یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش آیا نہ کسی وحشی قبیلے کے ہاں۔ یہ کسی دور افتادہ، گائوں میں بھی نہیں ہوا۔ فاٹا کے کسی دور دراز گوشے میں نہ دیامیر اور چلاس کے پہاڑوں میں نہ چترال کی وادی بمبریٹ میں۔
انٹرنیٹ پر جائیے۔ پوچھئے ٹیکسلا اور اسلام آباد کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ کمپیوٹر جواب دے گا ساڑھے چونتیس کلومیٹر، گاڑی پر کتنا وقت لگے گا؟ انٹرنیٹ یہ بھی بتائے گا، انچاس منٹ۔ یہ وہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال سے تعلیم کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ چانکیہ سے لے کر (جسے کوتلیا بھی کہا جاتا ہے) پنینی تک کتنے ہی صاحبان علم یہاں ہوگزرے۔ آج بھی یہاں ایک سے زیادہ یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں، پاکستانی عساکر نے یہاں ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ تعمیر کردیا جس سے خلق خدا فض یاب ہورہی ہے۔ پھر ٹیکسلا دو ایسے شہروں کے درمیان واقع ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خواندگی کی بلند شرح کے لیے معروف ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد دوسری طرف واہ! واہ کی شرح خواندگی حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی شرح کو چھونا چاہتی ہے۔ پھر، عجائب گھر کی وجہ سے ٹیکسلا کے باشندے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، غیر ملکی سیاح، مشرق بعید کے زائر، دوسرے ملکوں سے آنے والے سرکاری مہمان۔ سب یہاں آتے ہیں، میوزیم کے اردگرد پھیلی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے لوگ ان غیر ملکیوں کے لباس، زبانوں، ثقافتوں اور رویوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ واقعہ جس کی طرف اس تحریر کے آغاز میں اشارہ کیا گیا ہے،
اگر ٹیکسلا جیسے ترقی یافتہ شہر میں پیش آ سکتا ہے تو پھر قیاس کیجئے، دور افتادہ قبیلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے ناخواندہ نیم وحشی انسانوں کا کیا عالم ہوگا؟ دو بھائی اپنی اڑتیس سالہ بہن کو گھر کے اندر ایک اندھے کنویں میں زندہ دفن کردیتے ہیں۔ ماں شور مچاتی ہے تو اسے کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ تیسرا بھائی الگ رہتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے تو وہ پولیس کے پاس جا کر فریاد کرتا ہے۔ کیوں زندہ دفن کردیا؟ جائیداد کا جھگڑا؟ نہیں، خاندانی تنازع؟ نہیں۔ بہن دشمن بنی ہوئی تھی؟ نہیں۔ اس لیے کہ وہ جو روحانی بزرگ تھے اور دونوں بھائی جن کے عقیدت مند تھے، انہوں نے بہن میں چھپی نحوست کو دریافت فرما لیا تھا۔ یہ نحوست بہن کے اندر سے نکل کر دونوں بھائیوں کی زندگی پر اثرانداز ہورہی تھی۔ ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی۔ خاندان کو خطرات درپیش تھے۔ اس نحوست کا علاج بھی یہ بابا جی ہی بتا سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شفقت فرمائی اور غیب کے ان دیکھے جہانوں میں ڈوب کر ابھرے تو ہاتھ میں نسخہ کیمیا تھا۔ بہن سے جان چھڑائو، اسے ہلاک کردو، نحوست کے گہرے سائے چھٹ جائیں گے۔ روشنیاں پلٹ آئیں گی، دلدر دور ہو جائیں گے، موسم بدل جائے گا، رت گدرا اٹھے گی، صحن پھولوں سے بھر جائے گا۔ بادلوں سے پانی کے قطرے نہیں، موتی برسیں گے۔ بس اس کلموئی بہن سے، اس نحوست کی غلیظ گھڑی سے، اس عورت ذات سے جان چھڑائو۔
اس مقام پر راوی کویاد نہیں رہتا کہ جان چھڑانے کی جو مقدس آسمانی ترکیب اس غیب دان بابے نے بتائی تھی اس میں بہن کو پہلے مارنا تھا، پھر دفن کرنا تھا، یا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے مارے بغیر زندہ دفن کرنا تھا۔ بہر طور عملاً یہ ہوا کہ دونوں ماں جایوں نے منحوس بہن کو مارنے کا ظلم برپا نہیں کیا، اندھا کنواں گھر کے اندر ہی تھا، صحن میں یا کسی کال کوٹھڑی میں۔ زندہ ہی اس میں اتار دیا۔ اندر زہریلی گیس تھی یا موذی حشرات الارض تھے یا گندھک سے بھرا پانی تھا، جو کچھ بھی تھا، عورت کے لیے یہ کنواں موت کا گھاٹ ثابت ہوا۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ ’’الشاذ کالمعدوم‘‘ کے ضمن میں شمار ہو گا تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ شاذو نادر کی فہرست میں نہیں، پورا ملک ان بابوں سے، ان غیب دانوں سے، ان روحانی قاتلوں سے بھرا پڑا ہے۔ آئے دن معصوم بچوں اور عورتوں سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جس ملک میں مردم شماری درست نہیں ہو سکتی، مرد خاندان کی عورتوں کی تعداد، تعلیم اور پروفیشن بتانا بے حرمتی سمجھتے ہوں، جس معیشت میں اقتصادی سرگرمیاں دستاویزات کے بغیر (Un-documented) ہورہی ہوں، جس معاشرے میں تاجر سودا بیچ کر رسید دینے سے کتراتے ہوں، اس ملک میں بابوں کی کرامات اور منحوس انسانوں کے قتل کے اعداد و شمار کہاں رکھے جا رہے ہوں گے؟ پھر غور فرمائیے کہ ان مقدس بزرگوں کی غیب دان نظر، اکثر و بیشتر، عورت ذات ہی پر پڑتی ہے۔ بلیدان بیٹی کا یا بہن کا یا بیوی کا یا ماں ہی کا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ امت ہے جس کے رسول ؐ نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا تھا جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پھول کی طرح رکھا تھا۔ جو رضاعی ماں کے آنے پر اٹھ کھڑے ہوئے، جو بیٹی کی آمد پر اس کے بیٹھنے کے لیے چادر بچھاتے۔ جب ایک سنگدل باپ تفصیل بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے بیٹی کو زندہ دفن کیا تو رسالت مآب کی مقدس آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں لاکھوں مدرسے اپنی دانست میں دین پڑھا، سکھا اور پھیلا رہے ہیں جو پورے عالم اسلام میں تبلیغ کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جس میں ہزاروں این جی او، حفاظت نسواں کے نام پر کروڑوں کا لین دین کر رہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس معاشرے کے لیے عطائیوں، نیم خواندہ ہومیوپیتھوں اور سٹیرائیڈ کھلانے والے جعلی حکیموں کی نسبت یہ بابے، یہ غیب دان، یہ ملنگ، یہ نام نہاد روحانی عفریت، یہ جن نکالنے والے راکھشس کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ زہر میں بجھے تیر ہیں جو عوام کے سینے میں پیوست ہیں، جب ان کا جی چاہے، آبرو ریزی کرلیں جب دل کرے، نحوست کی تشخیص کرکے قتل کرادیں۔ ان کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اس کا اندازہ اس محاورے سے لگائیں جو دیہاتیوں اور شہریوں میں یکساں عام ہے کہ ’’پیر نے بیٹا نہ بھی دیا تو ہماری عورت تو واپس کردے گا۔‘‘ (ترجمہ)۔ کیا کوئی حکومت ایسی بھی آئے گی جو ان وحشیوں کا منظم استیصال کرے؟ ان کے قلعے مسمار کرے؟ اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے؟ اس کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اور عوامی سطح پر۔ ان طاعون زدہ چوہوں کو ایک ایک کونے سے نکال کر مارا جائے۔ ورنہ بھائی بہنوں کو اور باپ بیٹیوں کو مارتے رہیں گے۔
    
