میں ابھی دکان پر پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے بیوی کا فون آگیا۔
’’تم نے موم بتیاں خریدیں تو نہیں؟‘‘
’’نہیں، بس ابھی دکان میں قدم رکھا ہے خریدنے لگا ہوں۔‘‘
’’مت خریدو اور فوراً واپس آ جائو‘‘
ایک زمانہ تھا کہ بیوی مجھے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھی لیکن یہ لوڈ شیڈنگ سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے احکام میں تبدیلی کی وجہ پوچھوں لیکن لہجہ دیکھ کر ارادہ بدل دیا۔
گھر پہنچا تو دروازے کے سامنے گلی میں حجام چارپائی پر بیٹھا میرے دونوں چھوٹے بیٹوں کے سر مونڈ رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے۔ میں نے پوچھا توکہنے لگے ’’پتا جی! ماتا جی کا حکم ہے۔‘‘
میرا سر چکرانے لگا۔ ’’کیا بکواس کر رہے ہو۔ ابو کہنے کے بجائے پتا جی اور امی کے بجائے ماتا جی کا راگ الاپ رہے ہو۔ پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘
’’یہ بھی ماتا جی نے کہا ہے۔‘‘
میں غصے سے تلملاتا گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ساری باندھے بیٹھی تھی اور ماتھے پر تلک تھا لیکن وہ اتنے غصے میں تھی کہ کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ ایک دوبار کوشش بھی کی لیکن تھوک نگل کر رہ گیا۔ لفظ ادا نہ ہوسکے۔مگر ذہن میں طوفان اٹھ رہا تھا۔ یہ نیم صحیح الدماغ خاتون نہ جانے کیا کرنا چاہتی ہے۔ اتنے میں دونوں بچے دروازے سے داخل ہوئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان کے سر مُونڈے ہوئے تھے لیکن ایک کان کے اوپر سے ایک لٹ چھوڑ دی گئی تھی اور وہ رسی کی طرح بٹی ہوئی کان کے نیچے تک لٹک رہی تھی!
’’تم آخر کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر نتائج سے بے پروا ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’فضول باتیں نہ کرو‘‘ بیوی نے تنک کر جواب دیا اور میں نے چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔
اس کے بعد کی کہانی اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ گھر میں دالیں پکنے لگیں۔ گوشت مچھلی اور انڈے خواب و خیال ہوگئے۔ کانچ کی پلیٹوں کی جگہ ایلومینم کی تھالی آگئیں۔ ہر بچہ گول سی تھالی میں اچار ڈال اور چپاتی رکھ کر الگ بیٹھ کر کھاتا۔ بیٹھنے کیلئے لکڑی کی چوکیاں استعمال ہونے لگیں۔ غسل خانوں کے باہر ہوائی چپلوں کے بجائے لکڑی کی کھڑائوں رکھ دی گئیں۔ میرا زیادہ وقت دکان پر گزرنے لگا۔ دوپہر کو گھر آنا چھوڑ دیا۔ صبح نو بجے جاتا تو رات عشا کے بعد دکان بند کرکے ہی واپس لوٹتا۔
ایک شام فون آیا کہ کھانے پر مہمان آرہے ہیں اس لئے جلدی آجائوں پوچھا کہ کون آرہا ہے۔بیگم نے تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ بس تم آجائو، خود ہی دیکھ لینا۔
انواع و اقسام کی دالوں، دہی کے پکوانوں اور قسم قسم کی سبزیوں سے دسترخوان بھرا ہوا تھا۔ پوریاں، پکوڑے، سموسے، کچوریاں سب کچھ تھا۔ بس لحمیات نہیں تھیں۔ اتنے میں گھنٹی بجی، کیا دیکھتا ہوں کہ ہنستی مسکراتی فائزہ حباب داخل ہو رہی ہیں۔ بیوی نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا اور میرا تعارف کرایا کہ یہ میرے پتی ہیں۔ محترمہ کے چہرے پر کچھ بے یقینی کے آثار نمایاں ہوئے جو دستر خوان دیکھ کر زیادہ گہرے ہوگئے۔ لیکن ایک عمر خار زار سیاست میں گزارنے والی خاتون فوراً سنبھل گئیں اور حواس مجتمع کرلئے۔
’’مجھے دلی مسرت ہے کہ میں ایک ایسے پاکستانی گھرانے کی مہمان ہوں جو اقلیت کا نمائندہ ہے۔ ہماری پارٹی کا منشور بھی یہی کہتا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اس جان سے پیارے وطن میں باہم مل جل کر محبت اور پیار سے رہیں۔‘‘
’’شکریہ، میڈم۔ میری بیوی نے جواب دیا۔ لیکن مجھے وضاحت کرنے کی اجازت دیجئے۔ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں‘‘
یہ سن کر جہاں فائزہ حباب پریشان ہوئیں وہاں میں نے کئی دنوں بعد اطمینان کا سانس لیا۔
’’لیکن آپ نے مجھے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا، اپنے میاں کا تعارف پتی کہہ کر کرایا اور کھانے میں دالوں سبزیوں اور اچار کی بھرمار ہے۔ آخرکیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ محترمہ! آپ نے قوم کو بھارتیوں کی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم پاکستانی لوڈ شیڈنگ پر کُڑھتے تھے اور احتجاج کرتے تھے لیکن آپ نے ہمیں سمجھایا کہ رات میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور کوئی بھارتی باہر نہیں آتا۔
میں نے سوچا کہ اگر بھارت کی نقالی کرنے ہی میں ہماری عافیت ہے تو پھر صرف لوڈ شیڈنگ کے حوالے ہی سے کیوں نقالی کی جائے۔ پوری طرح کیوں نہ انکے رنگ میں ڈھل جائیں۔ چنانچہ میں نے بچوں کے سروں پر چوٹیاں رکھا دی ہیں اور ہر معاملے میں بھارت کو آئیڈیل بنا لیا ہے لیکن آپ کا حکم ماننے میں کچھ امور مانع ہیں۔ ازراہ کرم وہ بھی دور فرما دیجئے‘‘
’’وہ کیا ہیں؟‘‘ محترمہ نے پوچھا
’’دلی میں زیر زمین ریلوے چل رہی ہے اور شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ دنیا کی چھ بہترین زیر زمین ریلوے سے مل کر یہ میٹرو چلائی گئی ہے۔ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ہم سے بہت آگے ہے۔ حیدر آباد اور بنگلور پوری دنیا کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن، اپنے ملک میں واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ متوسط طبقہ دن بدن زیادہ ہو رہا ہے اور معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔
بھارت نے تقسیم کے بعد فوراً ہی زرعی اصلاحات نافذ کردی تھیں۔ آج بھارتی پنجاب، جو پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے، کئی گنا زیادہ غلہ پیدا کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھارتی سیاست دان کا بیرون ملک کوئی اکائونٹ نہیں نہ کارخانے نہ کوٹھیاں نہ فلیٹ نہ محل۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ کانگریس، جنتا پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اندر بھی باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ آپ ان سب معاملات میں بھارت کی تقلید کیوں نہیں کرتیں؟
محترمہ برہم ہو کر تشریف لے جاچکی تھیں!
’’تم نے موم بتیاں خریدیں تو نہیں؟‘‘
’’نہیں، بس ابھی دکان میں قدم رکھا ہے خریدنے لگا ہوں۔‘‘
’’مت خریدو اور فوراً واپس آ جائو‘‘
ایک زمانہ تھا کہ بیوی مجھے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھی لیکن یہ لوڈ شیڈنگ سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے احکام میں تبدیلی کی وجہ پوچھوں لیکن لہجہ دیکھ کر ارادہ بدل دیا۔
گھر پہنچا تو دروازے کے سامنے گلی میں حجام چارپائی پر بیٹھا میرے دونوں چھوٹے بیٹوں کے سر مونڈ رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے۔ میں نے پوچھا توکہنے لگے ’’پتا جی! ماتا جی کا حکم ہے۔‘‘
میرا سر چکرانے لگا۔ ’’کیا بکواس کر رہے ہو۔ ابو کہنے کے بجائے پتا جی اور امی کے بجائے ماتا جی کا راگ الاپ رہے ہو۔ پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘
’’یہ بھی ماتا جی نے کہا ہے۔‘‘
میں غصے سے تلملاتا گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ساری باندھے بیٹھی تھی اور ماتھے پر تلک تھا لیکن وہ اتنے غصے میں تھی کہ کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ ایک دوبار کوشش بھی کی لیکن تھوک نگل کر رہ گیا۔ لفظ ادا نہ ہوسکے۔مگر ذہن میں طوفان اٹھ رہا تھا۔ یہ نیم صحیح الدماغ خاتون نہ جانے کیا کرنا چاہتی ہے۔ اتنے میں دونوں بچے دروازے سے داخل ہوئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان کے سر مُونڈے ہوئے تھے لیکن ایک کان کے اوپر سے ایک لٹ چھوڑ دی گئی تھی اور وہ رسی کی طرح بٹی ہوئی کان کے نیچے تک لٹک رہی تھی!
