Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 30, 2017

میری اور لال چند کی ایک ہی قوم ہے۔ پاکستانی قوم!!


لال چند ربڑی بدین(سندھ) کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا 
ہوا۔ والد گڈریا تھا۔ ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ گیارہ بچوں میں لال چند پانچویں نمبر پر تھا۔

2009
ء میں اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے ذہن میں کچھ خواب تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک دن اس نے گھر والوں کو بتائے بغیر بدین شہر کا رُخ کیا۔ اور پاک فوج میں بھرتی ہو گیا۔
بھرتی ہونے کی وجہ بے روزگاری تھی نہ کچھ اور۔ اس کی وجہ اس کے خواب تھے۔ مادرِ وطن کا دفاع کرنے کے خواب! دشمن سے لڑنے کے خواب! اس کے بھائی بھیمن کا کہنا ہے کہ جب اس کی تعیناتی وزیرستان میں ہوئی تو وہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو کچل دینے کے ولولے کے ساتھ  وہاں پہنچا ۔اس کا کہنا تھا’’جن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں اور بچوں کو نقصان پہنچایا ہے‘ میں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا!‘‘
اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند تھا۔ اس کی ہمت قابلِ رشک تھی۔ ارادے بلند تھے۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھرگریجوایشن کر لی! اب وہ لانس نائک تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کوفوج میں خدمات بجا لانے کے لیے آمادہ کرتا رہتا تھا۔ اب جب لال چند مادر وطن پر قربان ہو گیا ہے اس کے دوبھائی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج میں بھرتی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لال چند کے بھائی بھیمن نے آہ و فغاں کی نہ گریہ و زاری ! کہا تو یہ کہا کہ یہ ملک ہمارا گھر ہے۔ ہماری ماں کو بیٹے کی قربانی کا کوئی دکھ نہیں! وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اسی راہ پر چلانے کی خواہش رکھتی ہے۔ ماں نے اپنے آنجہانی شوہر کو یاد کیا اور کہا کہ وہ زندہ ہوتا تو آج فخر سے اس کا سر بلند ہوتا۔
مئی کی17تاریخ تھی جب لال چند ملک کی پاسبانی کرتے ہوئے ملک کے کام آیا اس نے جان اس دھرتی پر فدا کر دی جس کے دفاع کی اس نے قسم کھائی تھی!
مگر لال چند ہمیں کچھ سبق دے گیا ہے اور کچھ سوال چھوڑ گیا ہے! لال چند زبان سے نہیں‘ خون سے ثابت کر گیا کہ یہ ملک کسی ایک گروہ‘ کسی ایک مذہب ‘کسی ایک نسلی یا لسانی اکائی کا نہیں‘ یہ ملک سب کا ہے! ایک پاکستانی جس مذہب کا بھی ہو‘ جو زبان بھی بولتا ہو‘ جس نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ اول آخر پاکستانی ہے۔ اور سب پاکستانی برابر ہیں! اگر مذہب یا زبان یا نسل کی بنیاد پر کوئی پاکستانی کسی دوسرے پاکستانی سے برتری کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے‘ بہت بڑی غلطی پر ۔ہاں برتری ممکن ہے! مگر مذہب‘ مسلک ‘زبان یانسل کی بنیاد پر نہیں! خون کے ان قطروں کی بنیاد پر جو وطن کی مٹی پر گرتے ہیں اور جن کی سرخی خاک وطن کو رنگین کر جاتی ہے!
میں لال چند ربڑی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنے آپ میں اور اس میں ایک ایسی یکسانیت ‘ایسی مماثلت نظر آتی ہے جو پتھر کی طرح ٹھوس ہے اور سورج کی کرن جیسی صاف اور ناقابل تردید۔ وہ سندھی بولتا تھا میں پنجابی بولتا ہوں ‘میں اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا ہوں‘ وہ اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا تھا‘ وہ جنوبی پاکستان سے تھا‘ میں شمال سے تعلق رکھتا ہوں مگر قومیت یعنی نیشنلٹی 
(Nationality)
کے خانے میں وہ بھی پاکستانی لکھتا تھا اور میں بھی پاکستانی لکھتا ہوں۔ پاسپورٹ ہو یا قومی شناختی کارڈ سکول میں داخلے کا فارم ہو یا کسی غیر ملک کے اندر جانے کا فارم ‘قوم کے خانے میں ہم دونوں پاکستانی لکھتے تھے یعنی میری اور لال چند ربڑی کی قوم ایک ہے۔ سو اس ملک میں جتنے لوگ بھی آباد ہیں‘ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘ کسی بھی رنگ یا نسل کے ہیں‘ سب کی ایک ہی قوم ہے اس ملک میں ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ قوم ہے پاکستانی! اگر کوئی کہتا ہے کہ یہاں دو یا تین یا چار قومیں بستی ہیں تو بتائے کہ کیا نیشنلٹی کے خانے میں وہ پاکستانی نہیں لکھے گا؟ اور کیا لال چند ربڑی بھی پاکستانی نہیں لکھتا تھا؟ یہ ایک ٹھوس پتھر‘ پہاڑ‘ چٹان جیسی ٹھوس حقیقت ہے ! اس کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ہوائی جہاز فضا میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ اچانک ایک آواز جہاز میں ابھری:’’ خواتین و حضرات خاطر جمع رکھیے‘ جہاز کو کچھ نہیں ہونے والا‘ بس ذرا انجن میں خرابی ہے‘ آپ کھڑکی سے باہر نیچے دیکھیں‘ سمندر کی نیلگوں شفاف لہروں پر ایک خوبصورت کشتی خراماں خراماں چل رہی ہے‘ میں اسی کشتی میں بیٹھ کر آپ سے مخاطب ہوں!‘‘
