Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 08, 2017

گنگا بہہ رہی ہے

کیا آپ کو یاد ہے کہ چند دن پہلے اسلام آباد ایئر پورٹ پر ناروے جانے والی دو مسافر خواتین کی کس طرح دھنائی ہوئی؟ سرکاری اہلکار عورتوں نے انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور مارا۔ متعلقہ ادارے نے پہلے تو مٹی ڈالنے کا کام کیا اور رپورٹ پیش کی کہ اصل میںمسافر خواتین نے بدتمیزی کی تھی۔ پھر جب وڈیو وائر ل ہوئی تو مرتا کیا نہ کرتا حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ مجرم ثابت ہونے والی اہلکار کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
مگر یہ سارا بکھیڑا شروع کیسے ہوا؟ ہوا یوں کہ ناروے جانے والی مسافر خاتون واش روم میں گئی۔ وہاں ٹائلٹ پیپر نہیں تھا۔ اس نے باہر نکل کر اہلکار سے اس بارے میں پوچھا اہلکار نے غالباً کہا کہ یہ اس کے دائرۂ کار میں نہیں ہے۔ یہاں سے بات بڑھی مارکٹائی تک پہنچی اور آخر میں دست درازی کرنے والی اہلکار کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس واقعہ کے بارہ دن بعد یہ کالم نگار اُسی ایئر پورٹ پر اُسی واش روم میں گیا۔ ٹائلٹ پیپر اب بھی نہیں تھا۔ باہر نکل کر پاس کھڑی اہلکار سے حیرت سے کہا کہ واش روم میں ٹائلٹ پیپر نہیں ہے۔ غنیمت ہے کہ اس نے آگے سے اتنا ہی کہا کہ ہاں! نہیں ہے!
یہ ہے اداروں کی کارکردگی! شایدقارئین کو یاد ہو کہ دو تین سال پہلے اسی ایئر پورٹ کو دنیا کا بدترین ایئر پورٹ قرار دیا گیا۔ اندازہ لگائیے جس کوتاہی کی بنا پر جھگڑا ہوادنیا بھر میں مارکٹائی والی ویڈیو دیکھی گئیخاتون اہلکار کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑےوہ کوتاہی بدستور موجود ہے! خاتون اہلکار کا یہ کہنا درست تھا کہ وہ تو ایف آئی اے کی ہے۔ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کس کا ہے؟ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ہے؟ شہری ہوا بازی کی وزارت کا ہے؟ کیا ان محکموں کے سربراہوں نے ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈی جی نےہوا بازی کی وزارت کے وفاقی سیکرٹری نے بھیس بدل کر نہ سہی اچانک آ کر واش روم چیک کئے ایئر پورٹ پرمسافروں کی بے بسی کا جائزہ لیا؟
ادارے کیوں نہیں کام کر رہے؟ اس کی وجہ نااہلی اور احتساب کا نہ ہونا ہے۔ مگر جس ملک کا وزیر اعظم خود اپنی زبان سے کہے کہ 
پتہ نہیں ہمارے نظام اور محکموں کو کیا ہو گیا کہ دو سال میں مکمل ہونے والے منصوبوں پر بیس بیس سال لگ جاتے ہیں!
اُس ملک کا خدا ہی حافظ ہے! آپ تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ آپ سے زیادہ حکومت کرنے کا اور حکومت میں رہنے کا تجربہ پورے ملک میں اور کسی شخص کو نہیں گزشتہ چار سال سے آپ حکومت کے سربراہ ہیں۔ تمام ادارے تمام محکمے آپ کی مٹھی میں ہیں مگر آپ قوم کے سامنے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے نظام اور محکموں کو کیا ہو گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون! 
واقعہ توعجیب سا ہے مگر یہاں بے اختیار یاد آ رہا ہے۔ ایک شہزادے کی پرورش حرم سرا کے زنانہ حصّے میں ہوئی۔ وہیں پلا بڑھایہاں تک کہ شباب آ پہنچا ۔ ایک دن محل میں سانپ نکل آیا۔ بیگمات اور کنیزوں نے شور مچایا کہ سانپ نکل آیا ہے کسی مرد کو بلائو نوجوان شہزادے نے بھی چیخ کر کہا کسی مرد کو بلائو۔پوری قوم وزیر اعظم سے پوچھ رہی ہے کہ ہمارے نظام اور ہمارے اداروں کو کیا ہوا ہے؟ وزیر اعظم بھی قوم کی آواز میں آواز ملا کر پوچھ رہے ہیں پتہ نہیں ہمارے نظام اور محکموں کو کیا ہو گیا! 
وزیر اعظم کو چاہیے کہ اقوامِ متحدہ سے مدد مانگیں اور وہ آ کر وزیر اعظم کے ملک میں معلوم کرے کہ نظام اور محکموں کو کیا ہو گیا۔ بھاری مینڈیٹ لے کر حکومت آپ کر رہے ہیں اور آپ کو چار سال میں یہی نہیں معلوم کہ نظام کو کیا ہوا ہے!
پھر اسی پر بس نہیں کرتے وزیر اعظم یہ فلسفہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ملک میں بہت گھپلے ہیں اگر ان کی تحقیقات میں لگ گئے تو سارا وقت اسی میں گزر جائے گا اور ترقیاتی کام رک جائیں گے۔کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ یہ بیان ایک ملک کا وزیر اعظم ایک حکومت کا سربراہ دے رہا ہے؟
اتنے گھپلے اور کرپشن کے سکینڈل ہیں کہ جتنا کہا جائے کم ہے
گویا کرپشن کرنے والوں کو صلائے عام ہے کہ جتنی کرپشن کرنا چاہتے ہو کر لو ہم نے تحقیقات تو کرنی ہی نہیں ہم تو ترقیاتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔
عالی جاہ! جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ ترقیاتی کام کرنے والے ادارے الگ ہیں اور گھپلوں اور کرپشن کی تحقیقات کرنے والے محکمے الگ ہیں اگر چھان بین اور احتساب کرنے والے ادارے اپنا کام کریں اور دیانت داری سے کریں تو گھپلوں کو اور کرپشن کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کا ترقیاتی اداروں کے دائرہ کار سے کیا تعلّق!
مگر شاید وزیر اعظم کو اپنی حکومت اپنے ملک کے اداروں کا علم ہی نہیں! کیا وزیر اعظم کے سیکرٹریٹ میں ایک مخصوص برادری کے جو ستر ستر سال کے ریٹائرڈ بیورو کریٹ بیٹھے ہوئے ہیں وزیر اعظم کو اتنا بھی نہیں بتا سکتے کہ اگر کرپشن اور گھپلوں کو یہ کہہ کر کھلی چھٹی دے دی جائے کہ تحقیقات کا وقت نہیں تو ترقیاتی کام بھی کرپشن کی نذر ہو جائیں گے۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں عرض کر سکتے کہ جہاں پناہ! ادارے اپنا اپنا کام کریں تو کرپشن کا انسداد بھی ممکن ہے اور بیک وقت ترقیاتی کام بھی ہو سکتے ہیں! مگر نوکریوں میں توسیع کے طلب گاروزیر اعظم کے سامنے سچ کبھی نہیں بولیں گے ۔انہیں معلوم ہے حکمران کے کان کیا سننا چاہتے ہیں! وہی بات کریں گے جو دل کو خوش کرے! بادشاہ کا دل بھی خوش ! اپنی نوکری بھی پکّی!
ایئر پورٹ کی بات ہو رہی تھی۔ امیگریشن کے لیے بے حد لمبی قطار تھی! خلقِ خدا بے بس بے کس کھڑی تھی جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی تھے۔ پی آئی اے کا ایک افسر پوچھنے لگا آپ وہی ہیں جو فلاں چینل پر آتے ہیں کہا نہیں!فلاں چینل پر نہیں 92چینل پر۔ اُس سے پوچھا کیا بوڑھوں کے لیے الگ قطار نہیں؟ افسر پھٹ پڑا کہنے لگا آپ نے آج یہ طویل قطاریں دیکھی ہیں ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ امیگریشن کے کم از کم دس کائونٹر ہونے چاہئیںیہاں مشکل سے پانچ ہیں۔ گرمی میں مسافر گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ واش روموں میں ٹائلٹ پیپرز تک نہیں! کوئی پوچھنے والا نہیں!
یہ ہے حکومت کی کارکردگی! حکومت کو کوئی بتائے کہ عوام کو صرف سڑکوں کی ضرورت نہیں ہوتی145 وہ ایک سسٹم چاہتے ہیں۔ ایک نظام چاہتے ہیں جس میں انہیں خوار نہ ہونا پڑے۔ ایئر پورٹوں پر بسوں کے اڈوں پرواپڈا گیس اور ٹیلی فون کے دفتروں میں ٹریفک کے اژدہام میں انہیں ایک سسٹم چاہیے تاکہ دھکے نہ کھانے پڑیں۔ پانچ پانچ سال تک درخواست دہندہ کو گیس کا کنکشن نہیں ملتا۔ پھر وہ مجبور ہو کر کسی اہلکار کو حرام کھلاتا ہے۔ شام سے پہلے اس کے گھر میں گیس رواں ہو جاتی ہے۔
عالی جاہ! آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
کل خدا کے سامنے آپ کیا یہ کہیں گے کہ پتہ نہیں نظام اور محکموں کو کیا ہوا تھا؟ کرپشن کے متعلق سوال ہو گا تو کیا آپ یہ جواب دیں گے کہ کرپشن اور گھپلوں کی تحقیقات کراتا تو ترقیاتی کام رک جاتے! عالی مرتبت ! آپ ہیلی کاپٹروں میں محوِ پرواز ہوتے ہیں اور نیچے مائوں کے بیٹے اُن ڈمپروں، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کے نیچے کچلے جاتے ہیں جن کو کنٹرول کرنا آپ کی حکومت کا اولین فریضہ ہے! آپ کو کیا خبر لوڈشیڈنگ کس عذاب کا نام ہے؟ آپ کو کیا پتہ لوگ پیٹ کاٹ کر یو پی ایس کس طرح خریدتے ہیں اور لاکھوں گھر تو یو پی ایس بھی نہیں خرید سکتے۔ حکومت کرنا آسان ہوتا تو عمر بن خطابؓ جیسا شخص یہ نہ کہتا کہ فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا بھی مجھے حساب دینا ہو گا۔ ابوبکر صدیقؓ ایک تنکا پکڑ کر حسرت سے یہ نہ کہتے، کاش میں ایک تنکا ہوتا اور مجھ سے حساب کتاب نہ ہوتا۔
ہم عصر تاریخ میں، یا شاید ساری تاریخ میں کسی اور حکمران نے برملا یہ نہ کہا ہو گا کہ ملک میں اتنے گھپلے اور کرپشن سکینڈلز ہیں کہ جتنا کہا جائے کم ہے۔ لیکن اگر ہم تحقیقات کے چکر میں پڑ گئے تو سارا وقت اسی میں لگ جائے گا۔ گویا کرپشن کے لیے صلائے عام ہے! ؎
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com