'' ابراہام لنکن ایک دن دنیا ومافیہا سے بے خبر کسی دوست کے ساتھ سر جوڑے کئی گھنٹوں سے شطرنج میں مصروف تھے۔ بیوی نے کئی بار چائے رکھی اور ہر بار ٹھنڈی ہونے پر واپس لے جاتی۔ شطرنج کھیلنے والا دوست بھی غالباً انہیں ناپسند تھا‘ اس لیے پیمانۂ صبر ذرا جلدی لبریز ہو گیا۔ گرم گرم چائے کی ٹرے لے کر پاس کھڑی ہو گئیں۔ جب کھلاڑیوں نے کوئی نوٹس نہ لیا تو انہوں نے ٹرے کو عین بساط کے اوپر لا کر ہاتھ چھوڑ دیے۔ مسز لنکن پیر پٹختی کچن کی طرف روانہ ہو گئیں اور دونوں دوست کپڑے جھاڑتے کھڑے ہو گئے۔ لنکن نے معذرت کی۔ ہاتھ ملایا اور کہا: کل اسی چال سے دوبارہ گیم شروع ہو گی۔ گڈ نائٹ!‘‘
یہ اقتباس پروفیسر ڈاکٹر صباحت مشتاق کی تصنیف ''اعتراف‘‘ سے ہے۔ کتابوں کا
Influx
اس عہد میں سیلِ رواں کی طرح امڈا آتا ہے۔ ایسے میں ہر کتاب توجہ کے لائق نہیں۔ مگر ڈکٹر صباحت مشتاق کی کتاب ''اعتراف‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اس کی کہانیوں کی تعریف کی ہے جو معمولی بات نہیں‘ اس لیے کہ قرۃ العین حیدر ایک تو تعریف کرنے میں فیاض ہر گز نہ تھیں‘ دوسرے‘ لگی لپٹی رکھنے کی قائل نہ تھیں۔ ان کا مقام ایک لیجنڈ کا ہے۔ بڑے باپ کی بڑی بیٹی! کئی سال پہلے جب حیات تھیں اور اسلام آباد تشریف لائیں تو مشاہد حسین سید کے گھر ہم بہت سے شعرا کو ان کے سامنے یوں پیش کیا گیا جیسے گھوڑوں کے کسی بڑے تاجر کے سامنے گھوڑے پیش کیے جائیں۔ انہوں نے ہم لوگوں کی شاعری سُنی مگر چہرا سپاٹ رکھا۔ منفی نہ مثبت! مشاہد حسین سید سے ان کی عزیز داری یوں تھی کہ مشاہد صاحب کی بیگم جری احمد سید کی بیٹی ہیں جو پنڈی میں چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس تھے اور عینی آپا کے رشتہ دار تھے۔ اس لکھنے والے کی ملاقات عینی آپا سے ایک دو بار ہی ہوئی مگر ان کے خانوادے سے قریبی تعلق رہا۔ ان کی سگی بھتیجی‘ نور العین حیدر سول سروس میں میرے ساتھ تھیں۔ ان کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہوئی کہ جو جہاز اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں پر کریش ہوا‘ اس کے مسافروں میں ان کے شوہر بھی تھے۔ یہ تین بہنیں اور دو بھائی سول سروس میں آئے۔ نور العین حیدر سے چھوٹی شہناز حیدر اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان رہیں۔ ناہید حیدر ضلعی انتظامیہ سے تھیں۔ جلال حیدر لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر رہے پھر ہجرت کر کے کینیڈا چلے گئے۔ میں اور بیگم ٹورنٹو میں ان کے ہاں ٹھہرے تھے۔ چند دن پہلے جلال حیدر کراچی آئے اور کراچی ہی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ جسدِ خاکی کینیڈا بھجوایا گیا۔ سب سے چھوٹے بھائی‘ دراز قد‘ وجیہ‘ سجاد حیدر ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل رہے۔ ان بہن بھائیوں کے فوٹو ''کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں ہیں۔
قرۃ العین حیدر ڈاکٹر صباحت کے بارے میں لکھتی ہیں ''صباحت مشتاق کے افسانوں کو میں سمجھتی ہوں کہ اچھے ادب کے خانے میں رکھا جائے گا۔ نئے لکھنے والوں کے ہجوم میں شناخت قائم کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن صباحت بڑی آسانی کے ساتھ اپنا راستہ بنا چکی ہے۔ اس کے افسانوں میں مجھ کو ایک اہم وصف یہ نظر آیا کہ ان میں آورد نہیں ہے۔ جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے صباحت مشتاق جذباتیت سے صاف بچ جاتی ہیں۔ غیر ضروری الفاظ اور فالتو تفصیلات کو ان کے افسانوں میں جگہ نہیں ملتی‘‘۔ بارِ دگر عرض ہے کہ عینی آپا کی طرف سے یہ جملے کوئی معمولی ارمغان نہیں! اسی دیباچے میں عینی آپا نے ایک زبردست قاعدہ کلیہ بھی بیان کر دیا جس کا براہِ راست تعلق ڈاکٹر صباحت کی تخلیقات سے نہیں لیکن ادب کے طالب علموں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ عینی آپا لکھتی ہیں ''مقبول فکشن رائٹرز کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پانچ سو پروفیسروں اور طلبہ کی
Reading habits
کا ایک سروے کرایا تھا جس میں زیادہ تر پروفیسروں اور طلبہ نے اپنی پسندیدہ مصنفہ رضیہ بٹ کو بتایا۔ لہٰذا قبولِ عام بھی ادبی مرتبے کی سند نہیں ہے‘‘۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ سوشل میڈیا اور یونیورسٹیوں کے مشاعروں میں جن شاعروں کے کلام پر طلبہ و طالبات قیامت آسا داد دیتے ہیں‘ وہ‘ بقول عینی آپا ''ادبی مرتبے کی سند نہیں ہے‘‘!
