یہ ایک مختصر‘ عام سا بیان ہے جسے ہو سکتا ہے بہت سے اخبار بینوں نے غور سے پڑھا بھی نہ ہو۔ مگر ایک خاص طرز سیاست کا کچا چٹھہ کھول رہا ہے جو اس ملک پر مسلط ہے!
’’مریم نواز ایک سیاسی کارکن ہیں وہ سیاسی میدان میں بھر پور کردار ادا کرتی ہیں لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتیں‘‘
یہ بیان کس کا ہے؟ یہ اہم نہیں! اس لئے کہ مقصد کسی کی ذات یا کسی کے نام کو موضوع سخن بنانا نہیں۔ مقصد اس فرق کو سامنے لانا ہے جو ہماری جمہوریت اور ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں ہے۔
ہماری جمہوریت میں خاندان اہم ہے پارٹی اہم نہیں! ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی اہم ہے۔ خاندان اہم نہیں!
کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی برطانوی سیاست دان سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی یا اس کے خاندان کی صفائیاں پیش کر رہا ہو؟ امریکہ کے اخبارات کھنگال لیجیے۔ یو ٹیوب پر تقریریں۔ بیانات‘ چھان ماریے‘ کوئی ڈیمو کریٹ سیاستدان ایسا نہیں ملے گا جو سابق صدر بارک اوباما کے خاندان کی تعریفیں کر رہا ہو!یہ طرز جمہوریت صرف ہمارے ہاں رائج ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی بیٹی کے لئے میدان صاف کیا جا رہا ہے اور فل ٹائم خاندانی وفادار صاحبزادی کے حاجب بنے ہوئے ہیں ان حاجبوں کا اپنا کیا مستقبل ہے؟ کیا تاریخ انہیں یاد رکھے گی؟
نہیں! تاریخ خاندانی غلاموں کو ہمیشہ کوڑے دان میں ڈالتی ہے۔ عباسیوں نے ایک ایک اموی شہزادے کو موت کے گھاٹ اتارا۔ صرف ایک بچ پایا۔ عبدالرحمن جو قسمت کا دھنی نکلا اور اندلس پہنچ کر عبدالرحمن اول اور عبدالرحمن الداخل کے نام سے مشہور ہوا۔ دمشق میں تعاقب کرتی ننگی تلواروں سے بچ کر شمالی مراکش پہنچا اور پھر سمندر عبور کر کے اندلس لینڈ کرنا آسان نہ تھا۔ اس طویل‘ اذیت ناک سمندر میں اس کا ساتھ کس کس نے دیا؟ شام سے مصر اور مصر سے تیونس (اس وقت تیونس کو ’’افریقہ‘‘ کہا جاتا تھا) پھر تیونس سے مراکش تک کے خطرناک سفر میں کون اس کا ہم سفر تھا؟ کیا کسی کو نام یاد ہے؟ نہیں ہاں! تاریخ کی کرم خوردہ کتابوں میں ڈوب جائیے تو نام مل پائیں گے۔ ورنہ نہیں! اس لئے کہ خاندانی وفاداروں کو تاریخ نے کبھی اہمیت نہیں دی خواہ وہ امویوں کے خاندانی وفادار ہوں یا زرداریوں کے یا شریفوں کے! ان خاندانی وفاداروں کو ملنے والا یہ صلہ کیا کم ہے کہ ان کی زندگی میں لوگ ان کا نام سنتے رہتے ہیں!
نوجوان ظہیر الدین بابر فرغانہ سے بھاگا۔ سالہا سال جدوجہد کرتا رہا۔ پہاڑیوں میں چھپتا کبھی جان بچا کر صحرائوں میں بھاگتا پھرتا۔ اس سارے عرصہ میں کون کون اس کے ساتھ رہا۔ بابر سے لے کر اورنگ زیب تک سب کے نام بچے بچے کو آج بھی یاد ہیں مگر جنہوں نے بابر کا ساتھ دیا۔ انہیں کوئی نہیں جانتا۔
اور آخری مثال۔ ہمایوں در بدر ہو کر بھٹکتا رہا۔ جب عمر کوٹ میں اکبر پیدا ہوا تو بے کسی کا عالم یہ تھا کہ معزول بادشاہ کے لئے گوشت خود (ہیلمٹ) میں ابالا گیا پھر ایران پہنچا مدد ملی تو کابل کو فتح کیا پھر سوریوں سے سلطنت واپس چھینی۔ اس طویل جدوجہد میں چند جاں نثار ہمایوں کے ساتھ ہی رہے۔ سوائے بیرم خان کے تاریخ نے کسی کو اس قابل نہیں گردانا کہ اس کا نام آج معروف ہو۔ بیرم خان کا نام بھی اس لئے باقی رہ گیا کہ اکبر نے تاج پہنا تو بچہ تھا۔ عملی طور پر کئی برس بیرم خان ہی حکمرانی کرتا رہا۔
کل ہماری تاریخ نے نام باقی رکھا بھی تو سعد رفیق کا یا چودھری نثار علی خان کا رکھے گی جو خاندانی غلامی کا طوق گلے میں پہننے کے لئے تیار نہ ہوئے اس طویل قامت باریش وفادار کو تو شاید فٹ نوٹ میں ایک سطر بھی نہ نصیب ہو جو مبد ء ِفیاض کا اس قدر ناشکرا تھا کہ وزیر اعظم بن کر بھی اپنے آپ کو وزیر اعظم نہ کہہ سکا اور جس نے سرکاری اڑن کھٹولے میں ایک مجرم کو فرار کرا کر قومی ’’دیانت‘‘ کا چمکدار ثبوت دیا۔
