نہ جانے حسنِ اتفاق تھا کہ سوئِ اتفاق‘ اس سال بھی بجٹ آیا تو میں گائوں میں
تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ چاچا گاما ملا۔ اب وہ ہے تو میری ہی عمر کا مگر سارا گائوں اسے چاچا گاما کہتا ہے تو میں اور میرے ہم عمر بھی یہی کہتے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا‘ ٹی وی پر بجٹ پڑھا جا رہا ہے اور تم یہاں گائوںمیں نمازیں پڑھتے پھر رہے ہو۔ کیا تم نے ٹی وی چینلوں پر بجٹ کی تعریفیں نہیں کرنا تھیں؟ چاچے گامے کی یہ پرانی خصلت ہے۔ بات بات پر طنز‘ بات بات پر چوٹ۔ اب مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے کیا بتاتا کہ بجٹ کی تعریفیں کرنے والے کون ہیں۔ اگر اسے بتاتا کہ تعریفیں کرنے والے اپنے خریدے ہوئے ملبوس نہیں پہنتے۔ خلعتِ شاہی زیب تن کرتے ہیں اور بیرونی دوروں پر ہم رکابی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس نے طنز کا کوئی نیاتیز چھوڑ دینا تھا۔ کہنے لگا‘ ساری باتیں یہاں نہیں ہو سکتیں‘ صبح ناشتہ ہمارے گھر آ کر کرو تمہاری چاچی بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔
چاچے گامے اور چاچی کے ساتھ ناشتہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر ان کا ایک عدد بھتیجا جو ان کے ساتھ رہتا ہے‘ قطعاً پسند نہیں۔ ایسی ایسی باتیں کرتا ہے ‘گویا گامے کا نہیں افلاطون کا بھتیجا ہے۔ پچھلے سال بجٹ پر اس نے اتنی بحث کی اور میری باتوں پر ایسے کمنٹ کئے کہ میں لاجواب ہونے کے ساتھ شرمندہ بھی ہوا۔تاہم چاچے گامے کی دعوت قبول کر لی اس لیے کہ چاچی سے تو ملنا ہی تھا۔
صبح پہنچا تو چاچی نے پراٹھے پکا رکھے تھے۔ ساتھ میٹھی لسی اور مکھن! میں نے تعریف کی تو چاچے کا بھتیجا فوراً بولا ’’ہمارے ہاں ٹوسٹر تو ہے نہیں کہ آپ کے لیے پتلے اور سمارٹ ٹوسٹ میں اس سینکتے۔ پھر آپ چھری کے ساتھ ان پر مکھن لگاتے‘ بالکل اسی طرح جس طرح آپ صحافی حضرات مکھن لگانے کے ماہر ہیں اور پھر ہمارے گھر میں کافی بھی نہیں۔جس کی آپ صبح صبح چسکیاں لیتے ہیں‘‘
طنز کے ان تیروں کا جواب دینا ضرور ی نہ سمجھ کر میں نے چاچی کی صحت کا حال پوچھا۔ اب بھتیجا پھر بولا۔’’چاچی کی صحت کا تو آپ پوچھ رہے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے گائوں کی ڈسپنسری کو منظور ہوئے دس سال ہونے کو ہیں ۔زمین بھی عطیہ کی جا چکی مگر دو یا تین ملین روپے تخت لاہور سے نہیں مل رہے کہ اس کی عمارت ہی بن جاتی! چاچی کو ہر بار ڈاکٹر کے پاس سوزوکی پک اپ میں بیٹھ کر ’دور‘ قصبے میں جانا پڑتا ہے۔ واپس آتے آتے نڈھال ہو جاتی ہے۔ سڑک ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہچکولے وہ لگتے ہیں کہ انجر پنجر ہل جاتا ہے‘‘
چاچا کہنے لگا’’بجٹ کی سنائو‘ ہم غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟
میں سوچ میں پڑ گیا کہ بجٹ میں غریبوں کے لیے اگر کچھ ہے تو ڈھونڈنا پڑے گا۔ اتنے میں بھتیجا بول اٹھا۔
’’میں بتاتا ہوں ‘غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟ ہم غریبوں کے لیے جی ڈی پی آئی ہے اور اس کی شرح نمو آئی ہے۔ ہمارے لیے بجٹ کے مجموعی حجم میں اور بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ آیا ہے۔ اصل بجٹ تو وزیر اعظم اور صدر مملکت کے لیے ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور صدر صاحب کی تنخواہ میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پونے تین کروڑ روپے ایوان صدر کے آپریشنل اخراجات کے لیے ہیں اب پتہ نہیں یہ آپریشنل اخراجات کیاہیں؟ تحائف اور خیرات کی مدد میں پندرہ لاکھ روپے! سبحان اللہ! صدر صاحب خیرات اپنی جیب سے نہیں‘عوام کے ٹیکسوں سے دیں گے! ڈرائیوروں اور ملازمین کے لیے چار کروڑ کے لگ بھگ۔ گارڈن اور مالیوں کے لیے سوا چار کروڑ!! وزیر اعظم آفس کے لیے 91کروڑ 67لاکھ روپے! صدر صاحب کے دوروں پر ایک کروڑ32لاکھ روپے صرف ہوں گے۔ یہ ہیں بجٹ سے فائدہ اٹھانے والے حضرات! رہے عوام تو ان کے لیے وعدے ہی وعدے ہیں 2018ء کے بعد لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔2030ء تک یہ ہو جائے گا۔2050ء تک وہ ہو جائے گا!
میںاس بھتیجے سے جلدازجلد جان چھڑانا چاہتا تھا سو لسی کا دوسرا گلاس پیتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔!
گائوں کی گلیاں کچی تھیں لوڈشیڈنگ دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی تھی۔ سکول میں بچے بیٹھے کے لیے سیمنٹ اور گندم کے خالی بیگ گھر سے لاتے تھے‘ پینے کا صاف ناپید تھا! ڈسپنسری کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ تھا اصل پاکستان! اس اصل پاکستان میں وزیر اعظم کا کبھی گزر نہ ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے تو کبھی بھول کر بھی یہاںکا رُخ نہ کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر تک کو یہاں آنے کی توفیق کبھی نہ ہوئی۔
نہیں! یہ اصل پاکستان نہیں! اصل پاکستان تو وہ خاص بیلٹ ‘خاص پٹی ہے جو پانچ سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی ‘شیخو پورہ کواپنے اندر سمیٹتی ‘نارروال اور سیالکوٹ جا کر ختم ہو جاتی ہے! تمام کلیدی وزارتیں کچن کابینہ کے تمام عہدے اسی مخصوص پٹی کے پاس ہیں۔ صحت کی وزارت پانی اور بجلی کی وزارت‘ ریلوے کی وزارت‘ منصوبہ بندی کی وزارت‘ خزانے کی وزارت‘ تجارت کی وزارت! دفاع کی وزارت! خارجہ امور کی وزارت! اہم ترین وزارتوں میں سے
صرف داخلہ کی وزارت ہے جو اس مخصوص پٹی سے باہر ہے اور وہ بھی کیا باہر ہے!!
کاش ! الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر جی ڈی پی اور فی کس شرح آمدنی کی شیخیاں بگھارنے والے جعلی اور بنائوٹی دانشور کبھی اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی سے باہر آ کر جی ڈی پی اور فی کس آمدنی کا سراغ لگاتے! سوزوکیوں سے لٹکتے اور بسوں کی
چھتوں پر بیٹھے پاکستانیوں کو دیکھتے! سرکاری ہسپتالوں کے وحشت زدہ ڈرائونے برآمدوں
میں ذلیل ہونے والی خلقِ خدا کو دیکھتے ان لاکھوں سکولوں کو دیکھتے جن کی چھتیں ہیں نہ دیواریں‘ جن میں کرسیاں ہیں نہ میز نہ پینے کا صاف پانی!
بجٹ ! بجٹ! جی ڈی پی ! جی ڈی پی!کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے رکھی گئی ہے! وزارت خزانہ کے بابو یا الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے خوش لباس معیشت دان کبھی اُس پاکستانی کا بجٹ بھی بناتے جس کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ پندرہ ہزار روپے اور بجلی پانی اور گیس کے بل‘ تین وقت کا کھانا‘ ڈاکٹروں کی فیسیں‘ دوائوں کی قیمت‘ عید پر بچوں کے نئے کپڑے‘ سکولوں کے اخراجات‘ شادیوں پر اٹھنے والے مصارف! اور بہت کچھ اور! لاکھوں گھرانے سال میں دو یا تین دفعہ گوشت خرید سکتے ہیں! اس کالم نگار کو ٹیلی ویژن پر سنا جانے والا‘ ایک عورت کا وہ انٹرویو کبھی نہیں بھولا‘ جس کا بیٹا نائب قاصد تھا اور جس کے گھر میںصرف عید پر بڑا گوشت پکتا تھا!
ٹیلی ویژن پر ایک شخص جس کی بصارت کا علم نہیں اور جس کی بصیرت صفرتھی کہہ رہا تھا کہ شاپنگ مال خریداروں سے چھلک رہے ہیں! اس سے کوئی پوچھے کہ ان چھلکتے شاپنگ مالوں میں پچیس کروڑ آبادی کا کتنا حصہ شامل ہے؟ خدا کے بندو!پاکستان صرف چار شہروں اور ان چار شہروں کے شاپنگ مالوں کا نام نہیں! پاکستان ان شہروں قصبوں‘ بستیوں اور قریوں کا نام ہے جن کے نام بھی ہمارے حکمرانوں نے کبھی نہ سنے ہوں گے! انہیں کیا معلوم کہ قلعہ سیف اللہ اور جھل مگسی کہاں واقع ہے! لورالائی اور مستونگ کے عوام کس حال میں ہیں؟ کوہستان سے لے کر کرک تک خلقت کس طرح وقت پورا کر رہی ہے۔ دادو‘ گھوٹکی ‘ سانگھڑ‘ تھرپارکر اور ٹنڈو اللہ یار بھی اسی پاکستان میں ہیں۔ اٹک ‘راجن پور ‘ لیّہ ‘میانوالی اور ڈیرہ غازی خان بھی اسی پنجاب میں واقع ہیں جس پنجاب کے بجٹ کا کثیر حصہ ایک ہی شہر پر صرف ہو رہا ہے!۔
یہی ہو رہا۔ یہی ہوتا رہے گا! بجٹ ہر سال پرانی فائلوں سے نئی فائلوں میں منتقل ہو کر نئے سال کا بجٹ کہلاتا رہے گا۔ وعدے کئے جاتے رہیں گے۔ ڈیسک بجائے جاتے رہیں گے ۔وزیر خزانہ کو مبارکیں ملتی رہیں گی۔ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں تقسیم ہوتی رہیں گی جنہیں حسب معمول کوئی نہیں پڑھے گا!قریوں میں دُھول اڑتی رہے گی۔ کروڑوں بچے سکولوں سے دور رہیں گے ۔گائوں کے گائوں قصبوں کے قصبے لوڈشیڈنگ میں پستے رہیں گے اور بجلی کے بل ادا کرتے رہیں گے۔ بے روزگار نوجوان ڈاکو بنتے رہیں گے۔ بیوائیں گھروں میں برتن مانجھتی رہیں گی! قلاش بے سہارا لوگ خودکشیاں کرتے رہیں گے۔ لندن میں فلیٹ‘ نیویارک میں اپارٹمنٹ اور دبئی میں محلات خریدے جاتے رہیں گے۔ ہر سال ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کا بجٹ بڑھتا رہے گا۔اسمبلیوں کے ارکان کی مراعات میں کئی گنا اضافہ ہوتا رہے گا۔ عوام کو جی ڈی پی کا کیپسول کھلایا جاتا رہے گا۔
No comments:
Post a Comment