Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, May 25, 2019

مسئلے کا مستقل حل:آئینی ترمیم


آپ کی ذہانت کا امتحان ہے! 

پوری مسلم لیگ( ن) میں سے افطار پارٹی میں بلاول نے صرف مریم صفدر کو اپنے ساتھ کیوں بٹھایا؟ یوں تو حمزہ شہباز اور اپنے وزیر اعظم ہونے سے انکار کرنے والے خاقان عباسی بھی وہاں موجود تھے مگر حاشیے پر بیٹھے تھے۔ اصل مہمان مسلم لیگ نون میں سے مریم تھیں۔ 

پھر، اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے کہ پیپلزپارٹی میں اتنے بڑے بڑے جغادری موجود ہیں۔ خود زرداری صاحب، پھر رضا ربانی، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمن اور کئی اور۔ مگر افطار پارٹی کی میزبانی بلاول کر رہے ہیں، وہی پارٹی کے چیئرمین ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟ 

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ پیپلز پارٹی بلاول کو میراث میں ملی ہے اور مسلم لیگ نون پر مریم صفدر کا موروثی حق ہے۔ کچھ عرصہ منقار زیر پر رہ کر مریم دامن جھاڑ کر دوبارہ اٹھی ہیں کہ حق بہ حقدار رسد! جس طرح نواز شریف کی جائیداد، صنعت، روپے پیسے پر ان کی اولاد کا حق مسلمہ ہے اسی طرح، سیاسی حوالے سے پارٹی مریم کی وراثت ہے وہ پارٹی کی نئی سربراہ ہیں۔ اب خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، راجہ ظفر الحق خاقان عباسی اور دیگر معمر رہنمائوں کی وہ نئی باس ہیں۔ یہ سارے بابے جس طرح نواز شریف کے سامنے دست بستہ رہتے تھے اور جی ہاں جی سر کہتے تھے، اب اسی طرح مریم صفدر کے سامنے جی میڈم کہا کریں گے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کے چٹ سرے لیڈروں کا ہے۔ رضا ربانی، شیری رحمن، فرحت اللہ بابر، قائم علی شاہ اور دیگر عمر رسیدہ پپلیے بلاول کی اردل میں کھڑے ہیں۔ 

میاں صاحب تین بار وزیر اعظم رہے۔ بے نظیر بھٹو دو بار۔ ذوالفقار علی بھٹو،لڑکے کے نانا، اس سے بھی پہلے حکمران رہے۔ جس طرح پارٹیاں مریم اور بلاول کو وراثت میں ملی ہیں، اسی طرح وزارتِ عظمی پر بھی دونوں کا حق ہے۔ جب تک یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا، ملک میں ابتری رہے گی۔ حریفانہ کش مکش جاری رہے گی۔ کوئی اور وزیر اعظم بنا، تو یہ دونوں جائز حقدار اس سے نفرت کریں گے، اسے نیچا دکھانے، گرانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ کبھی بلاول اسے سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دے گا، کبھی مریم اسے نالائقِ اعظم کے نام سے پکاریں گی۔ 

عوام اس فضا سے تنگ آ چکے ہیں، ملک کی ترقی کی رفتار اس معاندانہ ماحول میں رُک رُک جاتی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر حملے نہ ہوں۔ گندے کپڑے گلی میں دھوئے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا یہ لڑائیاں دیکھ رہی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے سر غیر ملکیوں کے سامنے شرم سے جھک جاتے ہیں۔ 

اس مسئلے کا مستقل حل ہونا چاہیے۔ بہترین حل یہ ہے کہ دونوں حقداروں کا حق تسلیم کر کے، انہیں یہ حق آئینی طور پر دے دینا چاہیے، اس کی صورت یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے یہ شق ڈالی جائے کہ پانچ سال کے لیے بھٹو کا وارث وزیر اعظم بنے گا اور اس کے بعد، اگلے پانچ برس کے لیے نواز شریف کی وارث وزارتِ عظمیٰ سنبھالے گی۔ 

اس کا ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ ملک الیکشن کے گرداب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر نکل آئے گا۔الیکشن کمیشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کروڑوں کا سالانہ خرچ بچے گا۔ اسمبلیوں کے لیے یہ دونوں ورثا،اپنے نمائندے، نامزد کر دیں 
گے۔ کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ اگر اب ان دونوں کے سامنے کوئی چُوں نہیں کر سکتا تو اُس وقت کون کرے گا؟ 

اس آئینی ترمیم سے ملک کی فضا میں ٹھہرائو آ جائے گا۔ مخالفانہ بیانات آنے بند ہو جائیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے باز آ جائیں گے۔ 

رہا حمزہ شریف کا مسئلہ۔ تو پنجاب پر اس کا موروثی حق تسلیم کرنا پڑے گا۔ وزیر اعلیٰ ہمیشہ شہباز شریف کا بیٹا اور مستقبل بعید میں، پوتا ہو گا۔ اس بندوبست پر سیاسی جماعتوں کی اکثریت رضا مند ہو جائے گی۔ بلاول کی افطار پارٹی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی بھی تھی۔ مولانا فضل الرحمن بھی حاضر تھے اور دیگر علاقائی جماعتوں کے سربراہ بھی! یہ سب بلاول کے ہم نوا ہیں اور مریم صدر کے بھی۔ 

اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ سندھ کی حکومت پیپلزپارٹی کی ذاتی ملکیت ہے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ہوں یا مراد علی شاہ، اصل اقتدار زرداری صاحب کے خاندان میں رہتا ہے۔ ان کی خواہیر نیک اختر، ان کا صاحبزادہ، یہی تو سندھ کے اصل حکمران ہیں۔ اس حق کو بھی آئینی طور پر مان لینا ہو گا۔ 

جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے، تقسیم ہند سے لے کر اب تک اس پر ہمیشہ قبائلی سرداروں کی حکومت رہی ہے سوائے ان اڑھائی برسوں کے جب ایک غیر سردار، عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ رہا۔ الیکشن کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے بلوچستان کے سرداروں کی ایک کونسل بنا دی جائے۔ اس کونسل کے ارکان باری باری وزارتِ اعلیٰ پر فائز ہوں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے یہ قبائلی سردار اپنے اپنے نمائندے نامزد کر سکتے ہیں۔ 

رہا خیبر پختون خوا…تو اسے تحریک انصاف کے سپرد کر دینا چاہیے۔ وہ اس میں الیکشن کراتی پھرے۔ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن بھی اس صوبے پر اپنا اپنا حق جتاتے ہیں۔ الیکشن میں جو جیتے، حکومت بنا لے۔ مولانا سراج الحق بھی اصلاً اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ کسی کا دل نہیں دکھاتے۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی مل کر حکومت بنا لیتے ہیں۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ بلاول کی افطار پارٹی میں بھی اپنے نائب کو بھیج کر دوستی کا بھرم رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کے بھی ہم نوا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ خیبرپختونخوا ہو یا پنجاب یا وفاق، جس کی بھی حکومت ہوئی، سراج صاحب اس کے لیے مسئلہ نہیں بنیں گے۔ 

جب بھی اس ملک میں الیکشن ہوتے ہیں، سیاپا پڑ جاتا ہے۔ ہارنے والے نتائج نہیں تسلیم کرتے۔ جیتنے والے انانیت کے پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ یوں بھی یہ کون سا امریکہ، برطانیہ یا فرانس ہے کہ دو خاندانوں کے حوالے کرنے سے قیامت آ جائے گی۔ سالہا سال سے یہی خاندان حکومت کرتے آ رہے ہیں۔ آئین اس حقیقت کا اقرار کر لے گا تو کون سا آسمان گر پڑے گا ؎ 

قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ 
اے نالہ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com