ڈاکٹر صباحت کی کہانیوں میں بے پناہ
Readability
ہے۔ بلکہ ڈاکٹر معین نظامی صاحب کے بقول ''حد ہے اور بے حد ہے‘‘۔ شروع کرنے کے بعد‘ آخری کہانی پڑھنے تک کتاب ہاتھ سے نہیں چھوٹتی۔ ایک مدت بعد اردو میں لکھی ہوئی ایک ایسی کتاب ہاتھ لگی ہے جس نے اپنے آپ کو خود پڑھوایا ہے۔ ناصر کاظمی کی ''پہلی بارش‘‘ کا فلیپ لکھتے ہوئے ڈاکٹر سہیل احمد خان نے لکھا تھا کہ یہ غزلیں زندگی کے تجربوں سے چھلک رہی ہیں! ڈاکٹر صباحت کی کہانیاں بھی زندگی کے تجربوں سے چھلک رہی ہیں۔ تلخ تجربے! شیریں تجربے اور کھٹے میٹھے تجربے! یہ کہانیاں کئی زندگیوں کا نچوڑ ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو اپنی بے بسی‘ بیچارگی اور احتیاج چھپانے کے لیے کس طرح جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ سننے والے اس جبری جھوٹ پر پردہ ڈالیں۔ ''نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ پڑھتے ہوئے میرا ذہن ایک لمحے کے لیے غلام عباس کے ناولٹ ''گوندنی والا تکیہ‘‘ کی طرف گیا ( وجہ بھی کوئی نہ تھی) مگر کہانی ختم ہونے تک مصنفہ اپنا سکہ بلا شرکت غیرے جما چکی تھیں۔ ''آسیب‘‘ میں تناسخ
(Reincarnation)
کے حوالے سے درخت کو سمبل بنا کر یہ حقیقت بیان کی ہے کہ محبت اور بزدلی دونوں ایک دل میں نہیں رہ سکتے! ''اعتراف‘‘ اُس بدبخت بن مانس کی عبرتناک اور درد انگیز کہانی ہے جسے پہلی بار انسانوں کے ساتھ خلا میں بھیجا گیا۔ اس نے انسانوں میں شامل ہونے کے لیے ایک عرصہ اپنی دم کو چھپائے رکھا مگر اس سے ناسور نما زخم بن گیا۔ بالآخر اسے اپنی اصلی دنیا‘ یعنی جانوروں کی دنیا میں واپس جانا پڑا۔ یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا بُرے لوگ‘ اپنی برائیوں کو چھپا کر‘ اچھے لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اپنی برائیوں پر پردہ ڈالنے سے شخصیت زخمی تو ہو سکتی ہے‘ نیکوکاروں میں ضم
(Assimilate)
نہیں ہو سکتی۔ ''انتساب‘‘ میں ہمارے عمومی‘ غیر انسانی رویے پر ماتم کیا گیا ہے۔ بس جاتے جاتے رک جاتی ہے کیونکہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ کوئی شخص ہلاک ہو گیا ہے۔ بس کے سب مسافر پریشان ہو جاتے ہیں سب کا دھیان اپنے پیاروں کی طرف جاتا ہے۔ آخر میں کنڈکٹر جب بیزاری سے کہتا ہے کہ چلو استاد جی! مزدور تھا اپنی ہی ٹرالی تلے آکر کچلا گیا تو سب سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اس بے حسی کی سزا کے طور پر چہرے مسخ کر دیے جاتے ہیں۔ چہروں پر غلیظ آنکھیں اور مکروہ تھوتھنیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ مصنفہ سوچتی ہے کہ اگر زیرِ تعمیر سڑک کو اس مر جانے والے مزدور کے نام کر دیا جائے تو شاید چہرے اصل حالت پر آ جائیں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ یہ تو کسی بڑے نام سے منسوب ہو گی!
آخری تجزیے میں ان کہانیوں میں
Originality
ہے اور غضب کی ہے۔ صباحت اپنی انفرادیت کی چھاپ لگانے میں کامیاب ہوئی ہیں! اندازِ بیان سادہ مگر پُرزور ہے جیسے پہاڑی ندی وادی میں داخل ہو رہی ہو۔ نثر اس قدر بلند پایہ ہے کہ کہیں کوئی جھول نہیں محسوس ہوتا۔ بہت بڑے ادیب جناب اسد محمد خان نے امید ظاہر کی ہے کہ ''کہانی کاروں کی آنے والی نسل میں اگر ایسا لکھنے والے دس افراد بھی برسرکار ہو جائیں تو اردو افسانہ انڈو پاک کی تمام بڑی زبانوں یعنی مراٹھی‘ ہندی‘ گجراتی وغیرہ کے ساتھ شانہ ملا کر کھڑا ہو سکتا ہے‘‘۔ ادبِ عالیہ کے طالبعلم‘ مجھ بے بضاعت سمیت‘ ڈاکٹر صباحت کی نئی تخلیقات کا انتظار کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment