سالہا سال سے بیساکھیوں پر چلنے والے سے اچانک بیساکھی لے لی جائے توگر پڑے گا۔ اسے بتدریج‘ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔
پاکستانی معیشت برسوں سے نہیں‘ عشروں سے بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ بیرونی قرضوں کی بیساکھیاں‘ اندرونی قرضے‘ اسحاق ڈار صاحب نے قومی بچت کے ادارے تک کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بیوائوں اور بوڑھوں کے لیے منافع کی شرح کم کرتے گئے۔ یہاں تک کہ پہلے سے تقریباً نصف رہ گئی۔
اقربا پروری کی بیساکھیاں‘
دوست نوازی کی بیساکھیاں‘
قومی اداروں کو طاعون زدہ کردیا گیا۔ سب کچھ ظفر حجازیوں‘ محمد سعیدوں‘ توقیر شاہوں‘ خواجہ ظہیروں‘ سعید مہدیوں‘ وانیوں‘ ڈاروں اور بٹوں کے سپرد تھا۔ اس سے پہلے وہ دور بھی آیا کہ ٹیلنٹ کا ہر منبع‘ ہر مصدر‘ ملتان سے پھوٹتا تھا۔ اسامیوں کے اشتہار چھپتے اور کابینہ کی سیکرٹری صاحبہ کو بتا دیا جاتا کہ فلاں صاحب آ کر ملیں گے۔ انہیں ہی رکھنا ہے۔ دور کی نظر تو کمزور تھی ہی نزدیک سے بھی دکھائی دینا بند ہوگیا۔ خواجہ خیرالدین کے فرزند کو بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کردیا‘ اس لیے کہ ملتان کا حوالہ تھا۔ اس حقیقت سے مکمل لاعلمی کے ساتھ کہ خواجہ خیرالدین بنگلہ دیش کے نزدیک ناپسندیدہ افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے حافظ سعید کے بیٹے کو دہلی میں سفیر مقرر کردیا جائے۔
سب سے بڑی بیساکھی کرپشن کی تھی۔ کرپشن جس کی انتہا کوئی نہ تھی۔ کاش کوئی اہل پاکستان کوبتائے کہ نیویارک کے ایک پاکستانی بینک کی برانچ کیسے موت کے گھاٹ اتری۔ کون ذات شریف تھے جن کی منی لانڈرنگ اس موت میں ملوث تھی
اور ایسے سینکڑوں ڈاکے۔
پاکستانی معیشت ان بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ ان تمام بیساکھیوں کو نیچے سے یکدم کھینچ لیا۔ معیشت لڑکھڑا کر رہ گئی ہے۔ یہ کام بتدریج ہونا چاہیے تھا۔ تجاوزات کے مسئلے پر جلد بازی کی گئی۔ بجا کہ یہ کام ضروری تھا مگر جو ایکشن لیا گیا‘ اس کے کچھ متبادل بھی تھے کیا ان پر غور کیا گیا؟
اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہدام سے ہمیشہ ایک منفی تصور ابھرتا ہے۔ مخالفین کو وہ نفسیاتی جنگ جیتنا آسان ہو جاتا ہے جس سے وہ عوام کے ذہنوں پر تباہی و بربادی کی تصویر مرتسم کرسکیں۔ رہگزاروں اور شاہراہوں کے کنارے جب لوگ شکستہ اور نیم منہدم عمارتیں دیکھتے ہیں تو دلوں پر خوف طاری ہو جاتا ہے اور زبان پر نہ چاہتے ہوئے بھی مذمت کے کلمات آ جاتے ہیں۔ کیا حکومتی ارکان میں سے کسی نے اس نفسیاتی پہلو کی طرف وزیراعظم کی توجہ دلائی؟
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو پلازے‘ عمارتیں‘ گھر بنے ہوئے تھے وہ بہرطور ایک امر واقعہ تھا۔ ایک
Fait Accompli
