Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, November 06, 2010

زمبابوے نے مبارک کیوں نہیں دی؟

صورت حال دلچسپ سے دلچسپ تر ہو رہی ہے۔ ایک طرف عبدالستار ایدھی نے کہا ہے کہ مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اسے روکا نہ گیا تو خونی انقلاب آئے گا۔ ایدھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کا جینا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ اس کے پاس دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں پندرہ کروڑ افراد صرف ایک سو ستر روپے روزانہ کما پاتے ہیں۔
 دوسری طرف قاف لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر زیادہ چیخ و پکار نہ کریں۔ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب ہر شخص کی آمدنی اچھی ہے۔
 تیسری طرف ایک سعودی شہزادے نے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ پاکستانی حکام حاجیوں کی رہائش گاہیں جس طریقِ کار اور جن نرخوں پر لے رہے ہیں اس میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ وزارت مذہبی امور نے اس کا زبردست جواب دیا ہے۔ ایسا جواب جو مکمل خاموش کر دے۔ وزارت نے کہا ہے کہ یہ خط جعلی ہے! داغ دہلوی نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا؎

پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں

جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

اگر سعودی شہزادے کو یہ ثابت کرنا پڑا کہ خط جعلی نہیں تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہمارا متعلقہ محکمہ شہزادے ہی کو جعلی قرار دے۔

چوتھی طرف ایک ثقہ بین الاقوامی ادارے نے خوشحال ملکوں کی فہرست (انڈیکس) جاری کی ہے جس کی رو سے پاکستان کا نمبر 109 ہے۔ یعنی 108 ملک پاکستان سے زیادہ خوشحال ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اس فہرست میں کتنے ملک شامل ہوں گے؟ کئی سو؟ نہیں اس انڈیکس میں کل ایک سو دس ملک شامل ہیں اور ان ایک سو دس ملکوں میں ایک ملک (زمبابوے) ایسا بھی ہے جو پاکستان سے بھی گیا گزرا ہے۔

اس ادارے کو ہمارا جواب یہی ہونا چاہیے کہ یہ فہرست جعلی ہے! جب کئی سال کی جدوجہد کے بعد بین الاقوامی ادارہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ فہرست جعلی نہیں ہے اصلی ہے تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ فہرست اصلی بھی ہے تو کیا ہوا خود ادارہ ہی جعلی ہے!
لیکن یہ فہرست اور یہ ادارہ ذرا ہماری سنجیدہ توجہ کا حق دار ہے اس لئے اس مسئلے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

لیگاٹم (Legatum)
انسٹی ٹیوٹ ایک آزاد اور غیر جانبدار تنظیم ہے جو خوشحالی کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہے۔ یہ تنظیم سرمایہ کاری بھی کرتی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے۔ گزشتہ دس برس میں اس تنظیم میں سو سے زیادہ ملکوں میں پندرہ سو منصوبے کامیابی سے چلائے ہیں اور یہ سارے منصوبے کم آمدنی والے لوگوں کے نکتہ نظر سے ترتیب دیئے گئے تھے۔ یہ ادارہ خوشحالی کو صرف مادی یا مالی حوالوں سے نہیں دیکھتا بلکہ مجموعی لحاظ سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ خوشحالی کی تعریف کرتے وقت انسانی حقوق، سیاسی آزادی، مذہبی آزادی، معاشی آزادی، سیکورٹی اور معیارِ زندگی کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ ادارے کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ آمریت زدہ ملک ترقی نہیں کر سکتے جو ریاستیں انصاف بہم نہیں پہنچاتیں ان میں انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور دہشت گردی عوام کا مقدر بنتی ہے اگر دولت میں اضافہ ہو رہا ہو لیکن جمہوریت اور انصاف کا فقدان ہو تو یہ دولت غلط مقاصد کے لئے استعمال ہو گی اور اس سے جعلی خوشحالی تو وجود میں آ سکتی ہے حقیقی خوشحالی نہیں پیدا ہو سکتی۔ کرپشن، معاشی خوشحالی کا گلاگھونٹ دیتی ہے اور ملک بین الاقوامی جرائم کا گڑھ بن جاتا ہے۔ کرپشن سے ناجائز اسلحہ بھی بڑھتا ہے۔ ایک جامع ترقی وہی ہو گی جس میں ان سارے مسائل سے نمٹا جائے اور لوگوں کو معاشی خوشحالی کے ساتھ اطمینان اور اپنے ملک پر اعتماد بھی ہو دوسرے لفظوں میں یہ ادارہ خوشحال ملکوں کی فہرست ترتیب دیتے ہوئے انسانی وقار، آزادی انصاف اور امن وامان کے محرکات بھی جانچتا ہے۔

یہ ادارہ کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک زیادہ خوشحال ہے اور کون سا کم؟ اس میں بنیادی کردار دو چیزوں کا ہے دولت اور فلاح وبہبود۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے اور شاید بدترین بھی۔ دنیا کے امیر ترین افراد اس ملک میں موجود ہیں اس ملک کے امرا کی دولت جدہ سے لندن اور نیویارک تک پھیلی ہوئی ہے لیکن عوام کی فلاح وبہبود صفر ہے۔
یہ ادارہ دنیا کے ایک سو دس ملکوں کو آٹھ پہلوؤں سے جانچتا ہے اور یہ آٹھ پہلو خوشحالی یا بدحالی کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

 معیشت، مستحکم اور پھلتی پھولتی معیشت فی کس شرح آمدنی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور لوگوں کی فلاح کا بھی خیال رکھتی ہے۔

۔: بزنس کے مواقع ایسی فضا جس میں لوگ بزنس کے مواقع آسانی سے حاصل کر لیں، خوشحالی کے لئے از حد لازمی ہے لیکن اگر لوگ اس خوف میں مبتلا ہوں کہ ہم بزنس کریں تو کیا خبر انکم ٹیکس والے کیا سلوک کریں؟ بجلی اور گیس بہم پہنچے یا نہ اور امن وامان کی صورت حال مخدوش ہو تو بزنس کے قریب بھی کوئی نہیں پھٹکے گا۔
۔ اندازِ حکومت 

 تعلیم،
 صحت،
  حفاظت اور امن وامان،
  شخصی آزادی،
  باہمی اعتماد اور وعدوں کی پاسداری۔
 ان عوامل کی روشنی میں اس ادارے نے اعداد وشمار اکٹھے کئے اور خوشحالی کی سطح طے کرتے وقت اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ ایک عام آدمی کو صحت اور تعلیم کے بجٹ میں سے کتنا حصہ ملتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کتنا محفوظ خیال کرتا ہے۔ فہرست میں ٹاپ کے دس ملکوں میں ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سویڈن، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور امریکہ شامل ہیں۔ دس بدحال ترین ملکوں میں زمبیا،کیمرون، موزمبیق، کینیا، یمن، نائیجیریا، ایتھوپیا، سنٹرل افریق ریپبلک، پاکستان اور زمبابوے شامل ہیں۔ مسلمان ملکوں میں متحدہ عرب امارات (یو، اے ای) پہلے نمبر پر ہے اور فہرست میں اس کا نمبر تیس ہے۔ کویت 31 ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا 43 ہے۔ ٹیونس 48 ہے، سعودی عرب 49 نمبر پر ہے، بھارت کا نمبر 88 ہے اور بنگلہ دیش کا نمبر 96 ہے۔ اگر یہ فہرست اسلام دشمنی پر مبنی ہوتی تو یقینامتحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور سعودی عرب کی پوزیشن اتنی اچھی نہ ہوتی۔ ہم پاکستانیوں کو ایک احساسِ کمتری یہ بھی ہے کہ جو سچ ہمیں کڑوا لگے ہم اسے اسلام دشمنی قرار دیتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ زمبابوے نے اب تک ہمیں مبارک باد نہیں دی۔


















4 comments:

محمد وارث said...

لعنۃ اللہ علی الظالمین (و الحاکمین)۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم!۔
آپ نے لیگاٹم(Legatum) انسٹیوٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو ریاستیں انصاف بہم نہیں پہنچاتیں ان میں انتہا پسندی جنم لیتی ہے (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) جمہوریت اور انصاف کا فقدان ہو تو یہ دولت غلط مقاصد کے لئے استعمال ہو گی اور اس سے جعلی خوشحالی تو وجود میں آ سکتی ہے حقیقی خوشحالی نہیں پیدا ہو سکتی۔ کرپشن، معاشی خوشحالی کا گلاگھونٹ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک فرمان ہے کہ "ریاست کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے قائم نہیں رہ سکتی"۔ تنگدستی اور کفر کے درمیان باریک سی حد ہوتی ہے۔ یہ ظلم کی انتہاء نہیں کہ عامتہ الناس کو بھوک کے عفریت میں دھکیلا جارہا ہے ۔ بھوک سے مجبور لوگ اپنے معصوم بچے تک بیچنے کو تیار ہیں مگر ریاست جو عوام کے مفادِ عامہ کی ذمہ دار ہوتی ہے اور قدیم یونانی دور سے ریاست کا تصور اپنے عوام کے تحفظ پہ مبنی ہے۔ تحفظ جس میں امن عامہ سمیت معاشی و اقتصادی یعنی ہر قسم کا تحفظ شامل ہے جبکہ کہ ہماری حکومتیں جو ریاست پاکستان میں پاکستانی عوام کے ہر قسم کے تحفظ کی ذمہ دار ہیں وہی حکومتیں اور حکمران طبقہ ۔ اشرافیہ اور انتظامیہ بجائۓ خود چور اور عوام کو لُوٹنے کھسوٹنے والے ہیں ۔

پاکستان میں کسی بھی عام طبقے کا فرد خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا متمول تاجر صبح سے لیکر شام تک لُٹتا ہے اور اکثر و بیشتر لوٹنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں عوام تنخواہ ، وردی ، اعلٰی مراعات محض اسلئیے مہیاء کرتے ہیں کہ وہ عوام کے مفادات عامہ کی حفاظت کریں ۔ اسمیں پولیس سے لیکر محصولات کی وصولی۔ عدلیہ، علاقے کے حکومتی نمائیندے یعنی پی این اے ، ایم این اے ، قسم قسم کے انکے چمچے چیلوں سمیت خدا جانے کارِ سرکار کے کون کون سے اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ عام آدمی ہر موڑ پہ لٹتا ہے اور کوئی اسکی فریاد سننے والا نہیں ۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں وہ پاکستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ "پاکستان میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں ۔ لُٹنے والے اور لُوٹنے والے اور بس"۔ اور جب لُٹنے والا صبح سے شام لُٹتا ہے۔ کبھی جنرل ٹیکس کے نام کبھی کسی ٹیکس کے نام پہ کبھی کسی فیس کے نام پہ ۔ اب تو پاکستان میں لُوٹ کھسوٹ کا عالم یہ ہےکہ اساتذہ اور ڈاکٹر صاحبان جنہیں کسی دور میں قوم کے مسیحٰا کہا جاتا تھا وہ بھی نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ بغیر کسی خاص وجہ کے آپریشن کے نام پہ مریض کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اساتذہ ماسوائے مہنگی ترین ٹویشنز کے علاوہ اپنے فرض منصبی کو تعلیمی اداروں میں نبھانے کو تیار نہیں۔

اسلامی روایات یا سماجی اخلاقی اقدار کا یہ عالم ہے کہ بجلی والوں سے لائن لینی ہو ۔ میٹر لگوانا ہو تو چھ بار کے حاجی اور بڑے شوق سے اپنے آپ کو الحاج فلاں ابن فلاں کہلوانے والے کوئی بزرگ عمر کے لحاظ سے قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہونگے مگر جونہی انکے کان میں بجلی کی لائن سے متعلقہ آپ کا مسئلہ انکے کان میں پڑے گا ۔ آپ سے بغیر کسی جان پہچان کے وہ فوراََ سے بیشتر آپ کو نادر مشورہ منڈھ دیں گے " بیٹا جی۔ آپ لائن مین کومبلغ چار ہزار روپے ہاتھ پکڑائیں ایک ھفتے میں وہ میٹر کا مسئلہ خود ہی حل کرلے گا، ورنہ سال بھر دفاتر میں خوار ہوتے پھریں گے"۔ ممکن ہے بڑے میاں سائل سے ہمدردی کر رہے ہوں اور پریشانی کا ادراک کرتے ہوئے مذید پریشان اور خوار ہونے بچنے کا آسان حل تجویز کر رہے ہوں یعنی یہ عالم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عمر رسیدہ الحاج بھی رشوت کی راہ سجھاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس قدر بڑے گناہ اور فساد خلق خدا کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ کیونکہ رشوت یا کرپشن نہ صرف ناجائز طریقے سے اپنا کام نکلوانے کا نام ہے بلکہ اس کے بہت دورس نتائج معاشرے پہ ناقابل بیاں غلط اثر چھوڑتے ہیں۔ جہاں حقدار اپنے جائز حق سے محروم ہوتا ہے وہیں معاشرہ اور افراد کرپٹ ہوتے ہیں ۔ دولت ناجائز ہاتھوں میں ناجائز طریقے سے جمع ہوجاتی ہے۔ جو شر اور فساد کو طاقت اور اثر و رسوخ عطا کرتی ہے ۔ جس سے پورا معاشرتی نظام شیطانی جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ راشی ہونے سے چور دروازے کُھل جاتے ہیں۔پھر ایسے معاشرے اسی طرح کی عکاسی کرتے ہیں جسطرح کا معاشرہ آج پاکستان میں تعمیر ہورہا۔ پھر فرد یا قوم ، انفرادی یا اجتماعی کسی کی نہ عزت محفوظ ہوتی ہے نہ وقار۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

معاشرے سے اسلامی ، سماجی ہر قسم کی اخلاقیات اور اصول اٹھ چکے ہیں کہ ایک ضعیف العمر الحاج جو غالبا لاعلمی میں عمر کے اس آخری حصے میں لائن مین کو رشوت دلوا کر جہاں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوہے ہیں وہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ ایک معاشرے کو تباہ کرنے والے ٹائم بم کو چابی دے رہے ہیں۔

معاشرے کا ہر طبقہ جو جو کرپشن کو وطیرہ بناتا ہے اسکا ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے تئیں مادی ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھا رہا ہے جبکہ اسے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اسکا آگے بڑھنا عمودی نہیں بلکہ معکوس ہے وہ لگا تار دائرے کا سفر کر رہا ہوتا ہے۔پاکستان مین آج کل ہر طرف ایک ہا ہا کار مچی ہے افراتفری ہے مگر عزت اور برکت کی بجائے معاشرے کی سبھی طبقوں کو رسوائی اور بے برکتی دامن گیر ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عامتہ الناس یعنی عام آدمی کی اخلاقی تربیت کی جائے جب تک ہم اعلٰی اخلاقی روایات نہیں اپنائیں گے تب تک موسیٰ علیۃ والسلام کے گمشدہ قبیلے کی طرح ایک ہی دائرے میں خوار ہوتے رہیں گے۔

قدرت کو جن قوموں کو تباہ کرنا منظور ہوجائے تو قدرت پہلے انکے اخلاق تباہ کرنے کا بندوبست کرتی ہے۔

Anonymous said...

durust farmaya

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com