Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, July 04, 2022

Insult


میرا مسئلہ نواز شریف ہیں نہ زرداری ! مولانا ہیں نہ شہباز شریف! ان سے تو میں کبھی کا بر گشتہ خاطر تھا۔کبھی الیکشن میں انہیں ووٹ نہیں دیا۔ہمیشہ مخالفت کی۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔میری کیا اہمیت ہے! میں کسی کھیت کی مولی نہیں! میرے ووٹ دینے یا نہ دینے سے پیپلز پارٹی کو یا (ن) لیگ کو یا جے یو آئی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر میں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہوں اور بقائمی ہوش و حواس ‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔ (ن) لیگ کی تو ڈٹ کر مخالفت کی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر نے اُس زمانے میں ( یعنی اگست2018ء سے پہلے) ایک ٹی وی ٹاک شو والوں کو میرے بارے میں کہا کہ اس جیسے ہارڈ لائنر کو بلا لیتے ہیں۔ جب بڑے میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور کارِِ سرکار میں ان کی دختر نیک اختر کا عمل دخل بہت زیادہ تھا ‘ تو اس مداخلت کی بھی مخالفت کی۔ جب چھوٹے میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کے صاحبزادے صوبے کی حکومت چلانے میں دخیل تھے تو اس پہلو کے خلاف بھی لکھا اور بولا۔ ان سیاسی جماعتوں پر مخصو ص خاندانوں کی موروثی گرفت کے خلاف بھی بہت کہا اور بہت لکھا۔ جب ان جماعتوں سے کوئی امید ہی نہیں تھی تو گلہ کیسا! 
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
میرا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں! میں ایک قانون پسند اور آئین پسند شہری ہوں۔ اداروں کی دخل در معقولات کا کبھی حامی نہیں رہا۔ میری رائے میں جنرل ضیا الحق کے عہدِ حکومت نے اس ملک کو کئی نوری سال پیچھے دھکیل دیا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑیں۔ قومی خزانے کو شیر مادر کی طرح برتا گیا۔ دہشت گردی ‘ اسلحہ کی ریل پیل اور منشیات کا پھیلاؤ اسی عہد کی یادگاریں ہیں۔ جنرل صاحب نے مذہبی طبقات کو ساتھ ملا کر ‘ ملک کے بارڈر کی ایسی تیسی کر دی۔ کسی پاسپورٹ کسی ویزے کے بغیر لاکھوں غیر ملکی جنگجوؤں کو اس ملک میں لا بسایا۔ غیر ملکی لاکھوں کی تعداد میں‘ پورے ملک میں‘ یوں بکھیر دیے جیسے کھیت میں بیج بکھیرا جاتا ہے۔ آج بھی یہ غیر ملکی اور ان کی ذریت میرے اہلِ وطن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے! پرویز مشرف کے تاریک دور میں جو جو ستم ڈھا ئے گئے ان کے بارے میں بھی میرے نحیف اور بے نوا قلم نے بارہا لکھا ہے!
میرا مسئلہ عمران خان صاحب سے ہے۔ میں نے ان کے وعدوں پر اعتبار کیا۔ انہیں ووٹ دیا۔ مگر انہوں نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی۔میں زندگی میں پہلی بار گھر سے ووٹ دینے نکلا۔ مجھے میرے دوست احباب‘ اعزّہ و اقارب ہمیشہ سمجھاتے کہ ووٹ نہ ڈال کر تم قومی جرم کا ارتکاب کر رہے ہو۔ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے۔ مگر میرا موقف واضح تھا۔ مجھے کوئی پارٹی اس لائق نہیں لگتی تھی کہ اسے کارِ مملکت سونپا جائے۔کسی غیر مستحق کو ووٹ دینا امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ جب عمران خان میدان میں نکلے تو میں نے پہلی بار کسی لیڈر کے منہ سے وہ باتیں سنیں جو میرے دل میں تھیں۔ ان کا پروگرام‘ ان کے وعدے‘ ان کے دعوے سن کر میں متاثر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ہر ماہ پی ٹی وی کے نام پر بجلی کے بلوں میں جو جگّا ٹیکس لیا جاتا ہے انہوں نے اس کے خلاف تقریر کی۔ میرے کلیجے میں اس سے ٹھنڈ پڑی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ بیورو کریسی میں تعیناتیاں اور ترقیاں میرٹ اور صرف میرٹ پر کی جائیں گی۔انہوں نے بدنام زمانہ تھانہ اور کچہری کلچر کو بدلنے کا وعدہ کیا۔قومی عزتِ نفس کی بات کی۔ملکی خزانے کی حفاظت کا وعدہ کیا۔ انہوں نے مغرب کے جمہوری ملکوں کی قانون پسندی کی مثالیں دیں۔یہی میرے خواب تھے۔ یہ خواب میں نے سال ہا سال دیکھے تھے۔ خدا خدا کر کے اب ایک ایسا لیڈر ملا جو مجھے میرے خوابوں کی تعمیر دینے کا پیمان کر رہا تھا۔میں نے اسے ووٹ دیا اور بے حد سنجیدگی سے دیا۔
مگر میرے ساتھ دھوکہ ہوا! دن دہاڑے دھوکہ ہوا! پہلے تو میرٹ کی دھجیاں اُڑا کر ایک قطعی غیر مستحق ‘ گمنام‘ نا تجربہ کار شخص کواہلِ پنجاب کی گردن پر مسلط کر دیا گیا جس کی واحد اہلیت یہ تھی کہ وہ گجر خاندان کا دوست تھا جیسا کہ گجر صاحب نے خود ٹی وی پر بتایا۔ عمران خان صاحب اس غیر معروف شخص کو خود جانتے تک نہ تھے۔ اسی پر اکتفا نہیں ہوا۔جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ ایک ہولناک مذاق سے کم نہ تھا۔ عمران خان اس کی تعریفوں کے ہر دم پُل باندھتے رہتے۔ ندیم افضل چن صاحب نے ٹی وی پر وہ اسباب بتا ئے جن کی بنا پر وہ عمران خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے۔ ایک سبب یہ تھا کہ وزیر اعظم کی یہ خواہش ہوتی تھی اور اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہتے بھی تھے کہ بزدار کی تعریف کی جائے! پھر جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے بہت بڑا عہدہ دیا۔مونس الٰہی نے ایک حالیہ ٹویٹ میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے ان کے گھر جا کر ان الفاظ پر معذرت کی! کیاایک لیڈر کا یہ کردار ہونا چاہیے؟ کیا پہلے جوکچھ کہا وہ جھوٹ تھا؟ فرح نامی خاتون ‘ جس پر الزامات ہیں‘ کیوں فرار ہو گئی؟ اگر یہ الزامات جو باعزت ہر گز نہیں‘ غلط ہیں تو خان صاحب اسے حکم کیوں نہیں دیتے کہ واپس آؤ تا کہ میری پوزیشن خراب نہ ہو۔ قیراط اور انگوٹھیوں والی باتوں کی تردید کیوں نہیں کی جاتی!
کون سا وعدہ اور کیسا دعویٰ! کابینہ سترہ کے بجائے پچپن ارکان کی بنائی۔ پی ٹی وی والی چَٹّی جو بجلی کے ماہانہ بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی خان صاحب کو یاد ہی نہ رہی۔ بیوروکریسی میں میرٹ نامی چڑیا کہیں بھی نہ دکھائی دی۔ وزیر اعظم کے گرد بیورو کریسی کا جو حصار تھا وہ لسانی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا۔وہ خاتون جس کا نام طیبہ فاروق ہے‘ کیا کیا الزامات لگا رہی ہے! اس کی تردید کیوں نہیں کی جاتی؟وڈیو کی بنیاد پر نیب کے چیئر مین کو کیا بلیک میل نہیں کیا گیا؟ رہی عزت ِنفس ‘ جس کی بات کی جاتی تھی‘ تو اس کی خوب خوب بھد اُڑائی گئی۔ امریکہ جانا تھا تو سپیشل ہوائی جہاز کی خاطر ‘ مملکت پاکستان کے حکمران نے ‘ ایک شہزادے کے احسان تلے دب جانا پسند کیا۔ واپسی پر ‘ مبینہ طور پر‘ اس نے آدھے راستے میں جہاز واپس لے لیا۔ شاید یہ شدید احساسِ کمتری تھا کہ دفتر آنے جانے کے لیے‘ چار سال ‘ دن میں دو بار ‘ سرکاری ہیلی کاپٹر کی سواری کی گئی۔ اگر انسان نے اپنے ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹر دیکھے ہوں اور برتے ہوں تو اور بات ہے۔ مگر سیالکوٹ جانا ہو یا کراچی ‘ چارٹرڈ جہاز کے بغیر نہ جا یا جا سکے تو اسے احساسِ کمتری کے علاوہ کیا کہا جا ئے گا؟ سیاست دان اور لیڈر میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔ لیڈر ایسے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے کہ لوگ اس کی تقلید اور تعریف کریں۔ نہ یہ کہ انگلی اٹھائیں!
یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے ورنہ دھوکے کی تفصیل طویل ہے۔ میرے ساتھ دھوکہ ہوا! ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کسی سچائی ‘ کسی اعتراض ‘ کسی الزام کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ جس کا مطلب‘ زبانِ حال سے یہ ہے کہ ہاں! میں نے ایسا ہی کیا ہے۔ جو کرنا ہے کر لو! اسے کہتے ہیں Adding insult to injury۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com