شبر زیدی نے کہا ہے کہ تین سو کمپنیاں ہیں اور ان میں سے صرف اسی انکم ٹیکس دے رہی ہیں، سمگلنگ دھڑا دھڑ ہو رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ بھی سمگلنگ زوروں پر ہے۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ برس ساٹھ ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ ایک سال میں دس ہزار مشکوک بنک سرگرمیاں ہوتی ہیں، بائیس کروڑ کی آبادی میںانکم ٹیکس گوشوارے صرف انیس لاکھ افراد جمع کرا رہے ہیں!
یہ صورت احوال عمران خان کو معلوم ہوتی تو اقتدار میں آنے سے پہلے ان عزائم کا اظہار نہ کرتے جن کا کرتے رہے! اب یہ تھیوری درست ثابت ہو رہی ہے کہ صرف ٹاپ پر دیانت دار قیادت ہو تو سب درست نہیں ہو سکتا۔ خزاں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چند پھول کھل کر پیش منظر کو کیسے بدلیں گے؟ بددیانتی اور بد نیتی پاکستان کی سرزمین پر وال ٹو وال کارپٹ کی طرح بچھی ہے!
یہ مارچ کے اوائل کا ذکر ہے! وفاقی دارالحکومت کے ایک پررونق، پوش، سیکٹر کے مرکز میں واقع ایک بہت بڑی دکان میں جانا ہوا جو صرف اور صرف مذہبی کتابیں فروخت کرتی ہے۔ قرآن پاک کے ایک خاص پرنٹ کے نسخے کی تلاش تھی جس کی فرمائش بیرون ملک سے ایک عزیز نے کی تھی۔ دکان پر بچوں کیلئے کچھ کتابیںنظر آئیں، انگریزی اور اردو دونوں ہیں جو چن لی گئیں۔ کاؤنٹر پر کریڈٹ کارڈ پیش کیا تو تقدس مآب فرمانے لگے کہ ’’ہم تو کریڈٹ کارڈ نہیں لیتے‘‘! فوراً! بات سمجھ میں آگئی کہ ٹیکس سے بچنے کا حیلہ ہے! کریڈٹ کارڈ پر خریدو فروخت دستاویزی ہو جائے گی۔ کچھ کتابیں کم کر دیں! جتنی کیش پاس تھی دے دی۔ توقع کے عین مطابق حضرت نے رسید نہ دی! یہ دارالحکومت کا حال ہے ع
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
اس ایک باغ سے پوری بہار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے!
ملک کا سدھار کیسے ممکن ہے جب بھاری اکثریت ملک کا سوچ ہی نہیں سکتی! سمگلنگ سے لے کر ٹیکس چوری تک سب کچھ زورو شور سے جاری ہے! راتوں کو بازار کھول کر توانائی کے ساتھ ہولی کھیلی جا رہی ہے! یہ جو تاجروں کی انجمنیں ہیں جو قانون پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ہڑتال کو ترجیح دیتی ہیں۔ کیا ان انجمنوں میں کوئی رجل رشید نہیں ہے جو اپنے بھائیوں کو سمجھائے کہ آؤ! اس ملک کا سوچیں۔ حرام خوری۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدعہدی چھوڑ دیں! حکومت کے ساتھ تعاون کریں!
ایک دلیل یہ ہے کہ قوت نافذہ کمزور ہے! مگر سوال یہ ہے کہ کیا بائیس کروڑ افراد پولیس میں مامور کرنا ممکن ہے؟ کیا حب الوطنی کا کوئی رول نہیں؟ کیا خوف خدا عنقا ہو چکا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے ملک اجاڑ رہے ہیں! اپنی آئندہ نسلوں کے راستے میں خود کانٹے بو رہے ہیں! تین سو کمپنیوں میں سے ٹیکس دینے والی صرف اسی!! غضب خدا کا! ستائیس فی صد سے بھی کم! ایک نوجوان ٹیکس افسر کا سنایا ہوا واقعہ پھر یاد آ رہا ہے! ایک کمپنی کے ڈائریکٹر صاحب اس کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے کھاتے چیک ہو رہے تھے۔ ڈائریکٹر صاحب مسلسل ورد وظیفہ کر رہے تھے، اذان ہوئی تو تڑپ کر اٹھے کہ جماعت نہ رہ جائے۔ واپس آئے تو ٹیکس افسر نے پوچھنے کی جسارت کی کہ حضرت! آپ اس قدر عبادت گزار اور ذکر الٰہی میں سرگرم! مگر کھاتے آپ کے جھوٹ اور جعل سازی سے لبریز!! یہ کیوں؟ اس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا سوائے اس کہ منہ کھول کر آنکھیں حیرت سے پھاڑ دیں! وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ مذہب صرف اور صرف عبادات کا نام ہے! معاملات اپنے نفس کی مرضی سے طے کیجیے!
درست تشخیص کی ہے مولانا طارق جمیل نے کہ دنیا کی قیادت کرنے والے ملکوں کی ترقی اور عزت کی وجہ ان کے ہاں سچائی، دیانت داری اور انصاف ہے! مولانا نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں عام طور پر منبر سے معاشرت اور اخلاقیات کی بات نہیں ہوتی۔ علما میں سے کچھ فرقہ واریت پر اور باقی عبادات پر فوکس کر رہے ہیں! اخلاقیات پر بات کرنے والے علما بہت کم ہیں! یہی بات جو مولانا نے فرمائی تاہم جیسے بے بضاعت عرصہ سے کر رہے ہیں کہ اسلام کو عبادات تک مخصوص کر دیا گیا ہے اور معاملات و معاشرت سے باہر نکال دیا گیا ہے۔خدا مولانا کی عمر دراز کرے۔ تبلیغی جماعت بلکہ تمام مذہبی جماعتوں کو پوری تاریخ میں مولانا پہلے نمایاں مبلغ ہیں جنہوں نے معاملات کو اہمیت دی اور حقوق العباد پر زور دیا۔ اس صحرا میں وہ اکیلے ہیں جو اذان دے رہے ہیں۔ روایت یہ بھی ہے کہ مولانا کی اس متوازن اپروچ کو پرانی روش کے بزرگ تحسین سے نہیں دیکھتے۔
اسلام کو صرف عبادات تک مخصوص کرنے کا بھیانک انجام یہ نکلا کہ ایک طرف ہمارے تاجروں کی بھاری تعداد مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہے اور دوسری طرف ملاوٹ اور چور بازاری عام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تجارت میں ملاوٹ، دروغ گوئی اور عہد شکنی کا سب سے زیادہ رواج پاکستان میں ہے تو مبالغہ آرائی ہرگز نہیں! تاجر کو اگر آپ چار ماہ کیلئے بازار اور معاشرت سے کاٹ کر مسجد میں مقید کر دیں گے تو اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ اسلام صرف عبادات کا نام ہے! اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ بازار میں وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا مداوا عبات کرنے اور چلہ کاٹنے سے ہو جائے گا!
ہم مولانا طارق جمیل صاحب کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ جہاں تبلیغی جماعت کے نصاب میں فضائل قرآن۔ فضائل نماز، فضائل ذکر اور دیگر عبادات کے فضائل پر مشتمل کتابیں شامل ہیں وہاں ایک کتاب حقوق العباد پر بھی شامل نصاب کرنے کی کوشش فرمائیں اور ایک کتاب صرف تاجر برادری کیلئے مخصوص ہو جس میں ٹیکس چوری، ملاوٹ سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور فروخت کرتے وقت شے کے نقص کو ظاہر نہ کرنے کا انجام واضح کیا جائے! ہمیں معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت میں حقوق العباد پر اٹھنے والی آواز تنہا انہی کی ہے اور نصاب میں اضافے کرانا آسان کام نہ ہو گا مگر مولانا کوشش تو فرمائیں۔
مولانا نے فرمایا ہے کہ عمران خان پہلا شخص ہے جس نے ریاست مدینہ کا نام لیا ہے اس لئے اس کا ساتھ دینا چاہئے! ساتھ دینے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تاجروں کو ریاست کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دی جائے اور مَنْ غَشّ فَلَیْسَ مِناّ (ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں) اور من احتکر طعاماً اربعین لیلۃ فقد بری من اللہ تعالیٰ وبری اللہ تعالیٰ مِنْہُ (جس نے اشیائے خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی چالیس راتوں تک کی، اللہ اس سے بری اور وہ اللہ سے بری ہے) جیسے احکام تاجروں کیلئے نصاب میں شامل کیے جائیں۔
بعینہ اگر مذہبی احکام کے عمل کرنے والے تاجر دکانیں صبح نو بجے کھولیں اور سرشام بند کر دیں تو یہ ایک ایسا رجحان ہو گا جس کی پیروی دوسرے تاجر بھی کرنے پر مجبور ہوں گے!
اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ جو عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں خدا ان کی خواہش پوری کرے مگر خواہش کے ساتھ کوشش بھی لازم ہے!!
No comments:
Post a Comment