Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 23, 2019

کتے ، خوک زادے اور ہنسانے والا



‎کیا کیا ارمان تھے خیراں بی بی کے دل میں! 

‎ساری عمر کی حسرتیں ! سبز گنبد دیکھنے کا شوق! جالیاں چومنے کی چاہ! ایک ایک پل گن کر گزارا تھا اس لمحے کے لئے! راتوں کو سوتے سوتے تڑپ کر اٹھ بیٹھتی ! یا پاک پروردگار! امجھے مرنے سے پہلے اپنے گھر کی زیارت کرا دے۔ مجھے مدینہ دکھا دے! مجھے مدینہ کی گلیوں میں پڑا رہنے والا ککھ بنا دے۔ نہیں تو اس جھونکے ہی کا روپ دے دے جو مدینتہ النبیؐ کے کوچوں سے گزرتا ہے! 

‎ایئر پورٹ پر انیس مئی کو خیراں بی بی پہنچی تو تسبیح ہاتھ میں تھی اور درود ہونٹوں پر! ساتھ تین عورتیں اور بھی تھیں۔ رفیقہ ہائے سفر! چاروں جدہ جانے والے جہاز کے لئے کاغذات چیک کرانے قطارمیں کھڑی تھیں۔ چاروں ان پڑھ! چاروں معصوم! سادہ دل! سادہ لوح! دوسروں پر اعتبار کرنے والی! 

‎امیگریشن والا۔ ویزوں پر لگی ان کی تصویریں دیکھتا‘ پھران کے چہروں پر نظریں جما لیتا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا پاسپورٹ ان کے ہیں اور الیکٹرانک ویزے کسی اور کے! چاروں نہ جا سکیں۔ زندگی بھر کے ارمان ہوا میں تحلیل ہو گئے ؎ 

‎یہ تو ہے یاد ہے تیری کہ میری حسرت ہے 
‎یہ کون ہے مرے سینے میں سسکیاں لیتا 

‎ٹریول ایجنٹ نے فریب کاری کی تھی! دھوکہ دیا تھا۔ لاکھوں کی رقم بٹور لی اور ان کا زندگی بھرکا شوق بے کنار حرص کی بر چھی سے  قتل کر دیا! 

‎لالچ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کعبہ اور گنبد خضریٰ سے بھی حیا نہیں آتی! یہ خبر پڑھ کر آنسوئوں کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ گلی کا آوارہ کتا آ کر قدموں میں لوٹنے لگا۔ 

‎صاب جی! کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟ 

‎میں نے کہا۔ ذرا پرے ہٹ جائو! تم ناپاک جانور ! میرے نماز ی کپڑے خراب نہ ہو جائیں! 

‎آوارہ کتے نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں! حیرت ہوئی کہ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک رہی تھیں! بھرائی ہوئی آواز میں بولا

‎’’صاب جی! ناپاک سہی مگر اس انسان سے بڑھ کر ناپاک نہیں جو معصوم عورتوں کو مکہ اور مدینہ کے نام پر دھوکہ دیتا ہے! کتنے ہی عاشقان رسولؐ یہ حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ کاش! مدینتہ النبیؐ کی گلی کا کتا بنتے! کیا کبھی کسی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ٹریول ایجنٹ بنتا اور مدینہ کے، مکہ کے نام پر سادہ لوح عورتوں کو لوٹتا؟ 

‎کتے کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا! اور آگے بڑھ گیا۔ سامنے والی پہاڑیوں سے جنگلی سؤروں کا ریوڑ نیچے اتر رہا تھا۔ شاید ان کا ارادہ کھیتوں میں کھڑی فصل کو اجاڑنے کا تھا! ایک سؤر میرے پاس آیا۔ پستہ قد جانور میرے قدموں میں کھڑا ہو گیا اوپر دیکھا اور کہنے لگا۔ 

‎صاب جی! آج اداس ہیں؟ کیا ہوا۔ 

‎میں نے جھڑکا ’’خوک زادے! پرے ہٹ! تو اتنا پلید ہے کہ کلامِ الہی میں تیرا نام لے کر تیرا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے! 

‎خوک زادہ پہلے ہنسا اورپھر روہانسا ہو کر بولا۔

‎’’خیر صاب جی! جانے دیجیے! میں حرام سہی! ناپاک سہی!مگر اس کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے چند کھنکتے سکوں اور چند کھڑکھڑاتے کرنسی نوٹوں کے لئے غلافِ کعبہ کو چومنے کی حسرت دل میں پالنے والوں کو بھی نہ بخشا اور جن کا شوق ساری زندگی ایڑیاں رگڑتا رہا انہیں سبز گنبد دیکھنے کی نعمت سے محروم کر دیا!نعمت جو ان کے جسم کی ایک ایک رگ میں‘ خون کے ایک ایک قطرے میں، ہڈیوں کے اندر والے گودے میں‘ حسرتوں کا طوفان اٹھا رہی تھی! 

‎میں فیصلہ نہ کر پایا کہ یہ خُوک زادہ زیادہ ناپاک ہے یا ان عورتوں کا مجرم؟ 

‎کیا اس ٹریول ایجنٹ کو سزا ملے گی؟ کم سے کم سزا تو یہ ہونی چاہیے کہ عمر بھر کے لئے اسے دیکھنے‘ سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ مگر ابھی تو اس نے خدا کے نام پر بننے والے اس ملک میں نہ جانے کتنوں کو لوٹنا ہے؟ کتنوں کے ارمانوں کا خون کرنا ہے؟ 

‎کیسا ملک ہے جہاں دریائوں کو آگ لگی ہے اورصحرا پانیوں کو پی رہے ہیں! جہاں ٹہنیاں زمین کے اندر ہیں اور جڑیں دھرتی کے اُوپر! جہاں لالچ اوڑھنا بچھونا ہے اورحرص لوگوں کے دلوں کے اندرتخت حکمرانی پر بیٹھی ہے!

‎ جنگلی سؤروں کا ریوڑ جا چکا تھا۔ نہیں معلوم وہ فصلیں اجاڑنے گئے تھے یا اب ان کا رُخ اس ٹریول ایجنٹ کی طرف تھا جس نے معصوم زائرات کو خون کے آنسو رلوائے تھے۔ دائیں طرف سے آہ و بُکا کی آوازیں آنے لگیں دیکھا تو ڈولفن پولیس کے چاراہلکار روتے بلکتے‘ عورتوں کی طرح ماتم کرتے آ رہے تھے! وردیاں ان کی تار تار تھیں۔ ہیلمٹ ٹکڑے ٹکڑے ان کے ہاتھوں میں تھے۔ یہ ساندہ سے آ رہے تھے پوچھا کیا ہوا۔ منمناتے ہوئے کہنے لگے کہ ون ویلنگ کرنے والوں کو منع کیا تھا‘ انہوں نے مارا ہے! ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ یہ پولیس مَین تھے مگر حالت ان کی یوں تھی جیسے نہتوں کا حال تربیت یافتہ پولیس کر دے! 

‎اس پر یاد آیا کہ لاہور میں ایک حکمران تھا۔ جو ہنساتا بہت تھا۔ ہَیٹ سے خرگوش اور خرگوش سے لمبے بوٹ نکالتا۔ یاد نہیں آ رہا کہ ہنسانے والے کو کہتے کیا ہیں۔ انگریزی میں نہ جانے‘ہنسانے والے کے لئے کیا لفظ ہے۔ شایدCسے آغاز ہوتا ہے۔ ایک لفظ ہنسانے والے کے لئے اردو میں بھی موجود ہے۔ شاید م سے شروع ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ ہنسانے والے حکمران نے جو پولیس موجود تھی‘ اس پرتوجہ دینے کے بجائے ایک نئی فورس قائم کی جسے اس نے ڈولفن کا نام دیا۔ اس میں اٹھارہ سو کانسٹیبل، ساٹھ اے ایس آئی اور چار ڈی ایس پی تھے۔ اوپر ایک ایس پی بہادر بھی مامور ہوا۔ تین سو انیس موٹر سائیکل دیے گئے۔ ہونڈا پانچ سو سی سی ملے۔ دس بسیں عنایت کی گئیں اور سینکڑوں ہیلمٹ!ہیلمٹ بھی ایسے کہ ہر ہیلمٹ میں بلیو ٹوتھ نصب تھا۔(یہ اور بات کہ وہ کام نہ آیا) راستے بتانے والے آلات(جی پی ایس) وائرلیس ریڈیو‘ کیمرے‘ غرض ہر شے مہیا کی گئی۔ وردی بھی نئی تجویز ہوئی۔ مگر لاہور میں سٹریٹ جرائم ڈولفن کے قیام کے بعد بڑھے- کم نہیں ہوئے۔ 

‎کبھی ڈولفن‘ کبھی ایلیٹ فورس‘ اصل مقصد شہریوں کی حفاظت نہیں‘ شاہی خاندان کا تحفظ تھا۔ محلات کے شہر جاتی امرا سے لے کر لاہور کے متعدد مقامات پر واقع محلات۔ پولیس کے پہروں سے پروئے ہوئے تھے۔ 

‎بہر طور‘ زخمی ڈولفن فورس کے سپاہیوں میں سے ایک کو‘ جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ تمہارے پاس ہلکا اسلحہ بھی تھا، ہتھکڑیاں بھی تھیں۔ وائرلیس بھی تھا۔ پھر بھی تم مار کھاتے رہے! اپنا دفاع نہ کر سکے اور تھے بھی تم کم ازکم چار! ڈولفن اہلکار نے خون تھوکا اور کہنے لگا

‎’’آپ کو معلوم ہے۔ ہم ہنسانے والے حکمران کی تخلیق ہیں! اس کا اورکون سا منصوبہ سنجیدہ تھا کہ ڈولفن بھی سنجیدہ نکلتا اور پھر ہمیں چُوڑیاں بھی تو نہیں مہیا کی گئی تھیں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com