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش آیا نہ کسی وحشی قبیلے کے ہاں۔ یہ کسی دور افتادہ، گائوں میں بھی نہیں ہوا۔ فاٹا کے کسی دور دراز گوشے میں نہ دیامیر اور چلاس کے پہاڑوں میں نہ چترال کی وادی بمبریٹ میں۔
انٹرنیٹ پر جائیے۔ پوچھئے ٹیکسلا اور اسلام آباد کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ کمپیوٹر جواب دے گا ساڑھے چونتیس کلومیٹر، گاڑی پر کتنا وقت لگے گا؟ انٹرنیٹ یہ بھی بتائے گا، انچاس منٹ۔ یہ وہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال سے تعلیم کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ چانکیہ سے لے کر (جسے کوتلیا بھی کہا جاتا ہے) پنینی تک کتنے ہی صاحبان علم یہاں ہوگزرے۔ آج بھی یہاں ایک سے زیادہ یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں، پاکستانی عساکر نے یہاں ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ تعمیر کردیا جس سے خلق خدا فض یاب ہورہی ہے۔ پھر ٹیکسلا دو ایسے شہروں کے درمیان واقع ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خواندگی کی بلند شرح کے لیے معروف ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد دوسری طرف واہ! واہ کی شرح خواندگی حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی شرح کو چھونا چاہتی ہے۔ پھر، عجائب گھر کی وجہ سے ٹیکسلا کے باشندے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، غیر ملکی سیاح، مشرق بعید کے زائر، دوسرے ملکوں سے آنے والے سرکاری مہمان۔ سب یہاں آتے ہیں، میوزیم کے اردگرد پھیلی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے لوگ ان غیر ملکیوں کے لباس، زبانوں، ثقافتوں اور رویوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ واقعہ جس کی طرف اس تحریر کے آغاز میں اشارہ کیا گیا ہے،
اگر ٹیکسلا جیسے ترقی یافتہ شہر میں پیش آ سکتا ہے تو پھر قیاس کیجئے، دور افتادہ قبیلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے ناخواندہ نیم وحشی انسانوں کا کیا عالم ہوگا؟ دو بھائی اپنی اڑتیس سالہ بہن کو گھر کے اندر ایک اندھے کنویں میں زندہ دفن کردیتے ہیں۔ ماں شور مچاتی ہے تو اسے کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ تیسرا بھائی الگ رہتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے تو وہ پولیس کے پاس جا کر فریاد کرتا ہے۔ کیوں زندہ دفن کردیا؟ جائیداد کا جھگڑا؟ نہیں، خاندانی تنازع؟ نہیں۔ بہن دشمن بنی ہوئی تھی؟ نہیں۔ اس لیے کہ وہ جو روحانی بزرگ تھے اور دونوں بھائی جن کے عقیدت مند تھے، انہوں نے بہن میں چھپی نحوست کو دریافت فرما لیا تھا۔ یہ نحوست بہن کے اندر سے نکل کر دونوں بھائیوں کی زندگی پر اثرانداز ہورہی تھی۔ ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی۔ خاندان کو خطرات درپیش تھے۔ اس نحوست کا علاج بھی یہ بابا جی ہی بتا سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شفقت فرمائی اور غیب کے ان دیکھے جہانوں میں ڈوب کر ابھرے تو ہاتھ میں نسخہ کیمیا تھا۔ بہن سے جان چھڑائو، اسے ہلاک کردو، نحوست کے گہرے سائے چھٹ جائیں گے۔ روشنیاں پلٹ آئیں گی، دلدر دور ہو جائیں گے، موسم بدل جائے گا، رت گدرا اٹھے گی، صحن پھولوں سے بھر جائے گا۔ بادلوں سے پانی کے قطرے نہیں، موتی برسیں گے۔ بس اس کلموئی بہن سے، اس نحوست کی غلیظ گھڑی سے، اس عورت ذات سے جان چھڑائو۔
