’’کُتب آن لائن‘‘ کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ آن لائن کتابیں فروخت کی جائیں۔ مگر ٹھہریے! ابھی ایک اور مسئلہ!
امیر المومنین عمر فاروق اعظمؓ کا عہد ہے حاطب ابن ابی بلتعہ ایک آسودہ حال شخص ہے۔ اس کے غلام اونٹ چُراتے ہیں۔ امیر المومنین کے سامنے مقدمہ پیش کیا جاتا ہے۔ اقرارِ جرم پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتے ہیں۔ ابھی ہاتھ نہیں کاٹے گئے کہ آپ روک دیتے ہیں۔ پھر وہ غلاموں کے مالک سے فرماتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ تم اپنے غلاموں کو اس حد تک بھوکا رکھتے ہو کہ حرام چیزیں ان کے لئے حلال ہو جاتی ہیں تو میں ان کے ہاتھ ضرور کٹوا دیتا۔ پھر اونٹ کے مالک سے اونٹ کی قیمت پوچھتے ہیں۔ وہ چار سو درہم بتاتا ہے۔ آپ غلاموں کے مالک کو حکم دیتے ہیں کہ آٹھ سو درہم ادا کرے!!
اندھے کو بھی اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ امیر المومنین نے ایسا حکم دیا جو بظاہر شرع کے خلاف تھا۔ آپ عشرہ مبشرہ سے تھے۔خلیفۂ راشد تھے۔ آپ سے زیادہ قرآن پر عمل کرنے کی خواہش اور کسے ہو سکتی تھی۔ مگر آپ نے حد نہ جاری کی اور غلاموں کے مالک پر جرمانہ عاید کیا۔
اس لئے کہ مسلمانوں کی ریاست معاشرے کے حالات کے مطابق عمل کرتی ہے اور احکام کے الفاظ پر نہیں روح پر توجہ دیتی ہے۔
کلام الٰہی میں فرمایا گیا ہے’’اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت میں سے تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور اقربا اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے‘‘
اسی حکم پر عمل ہوتا رہا مگر عراق فتح ہوا اور فاتحین نے مفتوحہ زمینوں پر اس حکم کا اطلاق کرنا چاہا تو امیر المومنین نے انکار کر دیا۔ دلیل یہ تھی کہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ عبدالرحمن بن عوف نے پوچھا’’کیا یہ زمینیں اور ان کے مفتوحہ کاشتکار اللہ نے فاتحین کو نہیں دیے؟‘‘ امیر المومنین نے جواب دیا۔’’بات تو یہی ہے جو تم کہتے ہو مگر میری رائے اس کے خلاف ہے۔‘‘حضرت عثمانؓ ‘حضرت علی ؓ اور حضرت طلحہؓ‘ امیر المومنین سے متفق ہو گئے۔ پھر آپ نے انصار کے عمائدین میں سے دس افراد کی کمیٹی بنائی کہ وہ فیصلہ کریں ان کے سامنے آپ نے دلائل دیے کہ مملکت کو روپے کی ضرورت ہے زمینیں اصل مالکوں ہی کے پاس رہیں گی اور ہم ان سے محصول لے کر مسلمانوں کے اہل و عیال کی کفالت کریں گے اور فوجی چھائونیاں بنائیں گے۔ کمیٹی نے فیصلہ اس رائے کے حق میں دیا۔
امیر المومنین نے ظاہری حکم کا نہیں بلکہ مملکت اور اس کے عمومی مفاد کا سہارا لیا۔
اور کم عمری کی شادی کے ضمن میں تو شریعت نے عمر کا تعین ہی نہیں کیا ریاست اپنی طرف سے حد مقرر کر سکتی ہے۔ تاکہ معاشرے میں خرابیاں نہ پیدا ہوں! جیسے خدا نے بَیع اور شریٰ کا یعنی خریدو فروخت کا عام حکم دیا ہے اور کھلی اجازت دی ہے۔ مگر مسلمانوں کی ریاست مفادِ عامہ کی خاطر کچھ اشیا کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر سکتی ہے جیسے گاڑیوں کی درآمد پر۔ یا ایسی بے شمار اشیا جن پر ایف بی آر یا وزارت خزانہ پابندی عاید کر دیتی ہے۔ دارالحکومت میں گیس سے جنریٹر چلانا ممنوع ہے۔ یہ پابندی شریعت نے نہیں لگائی۔ پھر اس کے خلاف مذہبی بنیادوں پر احتجاج کیوں نہیں ہوتا’ ولیمہ سنت ہے۔ ون ڈش کی پابندی اسلام میں نہیں تو حکومت کون ہوتی ہے یہ پابندی لگانے والی؟ جی ہاں! حکومت لگا سکتی ہے۔ مفادِ عامہ کے لئے! شاہ ولی اللہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی امیر شخص کے مال سے مسلمانوں کے معاشرے کو گزند پہنچ رہا ہے اور مفاسد پھیل رہے ہیں تو حکومت اس کے مال کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے!!
ایک صاحب نے فرمایا ہے کہ دین کے بارے میں علم نہ رکھنے والے شرعی معاملات پر کیسے گفتگو کر سکتے ہیں؟ یہ بھی خوب کہی! دین کا علم رکھنے ولے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب پانچ برس کی لڑکی کی ’’شادی‘‘ ساٹھ سالہ کھوسٹ سے ہوتی ہے صرف اس لئے کہ قتل بچی کے بھائی نے کیا ہوتا ہے کیوں نہیں فتوے آتے ایسی شادیوں کیخلاف؟ آج تک کسی منبر سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز نہیں بلند ہوئی! شورش کاشمیری نے بہت ادب سے پوچھا تھا ؎
حاشیہ ادرک کی چٹنی کا پھر یری دال پر
قورمہ‘ فرنی‘ پلائو‘ کیا یہی اسلام ہے؟
نو شگفتہ کونپلوں کو خواہشِ اولاد پر
اپنے پہلو میں بٹھائو کیا یہی اسلام ہے؟
ہم کہاں جائیں؟ کس کے پاس جائیں؟ ہمیں بتایا گیا ٹیلی ویژن حرام ہے! پھر یہ جائز ہو گیا یہاں تک کہ معاوضہ بھی روا ہو گیا۔ ہمیں بتایا گیا لائوڈ سپیکر حرام ہے۔ پھر یہ حلال ہو گیا۔ ہمیں بتایا گیا کلام پاک چھاپہ خانے کی مشین پر نہیں چھپ سکتا۔ پھر یہ بھی جائز ہو گیا، کیا کم سنی کی شادی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وہ کریں گے جو لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ میزکرسی پربیٹھ کر کھانا بدعت ہے؟ ؎
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے؟
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لئے
کل عورتوں کی ڈرائیونگ غیر اسلامی تھی آج اسلامی ہو گئی ہے۔ اب عبایہ کے ’’احکام‘‘ بھی بدلنے کے قریب ہیں! ہم کہاں جائیں؟ کیا کریں کیا نہ کریں؟ شریعت کا علم رکھنے والوں کا ایک گروہ کہتا ہے قرآن سمجھ کر پڑھو۔ دوسرا کہتا ہے‘ نہیں! یہ صرف علما کا کام ہے۔ تم فقط اُس کتاب تک محدود رہو جو حضرت صاحب نے تصنیف فرما دی ہے!
عرصہ ہوا ایک نام نہاد ہومیو پیتھ ڈاکٹر کو دیکھا‘ ایکس رے الٹا رکھ کر دیکھ رہا تھا۔ دوربین یوں دیکھتے ہیں جیسے اندھے ہاتھی کو ٹٹول رہے تھے۔ ارے بھئی! یہ ہئیت دانوں کا کام ہے! لِکُلِّ فَنِِ رجال جس کا کام اسی کو ساجھے!
اور ہاں! کُتب آن لائن! ایک صاحب اِس نام سے کتابیں تو معلوم نہیں فروخت کرتے ہیں یا نہیں‘ مگر تشہیر اورریٹنگ کے لئے ایسا مواد ضرور بیچتے ہیں جس کی اصل کتاب میں ہے نہ سنت میں! یہ تشہیر‘ یہ ریٹنگ سلسلہ ہی ایسا ہے! اشتہار بازی ہر قبیل کی بُری ہے! اشیا کی فروخت کے لئے لوگوں کو ایس ایم ایس اور وٹس ایپ پر پیغامات بھیجنا ! دوسروں کے آرام میں خلل ڈالنا اپنے منافع کے لئے! اپنی زراندوزی کی خاطر!
یہ جو وبا چلی ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے اور بزعمِ خویش سکون حاصل کرنے کے لئے دھمال ڈالنا‘ ناچنا جسم میں کرنٹ لگوانا پھر گر پڑنا‘ کسی کی گودمیں‘ کسی کے اوپر سے رقص کرتے ہوئے‘ گرتے ہوئے دھکے دینا۔ پابدست دگرے دست بدست دگرے! اس سب کو آن لائن دکھایا گیا۔ مگر کتب آن لائن والے صاحب کو یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ خدا تک پہنچنے کا یہ طریقہ رسولؐ اور صحابہ نے کیوں نہ اپنایا؟ خلفائے راشدین میں سے کسی کو کیوں نہ سُوجھا؟ امام جعفر صادق امام موسیٰ کاظم اور دیگر ائمۂ کرام نے کیوں نہ بتایا۔ امام ابو حنیفہؒ سے لے کر امام احمد بن حنبلؒ تک۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے لے کر سید علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ تک۔ کسی نے بھی اس طریقے کو اپنایا نہ اس کی ہدایت کی! ؎
سرِ خدا کہ عابد و زاہد کسی نہ گفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
اللہ تعالیٰ کا بھید کسی عابد کسی زاہد نے نہ دیا۔ یہ مے فروش نے کہاں سے سُن لیا؟
مگر شکوہ اُن سے نہیں جو یہ کر رہے ہیں۔ ان کا اپنا نکتۂ نظر ہے! ہر گروہ کو آزادی ہے جو کرے!
’’پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر ایک جماعت اُس ٹکڑے پرجو ان کے پاس ہے خوش ہونے والی ہے۔ پھر ایک وقت تک انہیں اپنے نشے میں پڑا رہنے دو۔‘‘
یوں بھی جس معاشرے میں‘نعوذ باللہ ‘ نعت رسولؐ ‘ فلمی دھنوں پر گائی جا رہی ہو‘ وہاں کیا نہیں ہو سکتا! مگر میڈیا کو کسی گروہ کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ کسی خاص فرقے‘ کسی مخصوص سلسلے کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے! متنازعہ چیزیں کیوں دکھاتے ہیں؟ تشہیر اور ریٹنگ کے لئے؟ مذہبی اختلافات کو ڈھال نہ بنائیے۔ وہ دکھائیے جو سب کو قابلِ قبول ہو۔ یہاں تخت و تاج نہ رہے۔ تو آپ کے ہاتھ میں مائک کیا ہمیشہ رہے گا؟
No comments:
Post a Comment