Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, May 14, 2017

ہم ارتقا کا سفر طے کر رہے ہیں


تاریخ پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے اس لیے کہ قدرت یہی چاہتی ہے۔
تاریخ کا اپنا عمل ہے۔ پروسیس ہے۔ اس کی بھٹی سے ملکوں اور قوموں کو گزرنا ہوتا ہے۔ پاکستان بھی تاریخ کی بھٹی سے گزر رہا ہے۔ فوج نے اگر کہا کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہیں۔ جو حکم دیں عمل ہونا چاہئے تو کسی فرد یا کسی شخصیت کے لیے نہیں کہا وزیر اعظم پاکستان کے لیے کہا ہے۔فوج نے پاکستان کے مستقبل میں اپنا مثبت حصّہ ڈالا ہے۔ یہ فوج کا کنٹری بیوشن ہے۔
ہم تاریخ کے عمل سے مرحلہ وار گزر رہے ہیں۔ ہم 
Process
میں ہیں۔ یہ عمل پست ترین سطح سے شروع ہوا۔ ایوب خان نے سول حکومت کو چلتا کیا۔ نام نہادعشرۂ ترقیاس قوم نے بھگتا۔ اس ملک نے یحییٰ خان اور ضیاء الحق کو سہا۔ پرویز مشرف کی وردی کو جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے برداشت کیا۔ ارتقا اسی کو کہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے جس طرح پرویز مشرف کو چلتا کیا یہ تاریخ کا ضروری عمل تھا۔ پھر جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہم ارتقا کی جانب بڑھتے رہے۔ یہ سہرا جنرل قمر باجوہ کے سر بندھا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی اتھارٹی تسلیم کر کے اس ملک کو واقعتاً جمہوری ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم اب پاکستان میں بھی اسی طرح فائنل اتھارٹی ہے جس طرح برطانیہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ہے۔ جس طرح امریکہ کا صدر ہے!
اردو ادب کے ممتاز محقق اور مبصّر پروفیسر ممتاز حسین نے کہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے شاعروں کا جلوس کسی بڑے شاعر کے استقبال کے لیے ہوا کرتا ہے۔ ان کی قدر اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ شاعری کی روایت کو زندہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں بُری شاعری کو بھی گوارا کرنا چاہیے کہ بری شاعری ہی سے اچھی شاعری کی پہچان ہے۔ اور اس کی ہی راکھ سے اچھی شاعری جنم لیتی ہے ع
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تالیف کیے گئے تذکرے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ان تذکروں میں سینکڑوں شعرا کا ذکر ہے۔ یہ سب اُس قافلے کے ہیرو تھے جس کی قیادت میر غالب اور اقبال نے کرنا تھی۔ یہی حال ملکوں کے ارتقا کا ہے۔کئی وزراء اعظم آتے ہیں پھر کہیں جا کر ایک مہاتیر یا ایک لی پیدا ہوتا ہے۔ پلٹ کر دیکھیے اور غور کیجیے کیسے کیسے حکمران اِس ملک کو ملے۔ بلخ شیر مزاری غلام مصطفی جتوئی معین قریشی شوکت عزیز  بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف! یہ تاریخ کا عمل ہے ہمیں انتظار کرنا ہے۔ کسی مہاتیر کا کسی لی کو ان ییوکا! پھر جب وہ معمار آئے گا تو فوج کا یہ اعلان کہ فائنل اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے اس کے رختِ سفر کا اہم ترین حصّہ ہو گا!
وزیر اعظم نواز شریف کا نام انفراسٹرکچر کے حوالے سے تاریخ میں زندہ رہے یا نہ رہے اس لیے ضرور زندہ رہے گا کہ فوج کی طرف سے سول حکومت کو اتھارٹی تسلیم کرنے کا سنگِ میل اُن کے عہدِ حکومت میں نصب ہوا تھا۔
قائد اعظم کی مثال اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سرسیّد احمد خان سے لے کر ظفر علی خان تک محمد علی جوہر سے لے کر حسرت موہانی تک کتنے مجاہدینِ آزادی آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوئے۔اس لیے کہ ایک بڑے مجاہد نے آنا تھا۔ وہی تاریخ کا عمل۔مرحلہ وار! رفتگی اور آہستگی کے ساتھ! مگر تسلسل میں!
غورکیجیے تو عمران خان کی جدوجہد بھی ہمارے ارتقا کا ایک حصّہ ہے۔ حکومتِ وقت کا محاسبہ کرنے کی روایت جو پہلے نہیں تھی اب پڑی ہے۔ اس کے بغیر ہماری سیاسی پختگی کا سفر آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے؟ ایک وقت وہ تھا کہ حکومت وقت کے ایما سے سپریم کورٹ پر حملہ ہوا ایک وقت یہ ہے کہ دو جج وزیر اعظم کو نااہل قرار دیتے ہیں اور ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ عدلیہ جے آئی ٹی تشکیل دیتی ہے اور حکومت وقت سرِ تسلیم خم کرتی ہے! یہ ارتقا ہے اور تاریخ کا یہی حسن ہے 
جو قوموں کو تابندگی عطا کرتی ہے! جو سیاست دان یہ دہائی دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم انیس گریڈ کے افسر کے سامنے پیش ہوئے تو ان کی یا پارلیمنٹ کی کیا توقیر رہ جائے گی ذہنی طور پر قلاش ہیں! اسی قدر قلاش کہ ان کے سیاسی جسم پر لباس نہیں چیتھڑے ہیں! ان کے ہاتھوں میں کشکول بھی نہیں کہ اس میں فکر کا ایک سکّہ ہی ڈال دیا جائے۔ خدا کے بندو! نواز شریف اگر وزیر اعظم کے طور پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے تو جمہوریت کی تاریخ میں اپنا نام ایک روشن باب میں لکھوا جائیں گے۔ احتساب کی تاریخ شروع ہی ان سے ہو 
گی! افسوس ! صد افسوس! ان کے اردگرد جو لوگ حصار باندھے کھڑے ہیں 
ذہنی طور پر کچے ہیں اور تاریخ کے مطالعہ سے یکسر عاری! ورنہ وہ انہیں باور کراتے کہ جو ملک آج کرۂ ارض پر بنی نوع انسان کی فکری اقتصادی سیاسی اور عسکری قیادت کر رہے ہیں ان ملکوں میں حکمران ایسی جے آئی ٹی کے سامنے آئے دن پیش ہوتے ہیں!
گریڈ انیس کے افسرکے سامنے؟ ایسی بات کرنے والے وہی ہیں جن کی دنیا پٹواری سے شروع ہو کر ڈپٹی کمشنر کی چوکھٹ پر ختم ہو جاتی ہے۔ کیا عدلیہ کے ججوں کے گریڈ اور تنخواہیں دیکھی جاتی ہیں؟ حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ ایک نکٹے اور کان کٹے غلام کو بھی حکمران بنایا جائے اور وہ قانون پر چلے تو اس کی اطاعت کرو! نام لکھنا شائستگی کے خلاف ہو گا ورنہ جو حضرات آج اپنے ملک کے افسروں کی یہ کہہ کر تحقیر کر رہے ہیں کہ گریڈ انیس کے افسروں کے سامنے پیش ہونے سے توقیر کیا رہ جائے گی یہ وہی فکری افلاس کے عبرتناک نمونے ہیں جن کے آبائو اجداد گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں عید کے دن گھنٹوں نہیں پہروں کھڑے رہتے تھے اور جب دوپہر کے وقت اندر سے نوکر آ کر بتاتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے تو یہ بے شرم وڈیرے اور گدی نشین ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ یہ جب انگریز ڈپٹی کمشنر تو بڑی بات تھی انگریز مجسٹریٹ کے سامنے رکوع میں جاتے تھے تو ان کے طرے زمین کو چاٹ رہے ہوتے تھے اور ان کی سرینوں سے کپڑا ہٹ جاتا تھا! شرم آنی چاہیے ان ٹوڈی زادوں کو جو قانون اور احتساب کو گریڈوں سے ماپ کر وزیر اعظم کو غلط راستہ دکھا رہے ہیں! کیا امیر المومنین عمر فاروقؓ اور امیر المومنین علی مرتضیٰ ؓ جب قاضی کے سامنے پیش ہوئے تھے تو کیا وہ قاضی مرتبہ میں ان سے بڑا تھا؟ کیا کرۂ ارض کا طاقت ور ترین حکمران کلنٹن جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا تو کیا اس کے مقدمے کا جج مرتبہ میں امریکہ کے صدر سے بڑا تھا؟ یہ لوگ امریکہ میں ہوتے تو کالی نسل کے اوباما کے صدر بننے پر صفِ ماتم بچھا دیتے! امریکہ اسی لیے امریکہ ہے کہ امریکیوں نے ذہنی پختگی کا سفر کامیابی سے طے کیا اور ارتقا کے مراحل سے گزر کر عروج پر پہنچے۔ جن حبشی غلاموں کے سزاکے طور پر پائوں کاٹ دیئے جاتے تھے اور جنہیں کپاس کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کڑکڑاتے کوڑے  
مارے جاتے تھے انہی حبشی غلاموں کے ایک بیٹے نے الیکشن جیتا تو اسے صدر کے طور پر قبول کیا گیا! گویا نکٹے غلام والے حکم پر عمل کر کے دکھایا گیا!
ہمیں معلوم ہے کہ ڈان لیکس والے قصّے میں جھول ہے۔ مسنگ لنکس
 (Missing Links)
ہیں! مگر اب بال کی کھال ہم نہیں اتاریں گے اور جو اتار رہے ہیں توازن کی حد پار کر رہے ہیں! جس کو بھی بچایا گیا اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ عوام کو سب کچھ معلوم ہے! بسا اوقات گھر میں ہمارا چھوٹا بھائی یا ہمارا فرزند کوئی ایسی بات بتاتا ہے جو ہمیں معلوم ہے کہ درست نہیںمگر ایک حکمت کے تحت ہم مان لیتے ہیں اس توقع پر کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا! فوج نے اگر اس معاملے میں بکھیڑے کا آخری سرا ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش نہیں کی اور ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھی تو دانائی اور ہوش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے خیر کا جو پہلو نکلا ہے وہ یہ اعتراف ہے کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہیں۔ جب کوئی وژن رکھنے والا حکمران آئے گا تو یہ اعتراف اس کے لیے زینہ ثابت ہو گا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com