چالیس سال سے تین سال اوپر ہو گئے، سب سے پہلے جس ملک میں جانا ہوا وہ اٹلی تھا۔ پہلے اتوار کو قیام گاہ سے نکلے تو ایسا منظر دیکھا کہ حیرت ہوئی۔ گھروں کے دروازوں سے باہر، مختلف چیزیں رکھی تھیں۔ زیادہ تر گھر کے استعمال کی۔ جیسے کچن کے برتن، کمبل، کرسی، صوفہ، بچوں کی سائیکل وغیرہ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ ایک مقامی شخص سے پوچھا تو مزید حیرت ہوئی کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ بتایا گیا کہ جو اشیا ضرورت سے زائد ہوں، یا ان کا نعم البدل آ جائے تو باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ، جنہیں یہ آئٹمز چاہئیں، لے جا سکیں اور چاہیں تو اس کی جگہ اپنے گھر کا کوئی آئٹم، جو ان کے لیے بیکار ہو، رکھ دیں۔ یہ بیک وقت چیریٹی بھی تھی اور ایکس چینج پروگرام بھی۔ ضروری نہیں کہ لینے والا غریب ہی ہو۔ وہ اسے اپنے گھر کی کسی چیز سے بدل بھی سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی ملکوں میں جانا ہوا جنہیں ہم ترقی یافتہ یا مغربی ملک کہتے ہیں۔ ان میں بھی یہ رواج عام ہے۔ پلنگ اور گدوں سے لے کر کرسیوں، کھلونوں، برتنوں اور ملبوسات تک باہر رکھے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے مدتوں پہلے بتایا تھا کہ امریکہ میں انہیں ایک گھر کے باہر سے ٹائپ رائٹر مل گیا تھا جو ٹھیک حالت میں تھا اور کئی سال ان کے زیر استعمال رہا۔ وہ ٹائپ رائٹروں کا زمانہ تھا۔
کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ ہمارے ہاں بیماری ہے کہ سامان جمع ہوتا رہتا ہے۔ نیا فرنیچر آتا ہے تو پرانا بھی حرزِ جاں بنا رہتا ہے۔ ممٹیوں، چھتوں، گیراجوں اور سٹور رومز میں کاٹھ کباڑ پڑا رہتا ہے جس میں بے شمار اشیا ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کے کام آ سکتی ہیں۔ ہماری خواتین میں ملبوسات کے بعد سب سے زیادہ شوق شاید پلنگ پوش خریدنے اور جمع کرنے کا ہے مگر خال خال ہی پرانے پلنگ پوش کسی کو دینے کا رواج ہے۔ امیر ملکوں میں گھروں سے باہر چیزیں کئی کئی دن پڑی بھی رہتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو ضرورت مند ان گنت ہیں۔ اگر ہم ایسا کرنا شروع کر دیں تو آغاز میں ممکن ہے کچھ لوگ، لالچ کی وجہ سے، بغیر ضرورت بھی چیزیں لے جائیں مگر کچھ مدت بعد معاشرہ تربیت یافتہ ہو سکتا ہے۔ تب لوگ صرف وہی شے اٹھائیں گے جس کی انہیں ضرورت ہو گی اور دوسری چیزیں دوسروں کے لیے چھوڑ دیں گے۔
کھلونے ہر گھر میں ان دنوں بے تحاشا ہیں۔ مڈل کلاس اور اپر کلاس کو تو چھوڑیے، اب زیریں طبقے میں بھی سالگرہ منانے کا فیشن جڑ پکڑ چکا ہے۔ بچوں کو کھلونے خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔ دوسری طرف معاشرہ بے گھروں، مفلسوں اور ناداروں سے بھی بھرا ہے۔ بینک کے گارڈ کی کیا تنخواہ ہو گی؟ پندرہ یا بیس ہزار! بیس‘ پچیس یا تیس ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والا شخص کھلونے کیسے خریدے گا؟ زائد کھلونے ان ترستے ہوئے بچوں کو پہنچائے جانے چاہئیں! گھروں میں چھانٹی ہونی چاہیے اور ضرورت سے زائد سامان ضرورت مندوں کو دے دینا چاہیے! دوائیں گھر میں پڑے پڑے پرانی ہو جاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کی تاریخ گزر جائے کسی ڈاکٹر کو دے دیجیے تاکہ مستحق مریضوں تک پہنچ جائے۔ اسی طرح عینکوں کے فالتو فریم عینک ساز کو دے دینے چاہئیں تاکہ وہ مستحقین کی مدد کر سکے۔ جن حضرات کو کتابیں خریدنے اور جمع کرنے کا شوق ہے کیا انہوں نے کبھی ان لوگوں کا سوچا ہے جو کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں مگر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے؟ اب تو اولڈ بک شاپس میں بھی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایک آئیڈیا یہ ہے کہ ایک بک شیلف، اپنی گلی یا سٹریٹ میں رکھ دیی جائے جس پر پلاسٹک، پڑا ہو تاکہ کتابیں بارش سے بچی رہیں۔ کئی ملکوں میں ایسے بک شیلف گھروں سے باہر دیکھے ہیں۔ لوگ کتابیں لے جاتے ہیں اور رکھ بھی جاتے ہیں۔ مگر یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سہولت کو مسلکی یا فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ منع کرنے پر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اب تو ہجوم اکٹھا کرنا اور مار دینا یا جلا دینا عام ہو گیا ہے۔ بہتر ہے کتابوں کے عطیات لائبریریوں کو دیے جائیں یا زائد کتابیں قریبی احباب اور اقارب کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔
معاشرے میں خیر کے کام کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں اور لا تعداد مواقع ہیں۔ اس سے پہلے ایک بار عرض کیا جا چکا ہے کہ پھل یا گھر کا سودا سلف خریدتے وقت اس ملازم کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو ہمارے گھر میں صفائی کا کام کرتا ہے یا اس خاتون کو بھی جو برتن دھوتی ہے۔ آپ اس کے لیے ایک درجن کیلے ہی خرید لیجیے یا ایک کلو والا چینی کا پیکٹ یا چائے کا ڈبہ‘ یا اس کے بچوں کے لیے شربت کی ایک بوتل۔ اس کے بچے کو سکول کی کتابیں‘ کاپیاں بھی لے کر دے سکتے ہیں۔ ریڑھی پر پھل بیچنے والے سے بھائو تائو کیا کرنا‘ آخر وہ کتنا کما لیتا ہو گا۔ ایک بوڑھے، ضعیف ریڑھی والے سے کچھ خریداری بغیر ضرورت کے بھی کر لیجیے تا کہ اس کی مدد ہو جائے اور اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ آپ کے پڑوس میں یا گلی میں کوئی کنبہ کہیں سے منتقل ہوا ہے، سامان ان کا ابھی بکھرا پڑا ہے۔ پہلے دن ان کے کھانے اور چائے کا بندوبست کرنا، انہیں پینے کا پانی بھیجنا، آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ کھانے یا چائے کا وقت ہے تو الیکٹریشن، بڑھئی، پلمبر، صوفہ ساز یا گٹر کھولنے والا، جو اس وقت آپ کے گھر میں کام کر رہا ہے، آپ کی طرف سے کھانے یا چائے کا حق دار ہے۔ بجا کہ کھانا یا چائے اس کی مزدوری یا معاوضے کا قانونی حصہ نہیں مگر ایک قانون طعام المسکین کا بھی ہے اور ایک قانون سخاوت کا بھی ہے۔ جب یہ فرمایا گیا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے تو تین چار یا پانچ چھ افراد کے کھانے سے دو تین آدمیوں کا کھانا نکل سکتا ہے۔ پڑوس میں اگر مکان بن رہا ہے اور مزدور وہاں کام کر رہے ہیں تو کم از کم ایک بار ان کے لیے بھی کھانا یا چائے بھیجنی چاہیے۔ محلے یا سٹریٹ میں کسی کا انتقال ہوا ہے تو وہاں کھانا بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہاں الٹا حساب ہے یعنی میت کے گھر سے کھانے کھائے جاتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن پر قلی یا کہیں بھی سامان اٹھانے والے مزدور کو اجرت اس کی توقع سے زیادہ دینے میں کیا حرج ہے؟ یہ لوگ مالی امداد کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔
آپ ایسے جتنے کام بھی کرتے ہیں، آپ کے بچے انہیں نوٹ کرتے ہیں۔ یوں آپ ایک نسل کی تربیت کر رہے ہیں اور معاشرے کو ایسے افراد دے رہے ہیں جو بھلائی کا کام کرنے والے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے متاثر نہ ہوں۔ اگر آپ کنجوس اور سنگدل ہیں اور دوسروں کی تکالیف سے بے نیاز تو آپ کے بچے بھی آپ کی تقلید کریں گے۔ بچوں کو یہ بھی سمجھائیے کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے یا عیدیوں سے ناداروں کا حصہ نکالیں خواہ ایک حقیر حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ نیکی کوئی بھی بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی۔ نیکی کو ماپنے کے لیے ابھی تک، اِس دنیا میں، کوئی گز ایجاد ہوا ہے نہ ہی تولنے کے لیے کوئی ترازو بنا ہے۔
No comments:
Post a Comment