Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, May 19, 2017

ہمارے سفارت خانے یا کس دینے والے شکنجے!

جنوری کا مہینہ اپنے آخری دن گن رہا تھا جب یہ کالم نگار جنوب کے ساحلی 
شہر میلبورن میں اترا۔ نصف کرۂ جنوبی میں، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے لے کر، جنوبی افریقہ، برازیل اور چلّی تک جنوری میں موسمِ گرما عروج پر ہوتا ہے مگر میلبورن کے موسم گرما کا کیا کہنا! دو دن ٹمپریچر اگر تیس کے اوپر ہے تو تیسرے دن بیس سے کم!
ہر کوئی اپنے بیگ میں کم از کم ایک سویٹر یا جیکٹ ضرور ساتھ لیے پھرتا ہے۔
ایک نیم ادبی اور نیم سماجی تقریب تھی جس میں چند نوجوان ملے اور اپنے اُس مسئلے کا رونا رویا جس کے سبب وہ پریشان تھے۔ دو خاص طور پر اس لیے کہ ان کی بیویاں پاکستانی نہیں تھیں۔ نوجوانوں کا دعویٰ تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جاری کردہ ویزا پالیسی کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کی غیر پاکستانی بیویوں کو پانچ سال کا ملٹیپل
(Multiple)
ویزا دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک سال تک پاکستان میں قیام کر سکتی ہیں لیکن کینبرا کا پاکستانی ہائی کمیشن ملٹیپل کے بجائے سنگل انٹری ویزا جاری کرتا ہے۔ بسا اوقات فیس پانچ سال کی چارج کر لی جاتی ہے مگر ویزا ایک سال کا دیا جاتا ہے اور وہ بھی سنگل انٹری، یعنی صرف ایک بار کے لیے!
انہوں نے مدد کی درخواست کی اور ملتجی ہوئے کہ اس مسئلے کو پریس میں اجاگر کیا جائے۔ تسلی دی کہ ہو سکتا ہے مسئلہ پریس کی مداخلت کے بغیر ہی حل ہو جائے۔ گمان اچھا رکھنا چاہیے۔ پاکستانی ہائی کمیشن سے بات کی جا سکتی ہے۔ محترمہ ہائی کمشنر صاحبہ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ معاملات کو مروجہ قوانین کی روشنی میں چلائیں۔آخر سفارت خانوں کا بنیادی فرض ہے بھی تو یہی کہ پاکستانیوں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا اچھا خاصا حصہ سفارت خانوں پر خرچ ہوتا ہے۔ سفیروں کو اور دیگر ملازمین کو تنخواہوں کے علاوہ فارن الائونس بھی دیا جاتا ہے تا کہ ان کی زندگیاں ہموار گزریں اور یکسو ہو کر اہلِ وطن کی خدمت کریں۔
فروری کا آخر تھا جب یہ کالم نگار وطن واپس لوٹا۔ ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ اُن نوجوانوں میں سے ایک نے رابطہ کیا کہ اس نے پاکستان آنا ہے اور اپنی غیر ملکی اہلیہ کا پاسپورٹ ہائی کمیشن کو بھیجا ہے۔ اس نے وعدہ یاد دلایا اور ملتمس ہوا کہ ہائی کمیشن سے بات کی جائے۔ غالباً مارچ کی پانچ یا چھ تاریخ تھی جب اس کالم نگار نے آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر سے، جو ایک محترمہ ہیں، فون پر رابطہ کیا۔ متعدد کاوشوں کے بعد بات ہو پائی۔ عرضِ مدعا کیا کہ اگر حکومت نے مٹیپل انٹری کی اجازت دی ہے تو آپ بھی درخواست دہندہ یا دہندگان پر کرم فرمائیے۔ سفیر صاحبہ کا جواب سیدھا اور صاف تھا اور بظاہر خوب منطقی تھا133ہمیں معاملہ وزارتِ داخلہ اسلام آباد کو بھیجنا پڑے گا133!
اب دل میں شبہ کی گرہ پڑ گئی۔ تو کیا ان نوجوانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے؟ یا انہوں نے ویزا پالیسی کا مطالعہ نہیں کیا؟ اگر بقول اُن نوجوانوں کے، وزارتِ داخلہ کی پالیسی میں پانچ سال ملٹیپل ویزا کی گنجائش ہوتی تو سفیر صاحبہ فوراً یہ کیوں کہہ دیتیں کہ مسئلہ وزارت داخلہ کو بھیجنا پڑے گا۔ سفیر نے اپنے دفتر کے کسی افسر، کسی اہلکار سے رائے لیے بغیر اگر ایسا کہا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ سفیر کو یقین ہے اور وہ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ملٹیپل ویزا نہیں دیا جا سکتا۔
دوسرے دن کالم نگار نے سواری پکڑی اور وزارتِ داخلہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا! ایڈیشنل سیکرٹری طارق محمود خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ متعلقہ سیکشن افسر کو طلب کیا اور ویزہ پالیسی لانے کا حکم دیا۔ کالم نگار نے عرض کیا کہ لانے کی ضرورت نہیں۔ سیکشن افسر کے ہمراہ اُس کے دفتر چلا گیا۔ مشتاق بھلا آدمی تھا۔ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں اس نے تازہ ترین یعنی مروجہ ویزا پالیسی کالم نگار کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب جو اس کا بغور مطالعہ کیا تو آنکھیں نہ صرف کھلیں بلکہ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نوجوان درست کہہ رہے تھے۔ سفیر یا تو ویزا پالیسی سے لا علم تھیں یا افسری کی ہوا میں تھیں۔ وزارتِ داخلہ پاکستان نے یہ جامع اور تفصیلی ویزا پالیسی 24جولائی 2006ء کو جاری کی ہے۔ سرکاری فرمان کا نمبر ہے
 1/23/2006
-VISA
۔اس کے پیراگراف جی 
(g)
 کا عنوان ہے فیملی وزٹ ویزا۔ پیراگراف یوں ہے۔
Pakistan Missions Abroad can Grant five years validity and one year stay(multiple)entry visa to foreigners of PAK origin and their foreign spouses.Family visit visa will be extendable on yearly basis in Pakistan.
یعنی پاکستانی سفارت خانے پاکستانی نژاد غیر ملکیوں کو اور ان کے غیر ملکی اہلِ خانہ کو پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا دے سکتے ہیں جس کے تحت ایک سال تک قیام کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیملی ویزا پاکستان ہی میں سال بہ سال بڑھایا جا سکتا ہے۔ 
آٹھ مارچ کو سفیر صاحبہ کو دوبارہ فون کیا اور عرض گزاری کی کہ ویزا پالیسی سامنے ہے اور وزارتِ داخلہ کی رُو سے آپ پانچ سالہ ملٹیپل ویزا جاری کرنے کی مجاز ہیں۔ اب کے محترمہ کے لہجے میں افسری کچھ زیادہ ہی تھی۔ہم وزارتِ داخلہ کو کیس بھیج چکے ہیں133
وزارتِ داخلہ کو ایسے کسی کیس کا علم نہ تھا اور جب معاملہ صاف اور واضح تھا تو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ حیرت کی بات تھی کہ پاکستانی سفارت خانہ اتنا مستعد ہو گیا ہے کہ دو دن میں یہ(غیر ضروری) استفسار بھیج بھی دیا۔
اب وزارت خارجہ سے رابطہ کیا۔ بتایا گیا کہ میڈیا سے صرف ترجمان ہی بات کریں گے۔ نفیس زکریا اسم با مسمّیٰ ہیں یعنی نفیس اور نرم گفتار! تحمل سے بات سنی۔ اپنا 
ای میل ایڈریس عنایت کیا اور چند گھنٹوں کے بعد خود فون کر کے بتایا کہ سفیر 
صاحبہ سے بات ہو گئی ہے۔
اس کے بعد کا قصہ الم ناک ہونے کے ساتھ دردناک بھی ہے۔ 9مارچ کو ڈپٹی ہائی کمشنر صاحب کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ درخواست دہندہ کے کوائف درکار ہیں۔ چلیے، مشکل ہی سے سہی، وہ بت راہ پر تو آیا۔ مگر افسوس جب ویزا جاری ہوا تو یہ دنیا کا بلکہ تاریخ کا عجیب و غریب ویزا تھا۔
تاریخ ویزا اجرا۔ 16مارچ 2017ء
تاریخ اختتام 15 مارچ 2017ء
یعنی جس تاریخ کو ویزہ جاری ہوا، اس سے ایک دن پہلے اس کی مدت ختم ہو گئی۔
ہائی کمشن کو اس اذیت ناک غلطی کا بتایا تو سوری کر کے حکم دیا کہ پاسپورٹ دوبارہ بھیجا جائے۔ عرض کیا کہ اتنا تو وقت ہی نہیں۔ دو دن بعد ان کی پرواز ہے۔ دو دن میں میلبورن سے کینبرا پاسپورٹ کا آنا اور تصحیح کے بعد واپس پہنچنا ناممکن ہے۔ حل سفارت خانے نے یہ ڈھونڈا کہ ایک خط جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ سفارت خانے سے غلطی ہوئی ہے اور 15مارچ 2017ء کو 15مارچ 2018ء پڑھا جائے۔ یہ خط پاکستانی نوجوان کی غیر ملکی اہلیہ نے پاکستان آ کر ایئرپورٹ پر پیش کیا تو متعلقہ اہلکار چکرا گیا کہ یہ کیسا ویزا ہے کہ ساتھ ہی تصحیح نامہ بھی ہے۔ واپسی پر بھی بے حد تامل، تذبذب اور ہچکچاہٹ کے ساتھ یہ خط سمجھا اور قبول کیا گیا۔ ایک لا محدود اذیت تھی جس سے درخواست دہندہ گزری! دودھ مشکل سے دیا گیا مگر مینگنیاں ڈال کر!
آج ارشاد عارف صاحب نے ماتم کیا ہے کہ ہم کتنے خوش بخت ہیں اور انوکھے کہ وزیر اعظم کے لیے جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے۔ کھلاڑی ٹرائی بیونل کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور قومی ایئرلائن کے جہاز سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد اداروں کی ناگفتہ بہ حالت ہے سفارت خانے بھی ان ناگفتہ بہ اداروں میں شامل ہیں۔ کیسے کیسے نرالے اور طبع زاد طریقے ڈھونڈتے ہیں ہمارے سفارت خانے اپنے ہم وطنوں کو لوہے کے چنے چبوانے کے لیے! سفیر پاکستان کتنا بڑا ،کتنا مقدس اور کتنا ذمہ دار منصب ہے مگر جس طرح اِس منصب کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک133صرف ایک جھلک133 قارئین نے دیکھ لی ہے۔ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
اس ایک باغ سے پوری بہار کا اندازہ لگا لیجیے۔ پاکستانیوں کو جکڑ دینے والے اذیت ناک شکنجے صرف تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، واپڈا، گیس، پانی اور ٹیلی فون کے دفتروں میں نصب نہیں، سفارت خانے بھی ایسے نظر نہ آنے والے شکنجوں سے بھرے پڑے ہیں۔
اے ارضِ سیہ روز! کوئی اور ہی سورج
شاید کہ بدل جائیں یہ ایام ہمارے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com