عمران خان کی مقبولیت کے جن اسباب پر ہم نے گزشتہ کالم میں بحث کی ہے‘ ان کا اطلاق ان کے تمام حمایتیوں پر نہیں ہوتا۔ ان کے بہت سے حمایتی ایسے ہیں جو ان کی غلطیوں‘ کمزوریوں اور وعدہ خلافیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں! یہ حمایتی فین کلب کے ممبر ہیں نہ اندھے پیرو کار‘ یہ مانتے ہیں کہ جو امیدیں عمران خان سے باندھی گئی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ درست ہے کہ مجبوریاں اور Limitationsبہت تھیں مگر عمران خان کے بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن کا یہ حمایتی ہر گز دفاع نہیں کرتے!بزدار کی تعیناتی‘ دوست نوازی‘ فنڈز جمع کر کے دینے والوں میں عہدوں کی تقسیم‘ چینی اور دواؤں کی قیمت میں اچانک اضافہ‘ انتقام کی آگ‘ نیب چیئر مین کی مبینہ بلیک میلنگ‘ لوٹوں کو جمع کرنے کے لیے جہانگیر ترین کے جہاز کا وسیع استعمال‘فرح صاحبہ کے مسائل ‘چالیس ارب روپے کی رقم کارخ ملک ریاض کی طرف موڑنا‘ طیبہ فاروق کو مبینہ طور پر محبوس رکھنا‘ اور بہت سے دوسرے اقدامات اور بہت سے وعدوں سے انحراف! ان سب اقدامات کو یہ حمایتی ناروا گردانتے ہیں۔خاص طور پر جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور جسے چپڑاسی بنانے کے قابل بھی نہ سمجھا‘ انہیں بلند اور قابلِ رشک مناصب پر بٹھا دینا تو ایسا اقدام ہے جس کی یہ حمایتی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں!�تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ تسلیم کرنے کے باوجود یہ گروہ عمران خان کا حمایتی ہے! یہ ہے غور و فکر کا مقام! ان کی دلیل یہ ہے کہ عمران خان کا متبادل لائیے! اگر متبادل موجود ہو تو ہم عمران خان کی حمایت نہیں کریں گے! دوسرے لفظوں میں یہ سمجھدار حمایتی‘ جو محض فین نہیں ہیں‘ زرداری خاندان اور شریف خاندان کو متبادل ماننے کے لیے تیار نہیں! وہ عمران خان کو lesser evilیا چھوٹی برائی قرار دیتے ہیں! یا یوں کہیے کہ ان کے نزدیک زرداری اور شریف خاندانوں کے منفی پہلوؤں سے عمران خان کے منفی پہلوکم ہیں اور کچھ کے نزدیک بہت کم ہیں ! وجہ جو بھی ہو ‘ پچھلے تیس چالیس برس جو گروہ سریر آرائے اقتدار رہے‘ وہ ان لوگوں کے لیے اب قابلِ قبول نہیں ہیں!�حقیقت بھی یہی ہے ‘ اور یہ ایک غیر جانبدارانہ رائے ہے‘ کہ ان دو خاندانوں نے کچھ کام ایسے کیے جو کسی طور بھی درست قرار نہیں دیے جا سکتے! سب سے بڑا غیر پسندیدہ پہلو ان کا یہ ہے کہ یہ اقتدار کو اپنے خاندانوں سے باہر دیکھنے کے لیے تیار نہیں! ان خاندانوں کا ٹارگٹ یہ ہے کہ بلاول‘ آصفہ‘ مریم اور حمزہ کو حکومت ملے! دیوار کے پار تو خیر کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا مگر یہ دیوار کے اس طرف دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ نوشتۂ دیوار بھی نہیں پڑھ سکتے! دوسری کمزوری ان خاندانوں کی یہ ہے کہ ان کی بیس( base)ملک کے اندر نہیں‘ باہر ہے۔ خاص طور پر شریف خاندان کی! اس میں کیا شک ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کا ہیڈ کوارٹر ‘ عملاً لندن ہے۔ اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں تو انہوں نے حد ہی کر دی۔جون2013ء سے لے کر فروری2016ء تک‘ مبینہ طور پر ‘ وہ سترہ بار برطانیہ ‘ یعنی لندن گئے۔ وہ اکثر و بیشتر عیدیں بھی وہیں مناتے رہے! یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار کرنا نا ممکن ہے۔ ان دونوں خاندانوں کی جائدادیں دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کرپشن عدالتوں میں ثابت ہوئی یا نہیں‘ مشہور بہر حال بہت ہوئی ہے اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی اُس نفسیاتی جنگ نے پوری کردی ہے جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ کالم میں کیا گیا ہے! الغرض لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے‘ عمران خان کی کمزوریوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود ‘ زرداری اور شریف خاندان‘ دونوں‘ قابلِ قبول نہیں۔ یہ اور بات کہ جس تیسرے بڑے ( چوہدری) خاندان کے عمران خان کبھی مخالف تھے‘ آج انہیں وہ پوتّر دکھائی دیتا ہے!�چلیے‘ جو لوگ کمتر برائی یا چھوٹی برائی کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں ان کے پاس تو ایک حل موجود ہے۔ مگر اُن لوگوں کا کیا بنے گا جن کے لیے کمتر برائی بھی ناقابلِ قبول ہے! برائی ‘ بہر طور ‘برائی ہے! بڑی ہو یا چھوٹی ! تو ایسے لوگ کیا کریں ؟ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جو لوگ الیکشن کے روز گھر سے نہیں نکلتے تھے اور کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اسے ووٹ دیں‘ وہ عمران خان کے لیے پہلی مرتبہ گھروں سے نکلے! عمران خان نے حکومت میں آکر انہیں مایوس کیا۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان سے یہ حق نہیں چھین سکتے کہ وہ عمران خان کو اُن سیاست دانوں کا یارِ غار سمجھیں جنہیں عمران خان خود سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے ہیں !�2018ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ دوسروں کو اتنی بار آزمایا ہے تو ایک بار خان صاحب کو بھی آزمانا چاہیے! اس کالم نگار نے بھی یہی دلیل بارہا ٹیلی ویژن چینلوں پر اور کالموں میں دی! اور مجھ جیسے بے شمار افراد پورے خلوصِ نیت سے یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کو ایک موقع لازماً ملنا چاہیے! کیا عجب وہ ملک کی قسمت بدل دیں! چنانچہ انہیں موقع دیا گیا۔ یہاں یہ بحث لاحاصل ہے کہ وہ ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے یا دوسرے ذرائع سے لائے گئے! ہم نے بہر طور انہیں ووٹ دیا۔ ہم نے انہیں آزمایا! یہ اور بات کہ عمران خان نے ہماری قسمت عثمان بزدار ‘ عمر ایوب‘ شیخ رشید‘ چوہدری پرویز الٰہی‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ اعظم سواتی اور زبیدہ جلال جیسوں کے ہاتھ میں دے دی۔ ہم مایوس ہوئے! ہم اب اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے والے نہیں! ہم انہیں دوبارہ ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ! اس مشکل کا حل یہ ہے کہ اب شریف خاندان‘ زرداری خاندان اور عمران خان کو چھوڑ کر کوئی اور متبادل تلاش کیا جائے! بظاہر کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ مگر انسانی دنیا کی وسعتیں لامحدود ہیں! یہ امکانات کا جہان ہے! یہ پچیس کروڑ کا ملک ہے! کوئی ایسا قحط الرجال بھی نہیں! پاکستان زرداریوں‘ شریفوں اور عمران خانوں سے شروع ہوتا ہے نہ ان صاحبان پر ختم ہوتا ہے۔ کیا کسی کو امید تھی کہ قدرت قائد اعظم جیسا نجات دہندہ دے گی؟ کیا ملا ئیشیا کے لوگوں کو معلوم تھا کہ مہاتیر ان کی قسمت بدلنے پہنچے گا اور کیا مچھیروں کی اُس گندی بستی کو‘ جسے سنگا پور کہا جاتا تھا‘ پتہ تھا کہ لی کؤان یو آئے گا اور سنگا پور کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا؟ پہلی جنگِ عظیم میں جب انگریزوں‘ فرانسیسیوں اور روسیوں نے گیلی پولی کے جزیرہ نما پر چڑھائی کی تو کون جانتا تھا کہ یورپ کے اس مردِ بیمار ‘ ترکی ‘ کے ہچکولے کھاتے جہاز کو اتاترک کنارے پر لے آئے گا! اس ملک نے قائم رہنا ہے۔ مائیں ابھی بانجھ نہیں ہوئیں! دھرتی ابھی بنجر نہیں ہوئی! بادل امڈ کر آئیں گے ! جل تھل ایک ہو جائے گا۔زمین کا سینہ پھاڑ کر کونپلیں باہر نکلیں گی۔ عمران خان نے مایوس کیا‘ مگر یہ دنیا کا آخری کنارہ نہیں! شاہی مسجد کے سائے میں سونے والے مستقبل شناس کی آواز آج بھی گونج رہی ہے�می رسد مردی کہ زنجیرِ غلامان بشکند�دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما�یعنی �فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیں�کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment