Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, November 20, 2010

ہم مسکین پاکستانی

یہ نومبر 2010 کی سولہ تھی۔ منگل کا دن تھا۔ دن کے سوا دو بجے کا وقت تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر ایک جہاز اترنے والا تھا۔ اس جہاز کے مسافروں کا استقبال کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر ایک ہجوم انتظار کر رہا تھا۔ انتظار کرنے والے یہ لوگ صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔ دیر اور سوات سے‘ مالاکنڈ اور مردان سے‘ کوہاٹ اور وانا سے‘ بنوں اور میران شاہ سے‘ کرک سے‘ باجوڑ سے‘ وزیرستان سے‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے‘ کوئی ٹیکسی کرکے آیا تھا‘ کوئی تین بسیں بدل کر‘ کوئی پوری سوزوکی کرائے پر لیکر‘ کوئی اپنی کار پر‘ اور یہ لوگ جو پشاور کے ہوائی اڈے پر تھے انکی تعداد تو کچھ بھی نہیں تھی۔ ہر استقبال کرنیوالا اپنے پیچھے دس سے پندرہ فراد گھر میں چھوڑ کر آیا تھا۔ گھروں میں پوپلے منہ لئے بوڑھی مائیں منتظر تھیں‘ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہوئیں‘ چلم پیتے باپ حجروں میں ایک ایک لمحہ کن رہے تھے‘ سہاگنیں دلوں میں دھڑکنیں بسائے زندگی کے ساتھیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ پھول سے چہروں والے بچے اپنے اپنے ابو کیلئے بے قرار تھے‘ کھلونوں کی جھنکار ان کے دلوں میں گدگدی مچا رہی تھی۔ وہ نئے کپڑوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دن کے بعد عید تھی۔ ایک ایک لمحہ قیامت کی طرح لگ رہا تھا۔

دو بج کر تیس منٹ پر ابوظہبی سے چلا ہوا جہاز پشاور ائرپورٹ پر اترا‘ جہاز مشرق وسطیٰ کی ایک ائرلائن کا تھا‘ مسافر پاکستانی تھے‘ کروڑوں روپے کا کرایہ ائرلائن کو پاکستانیوں نے دیا تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر جہاز کو مہیا کی گئی۔ سہولتیں پاکستان کی تھیں لیکن افسوس! کروڑوں روپے کے کرائے کا لحاظ تھانہ جہاز کو دی گئی سہولتوں کا‘ مسافر جہاز سے اترے‘ پاسپورٹ دکھانے اور امیگریشن کے مرحلوں سے گزرے اور کشاں کشاں ائرپورٹ کے اس حصے کی طرف بڑھے جہاں انہوں نے اپنا اپنا سامان لینا تھا۔صندوق‘ اٹیچی کیس‘ بکس‘ بیگ‘ جن میں انکے پیاروں کیلئے تحفے تھے۔ ایک دن بعد عید تھی اور گھروں میں مائیں باپ سہاگنیں‘ بہنیں‘ بھائی کھلکھلاتے ہنستے مسکراتے پھول سے بچے انتظار کر رہے تھے۔

سامان کا انتظار کرتے پندرہ منٹ گزر گئے‘ پھر آدھ گھنٹہ‘ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر دو گھنٹے‘ پھر تین گھنٹے‘ تین گھنٹوں کے بعد مسافروں کو بتایا گیا کہ ابوظہبی سے آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ مسافر تو اس میں لائے گئے لیکن سامان اس میں سما نہیں سکتا تھا‘ اس لئے ائرلائن دو سو مسافروں کا سامان ابوظہبی ہی چھوڑ آئی۔ ایک دن بعد عید ہے۔ عید کی پانچ چھٹیاں ہیں اب سامان عید کی چھٹیوں کے بعد‘ پیر کے دن یعنی بائیس نومبر کو لاہور پہنچے گا‘ وہاں سے سڑک کے ذریعے پشاور لایا جائیگا‘ اسکے بعد مسافر اپنا اپنا سامان بخوشی گھر لے جا سکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی اس ائرلائن کا ایک دفتر بھی پشاور کے ہوائی اڈے پر موجود ہے۔ یہ کالم نگار وہاں موجود تھا اور اس کالم نگار نے اپنے کانوں سے ائرلائن کے مقامی انچارج کو یہ بتاتے سنا کہ سامان جان بوجھ کر ابوظہبی چھوڑ گیا ہے کیوں کہ پشاور آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ اور اب سامان عید کی تعطیلات کے بعد ملے گا۔

ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ میں نے دو ہزار ڈالر کرایہ ادا کیا ہے۔ مجھے ابوظہبی ائرپورٹ پر کیوں نہ بتا دیا گیا کہ میرا سامان نہیں لے جایا جا رہا۔ اس کا جواب بہت معصومیت سے دیا گیا کہ ’’ابوظہبی کیسے بتاتے‘ آپ تو ٹرانزٹ میں تھے‘‘!

پشاور ائرپورٹ پر کام کرنیوالے ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ یہ سفاک کھیل ایک ماہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ کروڑوں روپے کرائے کی مد میں لینے والی مشرقی وسطیٰ کی یہ ائرلائن سامان بعد میں لاتی ہے اور مسافر اذیت اور بے چارگی کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی اور ملک ہوتا جہاں شہریوں کی عزت کے محافظ جاگ رہے ہوتے تو اس قسم کی ائرلائن کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟اس ائرلائن کے جہازوں کو ملک میں آنے کی اجازت نہ دی جاتی ۔ ائرلائن پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جاتا۔ اس ملک کا سفیر مشرق وسطیٰ کی متعلقہ حکومت سے پرزور اور پرشور احتجاج کرتا۔ میڈیا پر کہرام مچ جاتا۔  ائرلائن کا بائی کاٹ کر دیا جاتا اور چوبیس گھنٹے کے اندر ائرلائن  ناک سے لکیریں کھینچتی اور اسکا ملک بھی معافی مانگتا۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستانیوں کی قسمت میں نہیں‘ ہم بیچارے غریب مسکین پاکستانی! ہمارا کوئی وارث ہے نہ محافظ!

اس ملک میں ایک ادارہ ہے جسے سول ایوی ایشن اتھارٹی کہتے ہیں۔ آپ اس کے ملازموں کو ملنے والی تنخواہیں اور سہولیات کی تفصیل سنیں تو یقین کیجئے‘ بے ہوش ہو جائیں اس سفید ہاتھی کا کام ملک کے اندر آنیوالے جہازوں کی نگرانی اور سارے امور کی جانچ پڑتال ہے-اس کت اوپر وزارت دفاع ہے۔ لیکن پشاور ائرپورٹ پر ہونے والے ظلم کی پرواہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہے نہ وزارت دفاع کو۔ جب اپنا ملک اپنے ہی باشندوں کو جوتے کی نوک پر لکھتا ہے تو دوسرے ملکوں اور دوسرے ملکوں کی ائرلائنوں کو کیا پڑی ہے کہ ان لاوارثوں کی فکر کریں۔ وہ تو پہلے ہی پاکستانیوں کو کبھی ’’رفیق‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ’’مسکین۔ وہ اپنے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں سے وہ سلوک روا رکھتے ہیں جو جانوروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ ملک تو پہلے ہی پاکستان سے تین تین چار چار سال کے بچے یوں ’’درآمد‘‘ کرتے ہیں۔ جیسے یہ بچے پلاسٹک کا سامان ہوں یا سامان کی بوری ہوں۔ پھر انہیں اونٹوں کی کوہانوں پر باندھتے ہیں۔ پھر ان اونٹوں کو دوڑاتے ہیں۔جب یہ رسیوں سے بندھے ہوئے بچے خوف کے مارے چیختے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ خوشی سے دیوانہ وار نعرے لگاتے ہیں۔ پھر جب یہ بچے نیچے گر کر اونٹوں کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں ’’دوڑ میں کونسا اونٹ اول نمبر پر آیا؟‘‘

کوئی مانے یا نہ مانے اور کسی کو یہ بات کتنی ہی بری کیوں نہ لگے‘ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کی جتنی عزت پاکستانی کرتے ہیں‘ رب کعبہ کی قسم! کوئی اور نہیں کرتا! سادہ دل پاکستانی عربوں کو عربی میں جھگڑتا بھی دیکھیں تو ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور کلمہ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔

اور یہ تو سچا واقعہ ہے کہ عمرے کیلئے جانیوالی پاکستانی عورت کے جوتے ائرپورٹ پر چھرے سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دئیے گئے۔ وہ عورت سرزمین حجاز پر ننگے پاؤں چلتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اس مقدس زمین پر ننگے پاؤں ہی چلنا چاہئے! بھائی یاسر عرفات کو دیکھیں‘ ساری زندگی کشمیر کیلئے ایک لفظ منہ سے نہ نکل سکا‘ موت تک دل بھارت کیلئے دھڑکتا رہا‘ لیکن پاکستانی فلسطین اور اہل فلسطین کیلئے جان اور مال کی قربانی دینے کو ہر وقت آمادہ ہیں!

لیکن جس ملک کے اہلکار حاجیوں کے حج کو بھی حرام مال کا ذریعہ بنا لیں اور سعودی شہزادے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کریں‘ اس ملک کے مسافروں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی ائرلائنیں کیوں نہ غیر انسانی سلوک روا رکھیں؟؟

5 comments:

تانیہ رحمان said...

آپ نے جو لکھا وہ بالکل درست ہے یہ سامان والا کام تو میرے اپنے ساتھ ہو چکا ہے ۔ جب ہماری اپنی قومی ایر لاین نے ہامرے ساتھ یہ کام کیا تھا ۔۔۔۔ اسلام اباد ایر پورٹ پر ۔۔۔۔ جب ہمیں کہا گیا کہ سامان بعد میں آئے گا تو آپ سوچ نہیں سکتے ہمارا کیا حال ہوا تھا ۔۔۔۔ عربیوں کے ساتھ بھی رہنے کا اتفاق ہو چکا ہے ۔۔۔۔ جتنی چلاک قوم ہے ۔۔۔اپنے فاہدے کے لیے آپ کے قدموں مین بھی بیٹھ جائے گی ۔لیکن یہ تبی ممکن ہے کہ اپ کے پاس جاب کیا ہے ۔۔۔۔

Anonymous said...

I just finished your column, "Hum Maskeen Pakistani" and information provided were so true that I could not keep myself from writing. I have lived and worked with Arabs for more than 15 years. We consider them great muslim but in their dictionary, muslim takes the 4th place.


First of all they are Muwatan (National)...Alhumdollilah, I am a Muwatan and we have Petrol.....Not Maskeen like others.
Secondly they are Khaligi (Rich Arabs)...A super class among the Arabs, even have their own songs. Bannat -ul -Khaleej was a popular one in 80s.
Thirdly they are Arab, Go to any office of the "Gulf Corporation Council" and first thing you read, "jayesh Arabi Wahad, Saab-e-Arabi Wahad (Arab army is one and Arab nation is one..........No muslim Please), Arab will always go with Arab, if fight is between Arab and non Arab.
If First three are not available, then comes the 4th, Aana Muslim (I am a muslim), there also they consider themselves Custodian of Islam....We are Arab and you are Aajami.

Please Keep writing, Me and so many other feel you present the people who have very strong and true feelings but have no say in the society.

Thank you and have a nice day,

Anonymous said...

The above comments ( of Nov 21 )have been posted by Mr.

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم !۔
آپ سے پہلے بھی ایک دفعہ عرض کرچکا ہوں کہ لوگوں تو زخموں کو چھیڑتے ہیں مگر آپ ہمارے زخموں میں پورا ہاتھ گھسیڑ دینے سے باز نہیں آتے۔
اس بد نصیب قوم جس کا نام پاکستانی ہے ۔ اس بارے ایک نہیں ہزاروں کہانیاں جو ایک سے بڑھ کر این عبرتناک ہے۔ سر زخم سے جُھک جاتے ہیں۔ جب حکومت اپنے شہریوں کو مٖید بردہ سمجھتے ہوئے فروخت کر دے۔ اپنے معسوم شہریوں کو دہشت گردی میں مرے مارے جانے دے کہ ظلم ظلم اور دہشت دہشت گردی کی گردان کر نے میں آسانی رہے گی۔ پوری قوم کو جاگزار بنا لیا جائے۔ واحد مقصد بدلے میں ملی بھیک ، امدا ، خیرات سے اپنے جیبیں بھرنا ہو تو کس کو پڑی ہے کہ غریب عوام یا پشاور ائرپورٹ پہ خوار ہونے والوں کی پرسان حالی کرے۔ ان بے بس لوگوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کوئی ائر لائن کرے یا سرکاری اہلکار۔ حکومت کی بلا سے ۔
یہ وہی حکومت اور اس کے ادارے ہیں کہ غریب عوام کے آخری قطرے تک کوکشید کر لیتے ہیں مگر بدلے میں انہیں ذلت اور خواری کے کچھ نہیں دیتے۔ ہماری حکومت آئے دن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں یہ کہہ کر بڑھا دیتی ہے کہ یہ تو مجبوری ہے۔ عالمی مہاجنوں کی شرائط پوری نہ کیں تو مزید قرضہ نہیں ملے گا۔ اب سوچنے کی بات ہے بہتر ہو کہ یہ قرضے ملے ہی نہیں کہ یہ قرضے کب غریب آدمی جو پاکستان کی بہت بڑی اکثریت ہیں ۔ انہیں کب امداد دی گئی ۔ کب تعلیم و ہنر اور عام آدمی کی سہولت کے لئیے اسے خرچ کیا گیا ۔ کب اور کتنا ؟؟ ۔ یہ بہت بڑے بڑے سوال ہیں جن کا جواب کوئی نہیں دیتا مگر پاکستان کی اسی فیصد کے لگ بھگ آبادی جو خالص پاکستانی اور مقامی طور پہ اپنے زندہ رہنے کی زندہ درگو کوشش کرتی ہے ۔ اس اسی فیصد آبادی کو کیونکر عالمی مہاجنوں کی خاطر بھینٹ چڑ ھایا جاتا ہے؟ جب پاکستان کی اسقدر کثیر آبادی عالمی امداد کے بغیر اپنے شب و روز گھسیٹتی ہے تو کیا یہ ظلم نہیں کہ مرے پہ سو دُرے کے مصداق وہ پاکستان کی دس فیصد بادشاہ لوگوں کے ذاتی کھاتوں میں اندراج ہوجانے والا غیر ملکی قرضہ اتارے؟ ایک عام سا کسان یا مزدور کیونکر عالمی مہاجنوں کا قرضدار ٹہرے؟۔ مگر صاحب یہ پاکستان ہے آپ دیکھ لیں حکومت زندہ رہنے کے لئیے بنیادی اشیاء ضروریہ جو پیدا پاکستان میں ہوتی ہیں ۔ بنتی پاکستان میں ہیں ۔ جن کے بنانے اور اگانے والے پاکستانی ہیں اُن پہ بھی کس قدر دیدہ دلیری سے نئے قرضوں کے حصول اور انہیں ھڑپ کرنے کی خاطر عالمی مہاجنوں کی شرائط پورا کرتے ہوئے اُن بنیادی اشائے ضروریہ پہ بھی واجبات لھانے سے نہیں چوکتی۔حکومت شرم سے عاری ہو چکی ہے ۔غیرت ان میں پہلے ہی سے نہیں تھی ۔ مسئلہ یہ نہیں یہ بجلی کی قیمت چڑھی ہے ۔ یہ پیٹرول چڑھا ہے۔ یہ چینی مہنگی ہوئی ہے۔ یہ آٹا مہنگا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسی فیصد آبادی کی خالی جیب میں سے پہلے سے مہنگی بجلی کی بڑھائی گئی قیمت ۔ پہلے سے مینگی چینی ، آٹا دال وغیرہ کی بڑھائی گئی قیمتوں کے اضافے کے روپے خالی جیب سے کیسے برآمد ہوں۔؟ آئے روز لوگ بھوک کے ہاتھوں اپنےمعصوم بچوں کو قتل کر کے گلے میں پھندا ڈال کر جھول جاتے ہیں۔ خودکشی کر لیتے ہیں۔ جو مر نہیں سکتے وہ بچے بیچ رہے ہیں۔ عزتیں بیچ رہے ہیں۔ غریب عوام کے پاس باقی چارہ بھی کیا بچتا ہے؟۔

مشرق وسطٰی کی ائر لائن کے کرتا دھرتاؤں کو ہماری اوقات کا علم ہے۔ وہ چاہیں تو صرف ایک ماہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئیے پاکستانی مسافروں کو یونہی ذلیل کر سکتے ہیں۔ جس قوم کے حکمران ضمیر فروش ہوں اس قوم کے حصے میں ظلم سہنے کے عوض عزت فروشی آتی ہے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم !۔
آپ سے پہلے بھی ایک دفعہ عرض کرچکا ہوں کہ لوگوں تو زخموں کو چھیڑتے ہیں مگر آپ ہمارے زخموں میں پورا ہاتھ گھسیڑ دینے سے باز نہیں آتے۔
اس بد نصیب قوم جس کا نام پاکستانی ہے ۔ اس بارے ایک نہیں ہزاروں کہانیاں جو ایک سے بڑھ کر این عبرتناک ہے۔ سر زخم سے جُھک جاتے ہیں۔ جب حکومت اپنے شہریوں کو مٖید بردہ سمجھتے ہوئے فروخت کر دے۔ اپنے معسوم شہریوں کو دہشت گردی میں مرے مارے جانے دے کہ ظلم ظلم اور دہشت دہشت گردی کی گردان کر نے میں آسانی رہے گی۔ پوری قوم کو جاگزار بنا لیا جائے۔ واحد مقصد بدلے میں ملی بھیک ، امدا ، خیرات سے اپنے جیبیں بھرنا ہو تو کس کو پڑی ہے کہ غریب عوام یا پشاور ائرپورٹ پہ خوار ہونے والوں کی پرسان حالی کرے۔ ان بے بس لوگوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کوئی ائر لائن کرے یا سرکاری اہلکار۔ حکومت کی بلا سے ۔
یہ وہی حکومت اور اس کے ادارے ہیں کہ غریب عوام کے آخری قطرے تک کوکشید کر لیتے ہیں مگر بدلے میں انہیں ذلت اور خواری کے کچھ نہیں دیتے۔ ہماری حکومت آئے دن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں یہ کہہ کر بڑھا دیتی ہے کہ یہ تو مجبوری ہے۔ عالمی مہاجنوں کی شرائط پوری نہ کیں تو مزید قرضہ نہیں ملے گا۔ اب سوچنے کی بات ہے بہتر ہو کہ یہ قرضے ملے ہی نہیں کہ یہ قرضے کب غریب آدمی جو پاکستان کی بہت بڑی اکثریت ہیں ۔ انہیں کب امداد دی گئی ۔ کب تعلیم و ہنر اور عام آدمی کی سہولت کے لئیے اسے خرچ کیا گیا ۔ کب اور کتنا ؟؟ ۔ یہ بہت بڑے بڑے سوال ہیں جن کا جواب کوئی نہیں دیتا مگر پاکستان کی اسی فیصد کے لگ بھگ آبادی جو خالص پاکستانی اور مقامی طور پہ اپنے زندہ رہنے کی زندہ درگو کوشش کرتی ہے ۔ اس اسی فیصد آبادی کو کیونکر عالمی مہاجنوں کی خاطر بھینٹ چڑ ھایا جاتا ہے؟ جب پاکستان کی اسقدر کثیر آبادی عالمی امداد کے بغیر اپنے شب و روز گھسیٹتی ہے تو کیا یہ ظلم نہیں کہ مرے پہ سو دُرے کے مصداق وہ پاکستان کی دس فیصد بادشاہ لوگوں کے ذاتی کھاتوں میں اندراج ہوجانے والا غیر ملکی قرضہ اتارے؟ ایک عام سا کسان یا مزدور کیونکر عالمی مہاجنوں کا قرضدار ٹہرے؟۔ مگر صاحب یہ پاکستان ہے آپ دیکھ لیں حکومت زندہ رہنے کے لئیے بنیادی اشیاء ضروریہ جو پیدا پاکستان میں ہوتی ہیں ۔ بنتی پاکستان میں ہیں ۔ جن کے بنانے اور اگانے والے پاکستانی ہیں اُن پہ بھی کس قدر دیدہ دلیری سے نئے قرضوں کے حصول اور انہیں ھڑپ کرنے کی خاطر عالمی مہاجنوں کی شرائط پورا کرتے ہوئے اُن بنیادی اشائے ضروریہ پہ بھی واجبات لھانے سے نہیں چوکتی۔حکومت شرم سے عاری ہو چکی ہے ۔غیرت ان میں پہلے ہی سے نہیں تھی ۔ مسئلہ یہ نہیں یہ بجلی کی قیمت چڑھی ہے ۔ یہ پیٹرول چڑھا ہے۔ یہ چینی مہنگی ہوئی ہے۔ یہ آٹا مہنگا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسی فیصد آبادی کی خالی جیب میں سے پہلے سے مہنگی بجلی کی بڑھائی گئی قیمت ۔ پہلے سے مینگی چینی ، آٹا دال وغیرہ کی بڑھائی گئی قیمتوں کے اضافے کے روپے خالی جیب سے کیسے برآمد ہوں۔؟ آئے روز لوگ بھوک کے ہاتھوں اپنےمعصوم بچوں کو قتل کر کے گلے میں پھندا ڈال کر جھول جاتے ہیں۔ خودکشی کر لیتے ہیں۔ جو مر نہیں سکتے وہ بچے بیچ رہے ہیں۔ عزتیں بیچ رہے ہیں۔ غریب عوام کے پاس باقی چارہ بھی کیا بچتا ہے؟۔

مشرق وسطٰی کی ائر لائن کے کرتا دھرتاؤں کو ہماری اوقات کا علم ہے۔ وہ چاہیں تو صرف ایک ماہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئیے پاکستانی مسافروں کو یونہی ذلیل کر سکتے ہیں۔ جس قوم کے حکمران ضمیر فروش ہوں اس قوم کے حصے میں ظلم سہنے کے عوض عزت فروشی آتی ہے۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com