تھا۔ دانش مندی یہ تھی کہ ایک لکیر کھینچ دی جاتی کہ اب تک جو ہو چکا ہے اسے نہیں گرا رہے۔ ہاں‘ بھاری جرمانہ عائد کریں گے یا بحق سرکار ضبط کریں یا نیلام کریں گے مگر بنی ہوئی عمارتوں کو کسی نہ کسی طور بچائیں گے اور آج کے بعد جو ناجائز تجاوزات کی طرف قدم بڑھائے گا‘ اسے وہیں فی الفور روک دیا جائے گا۔ دور اندیشی اسی قبیل کی پالیسی کا تقاضا کرتی ہے جو غلط کام نصف صدی سے ہورہا ہو‘ اس کا رخ راتوں رات نہیں بدلا جاسکتا۔ بدلنے کی کوشش کریں گے تو اس پروسیس میں نقصان زیادہ ہو جائے گا۔
تیسرا پہلو یہ تھا کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ تجاوزات پر جن غلط عناصر نے قبضے کئے‘ اصل قصور تو ان کا تھا جس نے زمین خریدی‘ اپنے نام کچہری میں رجسٹری کرائی‘ اس کا کیا قصور تھا؟ شاہراہ دستور سے بیس منٹ کی مسافت پر گزشتہ ادوار میں طاقتور لوگوں نے پہاڑیاں کاٹیں جو سرکاری ملکیت میں تھیں۔ پھر پلاٹ بنائے‘ پھر بیچے۔ اب اگر وہ گھر گرائیں گے تو مکان بنانے والا آپ کو ووٹ نہیں بددعائیں دے گا۔
چوتھا پہلو یہ ہے کہ متعلقہ محکموں نے تساہل برتا۔ تجاوزات جب بیچے جا رہے تھے‘ نقشے تبدیل ہورہے تھے اور بنیادیں کھودی جا رہی تھیں‘ اس وقت محکموں نے کیوں انسدادی اقدام نہ اٹھایا؟ ترقیاتی محکموں کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنتی ہیں‘ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان تمام معاملات میں اصل مجرموں کو تلاش کیا جائے۔ اگر وہ ریٹائر ہو چکے ہیں تب بھی انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو بے قصور سزا پاتے رہیں گے اور مجرم بچ کر نکلتے رہیں گے۔
وزیراعظم دیانت دار ہیں۔ دلسوزی سے اس قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ ناصر درانی کا استعفیٰ ہو‘ پاکپتن کے پولیس افسر کا تبادلہ ہو‘ ناجائز عمارتوں کا انہدام ہویا ڈالر کی قیمت میں فلک بوس اضافہ ہو‘ اثرات ان سب کے منفی پڑ رہے ہیں۔ ڈھنگ کی وضاحت تک نہیں ہورہی۔ غلطیوں کا ازالہ نہیں ہورہا۔ یہ درست ہے کہ اگر بھانجے نے کسی اہلکار کو تھپڑ رسید کیا یا اگر بہن کی جائیداد نکل آئی تو اس میں وزیراعظم کا کوئی قصور نہیں مگر ع
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
موثر انداز میں وضاحت تو کیجئے۔ مخالفین نے اس ضمن میں جو پُرسوز پروپیگنڈا برپا کیا ہوا ہے‘ اس کا سدباب تو کیجئے۔ اپنی پوزیشن تو واضح فرمائیے۔
آخر یہ تاثر ابھرے ہی کیوں کہ کسی گروہ نے کسی طبقے نے‘ کسی صوبے نے حکومت کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ احتیاط کیجئے کہ کہیں کوئی نیا سلمان فاروقی‘ نیا سراج شمس الدین‘ نیا خواجہ ظہیر‘ نیا سعید مہدی تو نہیں تیار ہورہا؟
مشاورت کا دائرہ وسیع کیجئے۔ خاص طور پر پارٹی کے نظریاتی وفاداروں اور پرانے وابستگان کو نزدیک لائیے‘ یہ تاثر دور ہونا چاہیے کہ ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
اس میں کیا شک ہے کہ سفر طویل ہے راستہ کٹھن ہے‘ ہمراہیوں میں کچھ سست گام ہیں مگر یہ مسائل تو ہمیشہ سے انقلابی رہنمائوں کے آڑے آتے رہے ہیں۔ بس یہ یاد رہے کامیابی کی کنجی جوش نہیں‘ ہوش ہے۔
No comments:
Post a Comment