اچھی بھلی تھی۔ نہلا دی گئی۔پانی ٹھنڈا بھی نہیں تھا۔ بس نہلائے جانے کے بعد گھٹڑی بن گئی۔ گردن نہیں اٹھا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا توانائی جسم میں نہیں رہی۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزر گئے۔ اب مریضہ کو تشویش لاحق ہونے لگی۔ پریشانی بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوئی۔ اس علاقے میں حیوانات کا ڈاکٹر(بیطار) نزدیک نہیں تھا اور اگر تھا تو اس کا علم نہیں تھا۔ ایک عزیز فوج میں میجر صاحب تھے اور اسی شعبے کے ڈاکٹر تھے۔ انہیں فون کیا گیا۔ انہوں نے علامات پوچھیں اور تفصیلات جانیں۔ پھر دوا تجویز کی جو فوراً خرید کر شروع کرائی گئی۔ خوراک میں مرغی کی یخنی بتائی۔ جو باقاعدگی سے دی جاتی رہی۔ دو دن کے بعد مریضہ کی حالت سنبھلی اور لڑکی کی جان میں جان آئی۔
مِسّی ہے تو مرضیہ کی، مگر جلد ہی گھر بھر کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ کہتے ہیں بلیاں اتنی وفادار نہیں ہوتیں جتنا کتے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مِسّی بھی اتنی وفادار نہ ہو مگر سوشل ضرور ہے۔کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی نگاہِ التفات مجھ پر زیادہ پڑنے لگی۔ جہاں بیٹھتا، آ کر گود میں بیٹھ جاتی۔ یا پہلو میں بیٹھ کر جسم کو مَس کرتی۔ باتھ روم سے نکلوں تو دروازے کے باہر بیٹھ کر انتظار کرتی ہے۔ بالائی منزل پر لائبریری میں جائوں تو سیڑھیوں پر پھدکتی ہمراہ ہوتی ہے۔ صوفے پر بیٹھ کر لکھنے لگتا ہوں تو ساتھ آ براجمان ہوتی ہے۔ ایسے عالم میں میری طرف نہیں دیکھتی بلکہ ایک فلاسفر کی طرح خلا میں گھورتی ہے یا آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اپنی تحریر اسے سنائوں اور وہ اس کی قبولیت یا نامنظوری، کسی نہ کسی اشارے سے واضح کرے تا کہ اطمینان نصیب ہو۔ پھر اخفش کی بکری یاد آنے لگتی ہے اور ارادہ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا خیال جھٹک دیا جاتا ہے۔
اخفش کی بکری یا بُزِ اخفش کا قصہ، اگرچہ بلی کے موضوع سے باہر ہے، مگر چلیے ہے تو جانور کا ذکر، اور یوں لگتا ہے اِس بے رحم زمانے میں جانوروں کا ذکر انسانوں کے ذکر سے بہتر ہے۔ اخفش نام کے کئی افراد گزرے ہیں مگر معروف ان میں خوارزم کا ایک شخص ہے جس کا نام ابوالحسن نحوی تھا۔ اب یہ جو نحوی ہوتے تھے، علمِ نحو کے ماہر، یہ بحث مباحثہ بہت کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں صَرف کے عالم ہوتے تھے جنہیں صَرفی کہا جاتا تھا۔ اُن زمانوں میں کسی نے یہ شعر کہا اور درس و تدریس کے دائرے میں فوراً مشہور ہو گیا ؎
نحویاں را مغز باشد چوں شہاں
صرفیاں را مغز باشد چوں سگاں
کہ نحویوں کا دماغ بادشاہوں کی طرح اور صرفیوں کا کتوں کی طرح ہوتا ہے۔ بہر طور اخفش کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ساتھ گفتگو کرنے اور بحث و مباحثہ کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ ایک روایت میں اس کا سبب اس کی غایت درجہ بد صورتی تھی جس کے باعث لوگ اس سے اجتناب کرتے تھے۔ دوسری روایت میں اس کا سبب اس کی زُودرنجی تھی۔ بحث مباحثہ کے دوران وہ غضب ناک ہو جاتا۔ یوں لوگ اس سے بچتے پھرتے۔ اس کا حل اس نے بکری میں ڈھونڈا جو گھر میں تھی۔ وہ اس سے گفتگو کرتا، اپنے نظریات سناتا، بکری کا سر اثبات میں حرکت کرتا تو وہ اپنی بحث کو کامیاب گردانتا۔ اس سے محاورہ ایجاد ہوا بُزِ اخفش، یعنی بغیر سوچے سمجھے تائید کر دینا، یا ہاں میں ہاں ملانا!
آپ غور فرمائیے ہمارے سیاسی جلسے ہوں یا مذہبی، ان میں عوام کی اکثریت اخفش کی بکریوں کی طرح لگتی ہے۔ لیڈر یا عالم کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے، زورِ بیان سے متاثر ہو کر، یا شخصیت کے سحر میں آ کر، حاضرین سراثبات میں ہلاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ انتخابات میں ووٹ کسی اور کو جا ڈالتے ہیں۔ یہ ہاتھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ اکثر و بیشتر ہو جاتا ہے۔
میں مِسّی کو اپنی تحریر نہیں سناتا اس لیے کہ اسے تو بکری کسی نے نہیں کہنا مجھے اخفش نہ سمجھا جانے لگے۔
باہر سے واپس آ کر گھر کے اندر داخل ہوں تو منتظر ہوتی ہے۔ بول کر، دُم ہلا کر، ساتھ ساتھ چل کر استقبال کرتی ہے۔ اب تو اُس کی توجہ اصل مالکن کے بجائے مجھ پر زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ مالکن جب سونے کے لیے خواب گاہ کا رُخ اختیار کرتی ہے تو یہ دوڑ کر اس کے ہمراہ جاتی ہے۔ مگر ایک آدھ گھنٹہ بعد، اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہوں تو دہلیز پر منتظر ملتی ہے۔ پھر آ کر بستر پر، ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے لیے یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ میں اس کے پاس ہوں اور وہ میرے پاس ہے۔
دھچکہ اُس دن لگا جس دن سب گھر والوں نے کچھ دن کے لیے کہیں جانا تھا۔ مسئلہ اٹھا کہ مِسّی کا کیا بنے گا۔ میرا اصرار تھا کہ ہمارے ساتھ جائے۔ مگر ڈر تھا کہ گاڑی کی ڈگی میں رکھا تو گرمی کی شدت سے اسے کچھ ہو نہ جائے۔ گاڑی کے اندر جگہ نہ تھی۔ طے ہوا کہ ایک جاننے والے کے ہاں چھوڑا جائے۔ ٹوکری میں رکھ کر بھیجی جانے لگی تو دل پر جیسے آرے چلنے لگے۔ معصوم صورت، تھوڑی تھوڑی دیر بعد جھپکی جانے والی پلکیں، اُس رات کمرے سے باہر نکلتا تو اسے منتظر نہ پا کر فراق ؔکا شعر یاد آتا ؎
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی
اتفاق ایسا ہوا کہ دوسرے دن سفر کا پروگرام ملتوی ہو گیا۔ سب سے پہلے مِسّی کو واپس منگوایا گیا۔ گھر میں داخل ہوئی، اِدھر اُدھر دیکھا، یوں لگا زبانِ حال سے کہہ رہی ہو ؎
شاید مجھے نکال کر پچھتا رہے تھے آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گئی ہوں میں
سڈنی میں ہمارے ایک دوست ہیں۔ اُن کی صاحبزادی نے بلی رکھی ہوئی تھی۔ نصیبِ دشمناں اسے ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہوا۔ مالکن نے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ماں باپ بتا رہے تھے کہ انہیں تو لڑکی نے اپنی تنخواہ سے کبھی ایک ڈالر نہ دیا مگر بلی کے علاج پر دس ہزار ڈالر خرچ کر دیئے۔ تقدیر کا لکھا کچھ اور تھا۔ جانبر نہ ہو سکی۔ میر انیسؔ نے لڑکپن میں بکری کی موت پر شعر کہا تھا ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بکری
سڈنی والی لڑکی کو شعر کا ذوق ہوتا تو اسی شعر کو بِلّیا لیتی اور پکار اٹھتی ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بلی
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بلی
غور کرنا چاہیے کہ مرنے کے بعد آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں! سعدی نے اس سے عبرت کا خزانہ نکالا ہے۔ خراسان کے ایک بادشاہ نے محمود بن سبکتگین کو خواب میں اس حال میں دیکھا کہ تمام جسم مٹی ہو چکا تھا مگر آنکھیں، اپنے اپنے چشم خانوں میں زندہ تھیں اور حرکت کرتی تھیں جیسے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوں۔ دانش مندوں کو بلا کر تعبیر پوچھی گئی۔ سب عاجز آ گئے۔ ایک فقیر سے پوچھا گیا تو اس نے وہ فقرہ کہا جو ادب اور تاریخ دونوں میں لا زوال ہے۔ ھنوز نگران است کہ مُلکش بادگران است۔ دیکھ رہا ہے کہ جسے اپنا ملک، اپنی قلمرو، اپنی جاگیر سمجھا تھا، اب دوسروں کی ملکیت میں ہے۔
مگر اس حقیقت کا ادراک کم ہی لوگ کرتے ہیں کہ ملک اور جاگیریں، ان سے پہلے بھی یہیں تھیں اور ان کے بعد بھی یہیں رہیں گی۔ مالک بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔
مان لیا کہ کتے وفاداری میں بلیوں سے برتر ہیں مگر بلیوں سے بھی جو کچھ بن پڑتا ہے کرتی ہیں۔ آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ بیرونِ ملک ہماری دو بلیاں تھیں۔ ایک کا نام بلی اور دوسری کا چلّی تھا۔ ایک دن نہ جانے کیسے ہوا، بلی ایک کمرے میں تھی کہ دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سب نے محسوس کیا کہ چلّی نے اُس کمرے کے دروازے کے پاس آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ اس قدر زور سے بول رہی تھی اور عجیب و غریب آوازیں نکال رہی تھی کہ سنجیدگی کی چادر چاروں طرف تن گئی۔ بالآخر معاملہ سمجھ میں آ گیا۔ دروازہ کھولا گیا۔ بلی باہر نکلی اور چلّی خاموش ہوئی۔ ایک مرتبہ یہ بھی دیکھا کہ باہر برآمدے میں چھوٹا بچہ، جو ابھی اٹھنے سے قاصر تھا، مسلسل رو رہا تھا۔ ماں اس کی اندر کمرے میں تھی۔ بلی بھاگ کر اس کے پاس گئی اور شور مچایا۔ وہ مسلسل چیختی چلاتی رہی یہاں تک کہ ماں نے آ کر بچے کو سنبھالا۔ تب بلی نے چیخ و پکار بند کی!
ٹائپسٹ کی اسامی کا اشتہار نکلا۔ ایک کتے نے عرضی لکھی۔ عرضی منہ میں پکڑی اور جا کر پیش کر دی۔ اسے ٹیسٹ کے لیے بلایا گیا۔ ایک تحریر دی گئی کہ ٹائپ کرے۔ اس نے ٹائپ کی اور کامیاب ٹھہرا۔ انٹرویو میں اسے بتایا گیا کہ ٹائپسٹ کو کم از کم ایک اور زبان ضرور آتی ہو۔ اس پر کتے نے میائوں میائوں کر کے اپنے آپ کو اس اسامی کا حقدار ثابت کر دیا۔
No comments:
Post a Comment