رات تھی اور جنگل۔ گھڑ سوار چلا جا رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف پانی تھا۔ ایک ٹارچ تھی جس سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یقین کر لیتا تھا کہ گھوڑا پگڈنڈی ہی پر چل رہا ہے۔ جیسا کہ ایسے مواقع پر ہوتا ہے، کچھ ہی دیر بعد ٹارچ کے سیل ختم ہو گئے۔ چاند بھی چھپ گیا، گھوڑا چلتا رہا۔ پھر یوں محسوس ہوا جیسے گھوڑا قدم رکھتے وقت زیادہ زور لگا رہا ہے۔ پھر اس کے پاؤں دھنسنا شروع ہو گئے۔ سوار ایک وسیع و عریض دلدل میں پھنس چکا تھا۔ اب معاملہ وہی تھا نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن! کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا!
ہم بحیثیت ملک ایک دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ ٹارچ میں دیانت، احساس اور عزتِ نفس کے سیل جواب دے چکے ہیں۔ آسمان پر دور دور تک چاند ہے نہ کوئی تارا، اندھیرا ایک افق سے دوسرے افق تک دبیز چادر تان چکا ہے۔ اب کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔
کرپشن کا لفظ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب اس سے ڈر محسوس ہوتا ہے نہ نفرت! زرداری خاندان اور شریف خاندان کے خلاف ا تنے مقدمات بن چکے ہیں اور بھگتائے جا چکے ہیں کہ شمار کرنا شاید ممکن نہ ہو اور سنجیدگی سے یہ مقدمات شمار کرنے ہوں تو باقاعدہ ریسرچ سیل بنانا پڑے گا۔ سیکنڈل کے بعد سیکنڈل۔ الزام کے بعد الزام! کیس کے بعد کیس۔ ملزمان! نیب، عدالتیں اور حکومتیں! چومکھی سی چومکھی ہے! کسی کو کوئی حجاب ہے نہ شرمندگی! اچھی خاصی تعداد ذمہ دار شہریوں کی باقاعدہ موقف رکھتی ہے کہ ''کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔‘‘
پھر ہم خوش ہوئے کہ چیزیں بدل رہی ہیں۔ اپنے زعم میں کچھ لوگوں نے لمبی جنگ لڑی۔ امیدیں باندھیں۔ توقعات کے پودے لگائے۔ انہیں پانی دیا۔ مگر پھل کیا لگتا، بُور تک نہ دکھائی دیا۔ وہی دلدل ہے۔ وہی اندھیرا۔ ہاتھوں میں ٹارچ ہے نہ آسمان پر چاند! ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں!
وہی سیکنڈل در سیکنڈل! وہی الزام در الزام! چینی کا سیکنڈل، آٹے کا سیکنڈل۔ آئی پی پیز کے الزامات! کابینہ کے ا رکان کے خلاف الزامات! جوابی الزامات! صفائیاں! مزید الزامات! مزیدصفائیاں!
کیا اس سے بھی زیادہ گہری دلدل کوئی ہو سکتی ہے کہ پہلے زرداریوں اور بھٹوؤں نے سرکاری خزانے سے سرکاری عمارتیں بنوائیں۔ اُن پر اپنے نام لکھوائے۔ جیسے اقبال، قائداعظم، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر، نور الامین، مولوی فرید احمد، فضل القادر چودھری، مولوی تمیز الدین، راجہ تری دیو رائے کی تو خدمات ہی کوئی نہیں تھیں۔ پھر شریفوں کی باری آئی۔ اب ہر کالج، ہر ہسپتال، ہر سکول، ہر سرکاری عمارت پر ان کے ناموں کی تختیاں لگنے لگیں! خدا کا خوف عنقا ہو گیا۔ سرکار، جاگیر میں بدل گئی۔ ملک فیکٹری بن گیا۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے علاقے میں ہسپتال کا افتتاح کیا ہے۔ پیسہ پاکستان کے عوام کا، عمارت پاکستان کے عوام کی، مگر نام کی تختی پر ان کے والد کا نام لکھا گیا۔ یہی کچھ زرداری اور بھٹو کرتے تھے تو بدنام تھے۔ یہی کچھ شریفوں نے کیا تو بُرے کہلائے۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے مگریہ ٹھیک ہے!اقبال نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
غلامی سے مراد صرف وہ غلامی نہیں جو انگریزی یا روسی یا ہسپانوی استعمار کی ہوتی ہے۔ غلامی ذہنی بھی ہوتی ہے جو ہمارے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر نئی حکومت کے ساتھ یہ ذہنی غلامی زیادہ ہو رہی ہے تو کوئی مبالغہ نہیں!
ویسے کیا حرج ہے اگر بانگِ درا اور بالِ جبریل پر ان حکمرانوں کے اور ان کے بزرگوں کے اسمائے گرامی لکھ دیئے جائیں۔ خطبۂ الہ آباد اقبال نے نہیں، ان کے کسی وڈے وڈیرے نے دیا تھا۔ ان کا بس چلے تو قائداعظم کے مزار میں کسی اپنے جدِ امجد کو لِٹا دیں! ؎
یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چُرا لیتے ہیں لوگ
قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ!
ایک معتبر وفاقی وزیر نے، جو پارٹی کے اپنے وزیر ہیں، اُدھار پر کسی دوسری پارٹی سے نہیں لئے گئے، جیسا کہ کچھ لئے گئے ہیں، کہا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ فردوس عاشق اعوان نے لابنگ کے ذریعے وزارت حاصل کی تھی اور یہ کہ وہ اس وزارت کی اہل نہیں تھیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کا اپنا نمائندہ تصدیق کر رہا ہے کہ اس دور میں بھی، گزشتہ ادوار کی طرح، نااہلوں کو وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ پہلے بھی لابنگ سے مناصب حاصل کئے جاتے تھے، اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ طریقِ کوہکن میں وہی پرویزی حیلے ہیں۔ بندہ اب بھی کوچہ گرد ہے! خواجہ بدستور بلند بام ہے! منزل کوسوں دور تھی!منزل کوسوں دور ہے!!
پہلے بھی حکمرانوں کے گرد اہلِ زر ہوتے تھے۔ تجوریاں اور اے ٹی ایم تھے‘ اب بھی بلند ترین مسند کے اردگرد زر و سیم ہیں۔ تجوریاں ہیں۔ اے ٹی ایم ہیں۔ جہازوں والے ہیں۔ ہماری قسمت میں کوئی من موہن سنگھ نہیں، کوئی احمدی نژاد نہیں! اب کوئی لیاقت علی خان نہیں آئے گا جس کی وفات پر اس کی بیوہ کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ اب ہمارے حصے میں کوئی اور محمد علی جناح نہیں جو کابینہ کے ارکان کو گھرسے چائے پی کر آنے کے لئے کہتا تھا! ہمارے نصیب میں کوئی ''لی کوان ییو ‘‘ نہیں جس نے ترکے میں ایک مکان چھوڑا اور اس ضمن میں بھی وصیت کر ڈالی کہ ا س کے مرنے کے بعد منہدم کر دیا جائے تاکہ سرکاری وسائل اس کی مینٹی نینس پر نہ لگانے پڑیں! ہمارے نصیب میں اب زرداری ہیں اور شریف، عمران خان ہیں اور بزدار! شاید ہم مستحق ہی انہی عبقریوں اور نابغوں کے ہیں! جیسے ہم عوام کے منہ ہیں، ویسی ہی چپیڑیں قدرت مار رہی ہے!
ہر سیاسی جماعت کی طرح عوام میں تحریک انصاف کے حامیوں کے بھی دو گروہ ہیں! ایک گروہ وہ ہے جو معروضی سوچ رکھتا ہے۔ غلط کو غلط کہتا ہے۔ درست کو درست کہتا ہے۔ اس گروہ کی وابستگی، کمٹ منٹ، شخصیات کے ساتھ نہیں، نظریات کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف کے یہ حامی ہسپتال کی عمارت والد کے نام رکھنے پر سوالات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اعتراض کر رہے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ حکومت سیکنڈل فری نہیں۔ آلودگی کے بادل فضا میں منڈلا رہے ہیں۔ کابینہ کے ارکان کی اچھی خاصی تعداد غیر متنازعہ طور پر پاک صاف نہیں! دوسرا گروہ وہی ہے جو اپنے لیڈروں کے ہر اقدام کو سراہتا ہے۔ تجزیہ نہیں کر سکتا۔ محاسبے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ گروہ آنکھیں بند کر کے دفاع پر جُتا ہوا ہے۔ سوالات اٹھانے والوں پر بُغض اور دشمنی کے الزامات عائد کر رہا ہے۔ یہ نادان دوست ہیں۔ خدا حکومت کو اور حکومتی پارٹی کو نادان دوستوں سے بچائے!
جو الزام ایک معروف صحافی نے لگایا ہے حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر برطانوی پراپرٹی ٹائیکون جو شہباز شریف سے قربت رکھتا ہے، اُن کے کام آتا ہے اور وہی موجودہ وزیراعظم کا مہمان بنتا ہے تو یہ کوئی معمولی الزام نہیں۔ یہ شفافیت کے خلاف ہے۔ آخر وضاحت کرنے کے بجائے ایسے مواقع پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ اگر الزام غلط ہے تو تردید کیوں نہیں کی جاتی؟ ؎
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
الزامات کے حوالے سے ہمارا روّیہ، من حیث القوم، بہت عجیب ہے۔الزام کا جواب نہیں دیتے‘ یہ نہیں بتاتے کہ الزام غلط ہے یا درست! الزام لگانے والے سے ثبوت مانگنے کے بجائے جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک جماعت پر سرے محل کاالزام لگے تو وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لندن اپارٹمنٹس کا طعنہ دے گی! دوسری جماعت پرجدہ یا دبئی کی پراپرٹی کا الزام لگے تو وہ نیویارک کے ہینٹ ہاؤس کا تذکرہ شروع کرے گی! اس طرزِدفاع سے تو ہم یہ تاثردیتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم نے ایسا کیا تو تم نے بھی ایسا ہی کیا۔ آؤ، پرامن بقائے باہمی کی رُو سے ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالیں۔
معلوم نہیں یہ محاورہ کہ ''جو نمک کی کان میں گیا نمک ہو گیا‘‘ کس طرح وجود میں آیا مگر لگ یہ رہا ہے کہ یہ ہمارے لئے تراشا گیا ہے۔ ابھی تک تو نمک کی کان میں ہر ایک کو نمک ہوتے ہی دیکھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment