا میں، کس زمانے میں بیٹھے ہیں! الفاظ گویا کسی نامعلوم سمت سے آ رہے تھے اور کانوں کے راستے سے نہیں، براہ راست دل میں اتر رہے تھے۔ محمدعلی کلے کا تقریر پر تبصرہ یہ تھا کہ کسی نان انگلش سپیکنگ شخص کی زبان سے اس نے ایسی تقریر آج تک نہیں سنی۔ اس تقریر کی وڈیوکیسٹ رکھی ہوئی تھی۔ پھر وی سی آرکا زمانہ لدگیا۔ نہیں معلوم اب اسے نئے میڈیم پر کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے!
تربیتی کورس کرانے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ پشاور کے معروف عالم دین قاری روح اللہ صاحب کو درسِ قرآن پر مامور کیا۔ ایبٹ آباد سے چلاسی بابا کو بلایا جنہوں نے ان گردن بلند افسروں سے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کیا۔ یہ کالم نگار بعد میں بھی چلاسی بابا کے ہاں حاضری دیتا رہا۔ اچھے زمانے تھے۔ مڈ کیریئر کورس میں بھی دوملکوں کا بیرونی دورہ شامل تھا۔ ہم ترکی اور اردن گئے۔ وقت کی قلت کے باوجود عبداللہ صاحب نے اسی ٹکٹ میں عمرے کا بندوبست کرایا۔ یہ اس کالم نگار کی پہلی حاضری تھی۔ چار غزلوں کی سیریز ''حرم سے واپسی پر‘‘ اسی عمرے کی دَین ہے!؎
میں تھا قلّاش یا زردار جو بھی تھا وہیں تھا
کہ میرا اندک و بسیار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی
یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں میزان تھی، اوزان لکھے جا رہے تھے
اثاثہ کاہ یا کہسار جو بھی تھا وہیں تھا
وہیں مٹی مری اظہارؔ گوندھی جا رہی تھی
ازل کا اولیں دربار جو بھی تھا وہیں تھا
ترکی میں دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی سفیر کے ہاں مدعو تھے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں ایسی بات کہہ دی جس سے کمال اتاترک کی قائداعظمؒ پر برتری کا پہلو نکلتا تھا۔ عبداللہ صاحب کہاں درگزر کرنے والے تھے۔ بحث چھڑی اور ایسی کہ عبداللہ صاحب نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ انداز ان کا تربیت دینے کا خطرناک تھا۔ بیرون ملک مختلف اداروں کے ہاں اجلاس ہوتے تھے۔ زیر تربیت افسر کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کب اسے دعوتِ مبارزت دی جائے گی! جس دن استانبول چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ میٹنگ تھی، اچانک عبداللہ صاحب نے اٹھ کر کہا:
Mr. Izhar has been midwifing many commercial organization. He will wind up the meeting.
تقریر کیا کرنا تھی۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر بات کی اور قصّہ وسط ایشیا سے شروع کیا۔ اس وقت سوویت یونین کے خاتمے کا کوئی سین نہیں تھا۔ تقریر کے بعد خالد عزیز نے‘ جو پشاور کے کمشنر تھے، خراجِ تحسین یہ کہہ کر پیش کیا کہ ہم سے افغانستان کے مہاجر نہیں سنبھالے جا رہے۔ اظہار! تم وسط ایشیا سے بھی مہاجر منگوانے کے چکر میں ہو!
عبداللہ صاحب مذہبی امور کے وفاقی سیکرٹری رہے۔ پھر کے پی صوبے کے چیف سیکرٹری! اور اگر میں بھول نہیں رہا تو صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بھی! مگر یہ سب کچھ جملۂ معترضہ تھا۔ اصل بات جو بتانا ہے وہ فقرہ ہے جو عبداللہ صاحب نے اپنے والد گرامی کی وفات کی خبر سن کر کہا۔
بتاتے ہیں کہ جدہ میں تعینات تھے۔ والد کی رحلت کا تار پہنچا۔ درماندگی کی کیفیت میں دھڑام سے بیٹھ گئے۔ غیر ارادی طور پر منّہ سے نکلا:
The World Is No More The Same .
کہ دنیا اب کبھی ویسی نہ ہو گی جیسی تھی!
ہر شخص پر انفرادی طور سے یہ وقت آتا ہے۔ کوئی ایسا واقعہ، ایسا حادثہ، ایسا سانحہ پیش آتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ زندگی ایک موڑ مڑتی ہے اور منظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوئی تو کچھ دن بعد ہم میاں بیوی، بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔ اہلیہ نے ایک فقرہ کہا ''اب وہ دن کبھی نہیں لوٹیں گے‘‘ دل میں پیوست ہو گیا۔ کسی کی ماں، کسی کا باپ، کسی کا لخت جگر چلا جائے، کوئی ٹانگ یا بازو سے محروم ہو جائے۔ کوئی صبح اٹھے اور اس کا ملک، ایک اور ملک بنا بیٹھا ہو، کوئی جلا وطن ہو جائے، ان سب صورتوں میں دنیا پہلے جیسی نہیں رہتی مگر صرف اس ایک شخص کے لیے! یہ سب انفرادی سانحے ہیں۔ پہلی بار یہ ہوا ہے کہ کرۂ ارض کے ایک ایک فرد کے لیے دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! عالمی جنگیں آئیں تو بہت سے ملک متاثر ہوئے مگر سارے نہیں! نائن الیون کے بعد یہ فقرہ بہت کہا گیا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی مگر کورونا نے نائن الیون کو جیسے صدیوں پیچھے چھوڑ دیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کچھ بدقسمت ملک نشانہ بنے۔ دہشت گردی کے واقعات کثیرتعداد میں رونما ہوئے مگر بہت سے ملک بالکل متاثرنہ ہوئے جیسے جنوبی امریکہ کے ممالک، جیسے مشرق بعید کے اکثر علاقے! ایئرپورٹوں پر سب کچھ بدل گیا۔ جوتے، کپڑے اتروانے کا رواج پڑا مگر دنیا کی کل آبادی کا کتنا حصّہ ہوائی سفر کرتا ہے؟ اعدادوشمار پانچ فیصدسے لے کر بیس فیصد تک ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں! کچھ اندازے پچاس فیصد تک پہنچتے ہیں مگر یہ سراسر مغالطہ ہے کیونکہ کچھ افراد باربار ہوائی سفر کرتے ہیں۔ ایک ہفتے یا ایک مہینے میں کئی باراور اکثر ساری زندگی ایک بار بھی نہیں کرتے! یوں نائن الیون کے حوالے سے یہ کہنا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، مبالغہ کے سوا کچھ نہیں!
دنیا عملی طورپر لاک ڈائون ہے! کسی کوخبر ہے نہ اندازہ کہ یہ صورتحال کب تک رہتی ہے۔ چھ ماہ! ایک برس! دو برس! یا اس سے بھی زیادہ! ویکسین کب بنتی ہے؟ بن گئی تو کتنوں تک پہنچے گی؟ کتنے ملک اور کتنے لوگ اسے حاصل کرنے کی استطاعت رکھیں گے؟ کتنی مقدار میں بنے گی؟ ہر متاثرہ فرد تک پہنچ بھی پائے گی یا نہیں؟
حکومتوں کی ترجیحات یکسر بدل گئی ہیں۔ اب گاڑیوں، جہازوں، اسلحہ، ملبوسات اور مشینری کی باتیں نہیں ہو رہیں، اب یہ طے کیا جارہا ہے کہ وینٹی لیٹر کتنے بنانے ہیں؟ کتنے درآمد کرنے ہیں؟ ماسک کیسے پورے پڑیں؟ گھروں میں بیٹھے ہوئوں کو ضروریات زندگی کیسے فراہم کی جائیں؟ قرنطینوں کی بڑھتی ہوئی طلب سے کیسے نمٹا جائے؟ پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتوں کو صرف کورونا سے نہیں، ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جو الٰہیات کی من مانی تعبیر کرکے مشکلات پیدا کرتے اور خطرات بڑھانے کا باعث بنتے ہیں!
کلاس روموں میں حاضری خواب و خیال ہوگئی ہے۔ کچھ طلبہ وطالبات آن لائن پڑھائی پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ باقی کیلئے بھی صورتیں نکل آئیں گی! گھر میں بیٹھ کر کمپنی کیلئے کام کرنے کا کلچر پہلے سے محدود تعداد میں موجود ہے۔ گوگل جیسے عظیم الجثہ اداروں کے ملازمین کو یہ سہولت ابتدا ہی سے حاصل تھی۔ اب یہ طریقہ عام کرنا پڑے گا۔ یہ ابتلا اگر چھ ماہ یا سال یا دو سال رہتی ہے تو کاروبارِ دنیا ٹھپ نہیں ہو سکتا۔ نئے طریقے دریافت ہوں گے۔ اس لیے کہ زندگی پانی کی مثال ہے۔ جیسا راستہ ہو، ویسا جسم بنا لیتی ہے۔ میدان میں دریا پھیل جاتا ہے۔ پہاڑی راستہ ہو تو اپنے آپ کو تنگ گزر گاہوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے؎
بدلتے جا رہے تھے جسم اپنی ہیئتیں بھی
کہ رستہ تنگ تھا اور یوں کہ اس میں خم بہت تھا
دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! پہلے شہروں کے محاصرے ہوتے تھے۔ آج پوری دنیا محصور ہے! وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنo ابھی تو وہ کچھ ہو گا جس کا تصوّر ہی محال ہے!
No comments:
Post a Comment