لال چند ربڑی ان بہت سے لوگوں سے بازی لے گیا جو آرام دہ کشتیوں میں بیٹھ کر دوسروں کو قربانی کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ان آگ لگانے والوں سے بدرجہا بہتر ثابت ہوا جو رنگ ‘نسل ‘علاقائیت ‘مذہب‘ مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ جو دوسروں کے بچوں کو شہادت کا درس دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بزنس کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جو دوسروں کے نوجوان بیٹوں کے ہاتھوں میں بندوق اور کلاشنکوف دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں قلم کاغذ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ دیتے ہیں! لال چند ربڑی نے ان سب کو ایک نگاہ غلط انداز سے دیکھا۔ سینے پر گولی کھائی اور وطن پر نثار ہو گیا!   
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا‘ سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
ہر پاکستانی کے جذبات لال چند کے لیے وہی ہیں جو اس کالم نگار کے ہیں! یہ خبر جب چھپی تو اخباروں کے آن لائن ایڈیشنوں میں پاکستانیوں نے دل کھول کر لال چند کو خراج تحسین پیش کیا۔ صرف ایک اخبار سے چند کمنٹس:
فرزانہ حلیم:اس کی روح سکون میں رہے۔
ریحاب علی خان : ہمارے ایک بھائی نے ہمارے لیے اپنی زندگی قربان کی۔ وہ ہمارے احترام کا مستحق ہے۔ ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ لانگ لائف پاک آرمی۔
سید: تمہیں سیلوٹ!بہادر لال چند! تم اپنے نام کی طرح ہیرے ہو!
خان: ہمارا سیلوٹ! حکومت اس کے خاندان کی دیکھ بھال ضرور کرے۔
فیروز: کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک جاں باز سپاہی کی قدرو قیمت نسل‘ زبان یا مذہب کی بنیاد پر جانچی جاتی 
ہے ! دنیا میں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
او ایس ڈی: ہمیں تم پر 
اور تمہارے خاندان پر فخر ہے۔
عزیز۔:ویل ڈن! اے مادرِ وطن کے بہادر فرزند!
عرفان: لال چند کے لیے سیلوٹ! اس نے اپنے وطن سے محبت کی اور ثابت کر دیا کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکتا تھا!
ایس ایم:ان سب کو شرم آنی چاہیے جو غیر مسلموں کو سکینڈ کلاس شہری سمجھتے ہیں۔
دھرمیش جھالا: میں بھارت سے ہوں اور جب دیکھتا ہوں کہ پاکستانی اپنے ہندو سپاہی پر کس قدر محبت نچھاورکر رہے ہیں تو میری آنکھوںمیں آنسو آ جاتے ہیں ‘ایک بات ضرور کہوں گا کہ بھارت اور پاکستان لڑائی جھگڑا ختم کر دیں!
سید شیراز:لال چند! تم ہمارے ہیرو ہو! 
چنگیز کے: لال چند ربڑی زندہ باد۔ پاکستان آرمی زندہ باد
امیر قیصرانی: لال چند! ہم تمہیں سیلوٹ کرتے ہیں! اور ان سب جانباز سپاہیوں کو بھی جنہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے اس مقدس مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ! ہم انہیں بھی سلام کرتے ہیں جو اس وقت لڑ رہے ہیں! 
پاکستانی۔ بے پناہ احترام اور سیلوٹ 
سید احمد : زمین کے اس بہادر بیٹے کے لیے احترام! اور ان سب کے لیے جو آرمی‘ پولیس‘ نیوی اور ایئر فورس میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے ہماری حفاظت کر رہے ہیں! 
جے کے ڈی: اس کے ہندو ہونے کا تذکرہ ہی کیوں کیا جائے؟ وہ پاکستانی تھا۔ یہ ملک سب کا ہے خواہ وہ کسی مذہب کے پیرو ہوں! بہت سے غیر مسلم اس ملک کے لیے کام کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔آفرین ہے تم پر لال چند! پاکستانی تم پر فخر کرتے ہیں۔
2: کتنا خوبصورت جوان تھا! اور کیا ہی بہادرانہ انجام پایا۔ امید ہے اسے کوئی میڈل ضرور دیا جائے گا۔ اور اس کے اہل خانہ کا بھی خیال رکھا جائے گا!
پاکستانی: ہم تمہاری قربانی کبھی نہیں بھولیں گے۔
ایم ایس: لال چند اور اس کے خاندان کو سلام! وہ ہم میں سے بہت سوں کی نسبت اور ہمارے بہت سے لیڈروں کی نسبت بہتر تھا۔
مقصود: ابدی راحت میں رہو میرے بیٹے! ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم پاکستانی تھے اور بس! باقی سب کچھ غیر ضروری ہے!
ثاقب: لال چند کے لیے ٹنوں کے حساب سے احترام! وہ ہمارا ہیرو ہے۔ ہندو ہماری قوم کا قابل فخر حصہ ہیں!
خالد رشید: میڈیا کو چاہیے کہ اس خبر کو نمایاں کرے تا کہ دنیا کومعلوم ہو کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔
یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے ورنہ پاکستانیوں نے اس پاکستانی سپاہی کو جتنا خراج تحسین پیش کیا ہے ایک کالم میںسمویا نہیں جا سکتا! 
لال چند اس حقیقت کو واشگاف کر گیا ہے کہ پاکستان کی فوج قومی فوج ہے اس فوج پر کسی ایک نسل‘ زبان‘ مذہب ‘ مسلک یا عقیدے کی اجارہ داری نہیں! پاکستانی فوج کا ہر سپاہی صرف اور صرف پاکستانی ہے!

1 comment:

Riza Sidiqi said...

بہت عمدہ تحریر ہے۔ کاش یہ تحریر ہر پاکستانی تک پہنچے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com