اس وفادار گروہ کی نفسیات سمجھنے کے لئے آپ کو ایک عسکری اصطلاح پر غور کرنا ہو گا۔ ایک بریگیڈیئر جب کور ہیڈ کوارٹر میں تعینات ہوتا ہے تو وہ کور کمانڈر کا چیف آف سٹاف لگتا ہے۔ یہاں اس نے فیصلے نہیں کرنے بلکہ کمانڈر کو اس کے کام میں مدد فراہم کرنی ہے اس کے احکام کی متعلقہ حلقوں تک پہنچانا ہے اور ان پر تعمیل کرانا ہے۔ اسے سٹاف پوسٹنگ کہتے ہیں۔ کل اسی بریگیڈیر کو ایک بریگیڈ کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے اب وہ بریگیڈ کمانڈر ہے۔ اب اس نے قیادت کرنی ہے، فیصلے کرنے ہیں۔ اسے کمانڈ پوسٹنگ کہتے ہیں۔ یہی صورت حال سول انتظامیہ میں ہے۔ ایک افسر کو ضلع کا سربراہ بنایا جاتا ہے تو اس نے پورے ضلع کی قیادت کرنی ہے۔ انتظام و انصرام کرنا ہے۔ فیصلے صادر کرنے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ کار میں ٹاپ پر ہے۔ مگر جب وہ پنجاب یا سندھ سیکرٹریٹ میں تعینات ہوتا ہے تو اب اسے چیف سیکرٹری یا چیف منسٹر کے سٹاف کے طور پر کام کرنا ہے
کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی شرارہ کوئی چنگاری نہیں ہوتی۔ وہ قیادت کے اہل ہوتے ہیں نہ فیصلے کرنے کے ۔وہ صرف ماتحت ہو کر احکام کی تعمیل کر سکتے ہیں ایک ذہین شخص ایسے فرد کی نفسیات پر ایک طویل تقریر کرنے کے بجائے صرف ایک جملہ کہے گا کہ’’فلاں ایک اچھا ماتحت ہے‘‘ یہ جملہ جو بظاہر تعریفی ہے۔ بتا رہا ہے کہ اس میں قیادت کی اہلیت نہیں۔ انسانوں کی یہی وہ قسم ہے جو کسی حکمران خاندان کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیتے ہیں۔ اسی کے سائے میں اسی کی چھتری تلے‘ وقت گزارتے ہیں۔ انہیں سیاست دان کہنا سیاست کی توہین ہے۔ یہ خاندانی غلام۔ پشتینی وفادار۔ اپنی رائے نہیں رکھتے۔ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ قیادت ان کے بس کی بات نہیں۔ لیڈر شپ کوائلٹی ان کی صفر ہے۔
مثلاً انہی صاحب کو لیجیے جنہوں نے پرسوں مریم بی بی کے بارے میں بیان صفائی دیا ہے آپ ان کا پورا کیریر اور کیریر کاریکارڈ غور سے دیکھیے۔ یہ کوئی پالیسی بیان کبھی نہیں دیتے۔ ملک اور قوم کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا ان کے نزدیک اور کوئی طریقہ روئے زمین پر موجود ہی نہیں سوائے اس کے کہ شریف خاندان کا کوئی مرد یا عورت حکمران ہو۔ ملک میں تعلیمی نظام کیا اصلاحات چاہتا ہے؟ زراعت کن تبدیلیوں کی متقاضی ہے؟ ادارے کس پراگندگی میں ہیں؟ بین الاقوامی تعلقات کی نزاکت کیا چاہتی ہے؟ یہ سب باتیں ان کے ذہن کی رسائی سے بلند ہیں۔ گزشتہ دس سال کے ان کے بیانات دیکھ لیجیے یہ صرف دو اقسام کے ہیں۔ شریف خاندان(یا شریف خاندان کے کسی فرد) کی تعریف میں یا دفاع میں۔ اور شریفوں کے مخالفن کی مذمت میں۔ اس مذمت میں ایسے وفاداروں نے اپنے آپ کو مضحکہ خیز تک بے نقاب کر دیا۔
ایسے افراد کبھی کسی جماعت کے لیڈر نہیں بن سکتے۔ یہ صرف اچھے ماتحت ہیں۔اچھے سٹاف افسر ہیں۔ خاندان کادفاع کرنا جانتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں صرف اس وقت نمایاں ہوتی ہیں جب مربی خاندان کے مخالفوں کی کردار کشی کرنا ہوتی ہے۔ مومن نے شاید انہی کے بارے میں کہا تھا ؎
بے بخت رنگ خوبی کس کام کا کہ میں تو
تھا گُل ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا
یہ ہمیشہ کسی دوسرے کی دستار میں لگتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ بغاوت کا یہ سوچ تک نہیں سکتے۔ جی سر جی سر کہنا انہیں اچھا لگتاہے۔ وہ مر کر دوبارہ جی اٹھیں تب بھی اپنے لیڈر کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘
اقبال نے مومنؔ سے اختلاف کیا اور ایسے لوگوں کو شرم دلائی کہ ؎
نہیں یہ شان خودداری‘ چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے
یہ وہ مخلوق ہے جو کسی چھتنار کے سائے تلے اگتی ہے۔ وہیں پرورش پاتی ہے۔ وہیں مرجھا کر زمین کا رزق ہو جاتی ہے۔ سیاست کے دامن پر یہ داغ ہیں ایسا داغ جسے خوشننما کہنے کے لئے ’’اچھا ماتحت‘‘ ہونا ضروری ہے!
No comments:
Post a Comment