اس مقام پر راوی کویاد نہیں رہتا کہ جان چھڑانے کی جو مقدس آسمانی ترکیب اس غیب دان بابے نے بتائی تھی اس میں بہن کو پہلے مارنا تھا، پھر دفن کرنا تھا، یا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے مارے بغیر زندہ دفن کرنا تھا۔ بہر طور عملاً یہ ہوا کہ دونوں ماں جایوں نے منحوس بہن کو مارنے کا ظلم برپا نہیں کیا، اندھا کنواں گھر کے اندر ہی تھا، صحن میں یا کسی کال کوٹھڑی میں۔ زندہ ہی اس میں اتار دیا۔ اندر زہریلی گیس تھی یا موذی حشرات الارض تھے یا گندھک سے بھرا پانی تھا، جو کچھ بھی تھا، عورت کے لیے یہ کنواں موت کا گھاٹ ثابت ہوا۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ ’’الشاذ کالمعدوم‘‘ کے ضمن میں شمار ہو گا تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ شاذو نادر کی فہرست میں نہیں، پورا ملک ان بابوں سے، ان غیب دانوں سے، ان روحانی قاتلوں سے بھرا پڑا ہے۔ آئے دن معصوم بچوں اور عورتوں سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جس ملک میں مردم شماری درست نہیں ہو سکتی، مرد خاندان کی عورتوں کی تعداد، تعلیم اور پروفیشن بتانا بے حرمتی سمجھتے ہوں، جس معیشت میں اقتصادی سرگرمیاں دستاویزات کے بغیر
(Un-documented)
ہورہی ہوں، جس معاشرے میں تاجر سودا بیچ کر رسید دینے سے کتراتے ہوں، اس ملک میں بابوں کی کرامات اور منحوس انسانوں کے قتل کے اعداد و شمار کہاں رکھے جا رہے ہوں گے؟ پھر غور فرمائیے کہ ان مقدس بزرگوں کی غیب دان نظر، اکثر و بیشتر، عورت ذات ہی پر پڑتی ہے۔ بلیدان بیٹی کا یا بہن کا یا بیوی کا یا ماں ہی کا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ امت ہے جس کے رسول ؐ نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا تھا جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پھول کی طرح رکھا تھا۔ جو رضاعی ماں کے آنے پر اٹھ کھڑے ہوئے، جو بیٹی کی آمد پر اس کے بیٹھنے کے لیے چادر بچھاتے۔ جب ایک سنگدل باپ تفصیل بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے بیٹی کو زندہ دفن کیا تو رسالت مآب کی مقدس آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں لاکھوں مدرسے اپنی دانست میں دین پڑھا، سکھا اور پھیلا رہے ہیں جو پورے عالم اسلام میں تبلیغ کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جس میں ہزاروں این جی او، حفاظت نسواں کے نام پر کروڑوں کا لین دین کر رہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس معاشرے کے لیے عطائیوں، نیم خواندہ ہومیوپیتھوں اور سٹیرائیڈ کھلانے والے جعلی حکیموں کی نسبت یہ بابے، یہ غیب دان، یہ ملنگ، یہ نام نہاد روحانی عفریت، یہ جن نکالنے والے راکھشس کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ زہر میں بجھے تیر ہیں جو عوام کے سینے میں پیوست ہیں، جب ان کا جی چاہے، آبرو ریزی کرلیں جب دل کرے، نحوست کی تشخیص کرکے قتل کرادیں۔ ان کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اس کا اندازہ اس محاورے سے لگائیں جو دیہاتیوں اور شہریوں میں یکساں عام ہے کہ ’’پیر نے بیٹا نہ بھی دیا تو ہماری عورت تو واپس کردے گا۔‘‘ (ترجمہ)۔ کیا کوئی حکومت ایسی بھی آئے گی جو ان وحشیوں کا منظم استیصال کرے؟ ان کے قلعے مسمار کرے؟ اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے؟ اس کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اور عوامی سطح پر۔ ان طاعون زدہ چوہوں کو ایک ایک کونے سے نکال کر مارا جائے۔ ورنہ بھائی بہنوں کو اور باپ بیٹیوں کو مارتے رہیں گے۔
    
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment