Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 07, 2020

………مزاحیہ کلپ بدستور بھیجتے رہیے


کالم نوکری کے فضائل پر لکھنا تھا!
گائوں کی بے باک الّہڑ دوشیزہ نے تو نوکری کی مذمت کی تھی
تیری دو ٹکیاں دی نوکری
وے میرا لاکھوں کا ساون جائے 
مگر اب نوکری وہ نوکری نہیں رہی۔ اب اس میں اعلیٰ درجات کی نوکریاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ٹھاٹھ باٹ، پرچم بردار لمبی، جہازی سائز کی کاریں! ذرا سے اشارے پر دوڑتا سٹاف! رشک آور محلات! ہر شہر میں پروٹوکول! ہر چینل پر کوریج، ہر اخبار میں تصویر! مگر نوکری پھر بھی نوکری ہی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے: نوکری پیو دی وی چنگی نئیں‘ یعنی نوکری باپ کی ہو پھر بھی نوکری ہی ہے! کہنے کو تو نوکر سب برابر ہیں۔ نائب قاصد بھی سرکار کا اسی طرح نوکر ہے جیسے اس کا سپریم باس جسے سیکرٹری کہا جاتا ہے۔ جو نوکری کی اصل نوعیت سمجھتے ہیں وہ اپنے نائب قاصد کا تعارف بھی کولیگ کے طور پر کراتے ہیں۔ ایک نائب قاصد کہا کرتا تھا کہ میں دورے پر جاتا ہوں تو سیکرٹری صاحب کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں!
وزارت بھی نوکری ہی ہے۔ اعلیٰ ترین درجے کی نوکری! بلکہ اعلیٰ ترین درجے سے ایک درجہ کم کی نوکری! وزارت سے پہلے کتنا شاندار تاثر ہوتا ہے! مرنجاں مرنج! صلح جُو! کبھی کسی کے خلاف بیان دیا نہ کسی کا نام لے کر مخالفت کی! مگر وزارت کی اپنی مجبوریاں! مخالفین کا نام لے لے کر بیان دینے پڑتے ہیں۔ وہ جو قبولیتِ عامہ کا بلند مینار تھا، نیچے گر پڑتا ہے۔ وزارت جنگ کا میدان ہے۔ تیر، بھالے، نیزے، گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ چلانی بھی پڑتی ہیں۔ اسی لیے وہ جو زیادہ مستقبل بین ہوتے ہیں، ایسی نوکریوں سے بچتے ہیں! مگر بچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں! 
کالم نوکری کے انہی فضائل اور درجات پر لکھنا تھا مگر کورونا آڑے آ رہا ہے! کورونا نے جہاں ہماری بہت سی کمزوریاں عیاں کرکے رکھ دیں وہاں ہمارے خفیہ اور نہفتہ کمالات بھی ظاہر کر دیئے۔ یہ تو کورونا سے پہلے بھی معلوم تھا کہ ہمارے ہاں ہر شخص علم سیاسیات کا ماہر ہے اور مذہبیات کا بھی! مگر اب راز کھلا کہ ہم میں سے ہر شخص اعلیٰ درجے کا ڈاکٹر ہے اور طبیبِ حاذق بھی! جتنے علاج کورونا کے پوری دنیا میں تجویز ہوئے، ان سے کہیں زیادہ صرف ہمارے ایک ملک میں تجویز کیے گئے۔ ان میں تارکینِ وطن کا بھی حصہ ہے۔ آخر وہ بھی ہمارے قومی جسم کا اہم عضو ہیں! علاج معالجہ کے اس گھمسان کے رن میں انہوں نے بھی خوب کشتوں کے پشتے لگائے اور تاک تاک کر نشانے باندھے ہیں۔
کوئی دعویٰ کر رہا ہے کہ فلاں تیل کے دو قطرے ناک کے دونوں نتھنوں میں باری باری ٹپکائیں تو کورونا کیا، کورونا کا باپ بھی مر جائے گا! ولایت سے ایک صاحب کی وڈیو اندرونِ ملک اور بیرون ملک سے بار بار موصول ہو رہی ہے، ان کا بہ صد اصرار دعویٰ ہے کہ فلاں نسخہ کورونا کا سو فیصد علاج ہے بشرطیکہ انہی کے طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ یہ چیلنج بھی کیے جا رہے ہیں کہ غلط ثابت کرنے والے کو اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ انعام دیں گے۔ فیض یاب ہونے والوں کی تعداد وہ باقاعدہ ضرب تقسیم کر کے ہزاروں، لاکھوں میں بتا رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ گواہی ایک کی بھی نہیں!
حاشا وکلّا! ہم ان طریقہ ہائے علاج کی مکمل نفی نہیں کر رہے۔ ان سے یقینا کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا ہوگا اور ہوا ہوگا‘ مگر یہ جو ہم لوگوں کا قطعیت کا دعویٰ ہوتا ہے، یہ عجیب ہے کہ سو فی صد فائدہ ہوگا اور یہ کہ نہ ہوا تو اتنا انعام دوں گا اور یہ کہ کسی اور علاج یا پرہیز کی ضرورت نہیں! اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ بھاپ سے مکمل تندرستی ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے اس میں صداقت ہو مگر ایسا ہوتا تو دنیا میں اتنی کھلبلی نہ مچتی جو مچی ہے! معاملہ اتنا آسان نہیں! 
سنی سنائی بات پھیلانے کی وبا تو کورونا سے پہلے بھی عام تھی! کورونا نے آ کر اس میں اضافہ کر دیا! قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی کی آفاقیت اور ہمہ گیری پر حیرت ہوتی ہے! یوں لگتا ہے کہ یہ جو فرمانِ اقدس ہے... ''کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنا پھرے...‘‘ تو یوں لگتا ہے یہ آج کے زمانے کی ''فارورڈ‘‘ کرنے کی علّت کے بارے میں فرمایا گیا ہے! صبح ہی سے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ فیس بک پر، میسنجر پر، وٹس ایپ پر، ٹویٹر پر! کاپی کر کے پیسٹ کرو۔ پھر بیسیوں کو بھیج دو۔ سُنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے کا یہ بدترین مظاہرہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ زبانی یہ کام کرتے وقت جو کسر رہ جاتی تھی اب ساتھ یہ لکھ کر پوری کر دی جاتی ہے کہ "Forwarded as received" یعنی ''جیسے سنی، ویسے ہی آگے بیان کی جا رہی ہے‘‘!
اب یہ جو ولایت والا دعویٰ ہے، دو کروڑ کے انعام والا... یہ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک چہار دانگِ عالم سے آ رہا ہے اور آئے جا رہا ہے! وہ شعر چیخ چیخ کر سنانے کو دل چاہ رہا ہے جو سجاد حیدر یلدرم نے اپنے شہرۂ آفاق مضمون ''مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘ میں لکھا تھا؎ 
اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو ایک صاحب عیادت کے لیے ایسے بھی آئے جنہوں نے یہ نہیں کہا کہ فلاں دوا کھائیے اور فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیے! ہر دوست، ہر عزیز، پورے صدق دل سے چاہتا ہے کہ آپ اس کے پسندیدہ ڈاکٹر ہی سے علاج کرائیں اور وہی دوا استعمال کریں جس سے اس نے شفا پائی! اسے ہمارے کلچر کا حسن کہہ لیجیے یا کثافت! جس طرح یہ سوال بُرا نہیں سمجھا جاتا کہ ''تنخواہ کتنی ہے‘‘؟ اسی طرح آپ کے ڈاکٹر کی تنقیص اور اپنے ڈاکٹر کے پاس جانے کا اصرار خلوص کا مظہر ہے!
پھر ہمارے ہاں مشوروں پر عمل کرنے کا رواج بھی بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ خواتین سے آپ نے عام سنا ہوگا کہ کپڑا فیصل آباد میں یا نوشہرے میں ارزاں ہے! اگر انہیں سمجھانے کی کوشش کریں کہ کوئی خاص فرق نہیں ہوگا اس لیے کہ مجموعی طور پر مارکیٹ ایک ہی ہے تو دلیل یہ دیں گی کہ فلاں ملنے والی نے مشورہ دیا ہے۔ ایک بزرگ گائوں سے تشریف لائے۔ ان کے لیے ایک مستند ڈاکٹر سے وقت لیا‘ پھر انہیں اُس کے کلینک پہنچایا۔ چند گھنٹوں بعد فون پر خیریت پوچھی تو فرمانے لگے: ٹیکسلا سے بول رہا ہوں۔ پنڈی سے وہاں کیسے پہنچ گئے؟ معلوم ہوا کہ کلینک میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے ایک اور مریض نے گپ شپ کے دوران ٹیکسلا کے اس ڈاکٹر کی تعریف کی۔ ہمارے بزرگ وہیں سے اٹھے اور ٹیکسلا پہنچ گئے!!
ایسا بھی نہیں کہ بھیڑ چال صرف نیم تعلیم یافتہ یا ان پڑھوں کا شعار ہے! بڑے بڑے سوٹڈ بوٹڈ صاحبان کو شوقِ تقلید میں خوار ہوتے دیکھا ہے! ایک دوست تھے‘ اعلیٰ عہدے پر فائز! خدا بخشے داغِ مفارقت دے گئے۔ کراچی جانا ہوتا تو ضرور دعوت کرتے۔ اپنے والد گرامی مرحوم کو پاپا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ وہ شوگر کے مریض تھے۔ کہنے لگے، حیدرآباد میں ایک صاحب ہیں جو شوگر کا علاج میٹھے سے کرتے ہیں۔ پاپا کو ان کے ہاں لے جا رہا ہوں۔ بہت سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے‘ ڈاکٹر کا جو علاج چل رہا ہے، اس سے وہ ایک اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی دلیل تھی کہ حیدرآباد والے صاحب کے علاج کے بعد کوئی دوا کھانا ہی نہیں پڑتی۔ کراچی سے واپس آ کر، چند دن بعد پاپا کی خیریت پوچھنے کے لیے فون کیا۔ پریشان تھے کہ حیدرآباد والے بابے نے میٹھے سے جو علاج کیا اس سے پاپا کی حالت خراب ہو گئی۔ اب ہسپتال داخل ہیں!
مگر جس معاشرے میں ہم ان داستانوں پر فخر کرتے ہوں کہ فلاں مشہور طبیب اتنے ماہرِ فن تھے کہ لوگوں نے بلّی کی ٹانگ سے دھاگہ باندھا اور انہوں نے اس دھاگے کی نبض دیکھ کر بتا دیا کہ یہ مریضہ ایک بلّی ہے، اس معاشرے میں کسی بھی دعوے پر یقین کیا جا سکتا ہے!
تاہم، احباب سے التماس ہے کہ مزاحیہ کلپ بدستور بھیجتے رہیں۔ وحشت، خوف اور نظر بندی کے ان ایام میں تفنّنِ طبع کا سامان ضروری ہ

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com