’’تم آخر کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر نتائج سے بے پروا ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’فضول باتیں نہ کرو‘‘ بیوی نے تنک کر جواب دیا اور میں نے چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔
اس کے بعد کی کہانی اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ گھر میں دالیں پکنے لگیں۔ گوشت مچھلی اور انڈے خواب و خیال ہوگئے۔ کانچ کی پلیٹوں کی جگہ ایلومینم کی تھالی آگئیں۔ ہر بچہ گول سی تھالی میں اچار ڈال اور چپاتی رکھ کر الگ بیٹھ کر کھاتا۔ بیٹھنے کیلئے لکڑی کی چوکیاں استعمال ہونے لگیں۔ غسل خانوں کے باہر ہوائی چپلوں کے بجائے لکڑی کی کھڑائوں رکھ دی گئیں۔ میرا زیادہ وقت دکان پر گزرنے لگا۔ دوپہر کو گھر آنا چھوڑ دیا۔ صبح نو بجے جاتا تو رات عشا کے بعد دکان بند کرکے ہی واپس لوٹتا۔
ایک شام فون آیا کہ کھانے پر مہمان آرہے ہیں اس لئے جلدی آجائوں پوچھا کہ کون آرہا ہے۔بیگم نے تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ بس تم آجائو، خود ہی دیکھ لینا۔
انواع و اقسام کی دالوں، دہی کے پکوانوں اور قسم قسم کی سبزیوں سے دسترخوان بھرا ہوا تھا۔ پوریاں، پکوڑے، سموسے، کچوریاں سب کچھ تھا۔ بس لحمیات نہیں تھیں۔ اتنے میں گھنٹی بجی، کیا دیکھتا ہوں کہ ہنستی مسکراتی فائزہ حباب داخل ہو رہی ہیں۔ بیوی نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا اور میرا تعارف کرایا کہ یہ میرے پتی ہیں۔ محترمہ کے چہرے پر کچھ بے یقینی کے آثار نمایاں ہوئے جو دستر خوان دیکھ کر زیادہ گہرے ہوگئے۔ لیکن ایک عمر خار زار سیاست میں گزارنے والی خاتون فوراً سنبھل گئیں اور حواس مجتمع کرلئے۔
’’مجھے دلی مسرت ہے کہ میں ایک ایسے پاکستانی گھرانے کی مہمان ہوں جو اقلیت کا نمائندہ ہے۔ ہماری پارٹی کا منشور بھی یہی کہتا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اس جان سے پیارے وطن میں باہم مل جل کر محبت اور پیار سے رہیں۔‘‘
’’شکریہ، میڈم۔ میری بیوی نے جواب دیا۔ لیکن مجھے وضاحت کرنے کی اجازت دیجئے۔ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں‘‘
یہ سن کر جہاں فائزہ حباب پریشان ہوئیں وہاں میں نے کئی دنوں بعد اطمینان کا سانس لیا۔
’’لیکن آپ نے مجھے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا، اپنے میاں کا تعارف پتی کہہ کر کرایا اور کھانے میں دالوں سبزیوں اور اچار کی بھرمار ہے۔ آخرکیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ محترمہ! آپ نے قوم کو بھارتیوں کی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم پاکستانی لوڈ شیڈنگ پر کُڑھتے تھے اور احتجاج کرتے تھے لیکن آپ نے ہمیں سمجھایا کہ رات میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور کوئی بھارتی باہر نہیں آتا۔
میں نے سوچا کہ اگر بھارت کی نقالی کرنے ہی میں ہماری عافیت ہے تو پھر صرف لوڈ شیڈنگ کے حوالے ہی سے کیوں نقالی کی جائے۔ پوری طرح کیوں نہ انکے رنگ میں ڈھل جائیں۔ چنانچہ میں نے بچوں کے سروں پر چوٹیاں رکھا دی ہیں اور ہر معاملے میں بھارت کو آئیڈیل بنا لیا ہے لیکن آپ کا حکم ماننے میں کچھ امور مانع ہیں۔ ازراہ کرم وہ بھی دور فرما دیجئے‘‘
’’وہ کیا ہیں؟‘‘ محترمہ نے پوچھا
’’دلی میں زیر زمین ریلوے چل رہی ہے اور شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ دنیا کی چھ بہترین زیر زمین ریلوے سے مل کر یہ میٹرو چلائی گئی ہے۔ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ہم سے بہت آگے ہے۔ حیدر آباد اور بنگلور پوری دنیا کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن، اپنے ملک میں واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ متوسط طبقہ دن بدن زیادہ ہو رہا ہے اور معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔
بھارت نے تقسیم کے بعد فوراً ہی زرعی اصلاحات نافذ کردی تھیں۔ آج بھارتی پنجاب، جو پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے، کئی گنا زیادہ غلہ پیدا کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھارتی سیاست دان کا بیرون ملک کوئی اکائونٹ نہیں نہ کارخانے نہ کوٹھیاں نہ فلیٹ نہ محل۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ کانگریس، جنتا پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اندر بھی باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ آپ ان سب معاملات میں بھارت کی تقلید کیوں نہیں کرتیں؟
محترمہ برہم ہو کر تشریف لے جاچکی تھیں!
No comments:
Post a Comment