’’یہ اگست کی بات ہے، ایک سینئر سیاست دان مری جا رہا تھا اسکا روٹ طے ہو چکا تھا اور اسکے مطابق ہی اسکی گاڑیوں کے قافلے کیلئے راستہ ’’صاف‘‘ کر دیا گیا تھا لیکن اس کا روٹ بغیر کسی اطلاع کے تبدیل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ نئی صورتحال میں ٹریفک وارڈنوں کو اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ نئے روٹ پر ٹریفک کو ہٹا سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوئر ٹوپہ کے نزدیک سیاست دان کے قافلے کو کچھ دیر کیلئے رک جانا پڑا۔ فی الفور چیف سیکرٹری سے رابطہ کر کے شکایت کی گئی اور چیف ٹریفک افسر کو طلب کیا گیا۔
چیف ٹریفک افسر نے 30 سے زیادہ ٹریفک وارڈن معطل کر دیئے۔ الزام یہ تھا کہ وہ سیاست دان کے قافلے کو راستہ نہ ’’مہیا‘‘ کر سکے۔ اسکے بعد ایک انکوائری کی گی اور 25 ستمبر کو چار ٹریفک وارڈن ملازمت ہی سے برطرف کر دیئے گئے۔ دس دوسرے وارڈنوں کی ملازمتیں بھی معطل کر دی گئیں اور بیس کیخلاف محکمانہ کارروائی جاری ہے۔ یہ سب کچھ تو ہوا ہی، اسکے علاوہ یہ بھی ہوا کہ آئی جی پنجاب نے مری کے ڈی ایس پی ٹریفک کو بھی معطل کر دیا۔ پیارے ہم وطنو! یہ ہے ہمارا پاکستان!!‘‘
راولپنڈی کے ٹریفک وارڈن کے اس خط کا جو تیس اکتوبر کے اخبارات میں شائع ہوا مجھے تو علم ہی نہیں تھا یہ تو ہلیری کلنٹن جب اسکے دوسرے دن مجھے ملنے میرے غریب خانے پر آئی تو اس نے اس خط کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ پورا اخبار میرے لئے لے آئی، جس اخبار میں ٹریفک وارڈن کا یہ خط چھپا وہ اخبار کراچی، لاہور، اسلام آباد اور لندن سے تو شائع ہوتا ہی ہے انٹرنیٹ پر بھی خطوط کے حصے سمیت ظاہر ہوتا ہے۔
یہ جو میں نے کہا ہے کہ ہلیری کلنٹن میرے گھر آئی تو یہ مذاق نہیں ہے۔ امریکہ کی وزیر خارجہ تو وہ اب بنی ہے میرے ساتھ اسکے مراسم قدیمی ہیں۔ ہم دونوں تقریباً کلاس فیلو ہی تھے جب وہ امریکہ کے شہر پارک رج کے پبلک سکول میں داخل ہوئی تو میں نے بھی اسی سکول میں داخلہ لینا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں داخل ہونا پڑا تاہم یہ جغرافیائی بُعد ہمیں حقیقی ہم جماعت ہونے سے روک نہ سکا۔ پھر جب اس نے میسا چوسٹس کے ویلزلے(WELLESLEY)
کالج میں داخلہ لے لیا تو میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی۔ میں اسے اپنے انتظار میں زیادہ پریشان کرنا بالکل نامناسب سمجھتا تھا بس آخری وقت میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج راولپنڈی میں داخل ہونا پڑ گیا۔ اس نے پولیٹیکل سائنس میں بی اے آنرز کیا ادھر میں نے اکنامکس کیساتھ بی اے پاس کر لیا اور رول آف آنر لیا۔
اسکے بعد تو الگ الگ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا چنانچہ جیسے ہی اس نے نیوہیون کی ییل (YALE)
لا یونیورسٹی میں قانون میں داخلہ لیا تو میں نے بیگ میں اپنے کپڑے اور ٹرنک میں ضروری سامان رکھا اور نیو ہیون جانے کیلئے گھر والوں سے رخصت ہوا لیکن گردش زمانہ نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ہوش آیا تو میں نے اپنے آپکو ڈھاکہ یونیورسٹی کے اکنامکس کے شعبے میں پایا۔
ڈھاکہ امریکہ سے اسلام آباد اور لاہور کی نسبت بھی زیادہ دور تھا لیکن وہ جسے تعلق خاطر کہتے ہیں وہ ہلیری سے بہر صورت برقرار رہا۔
یہ تھا قریبی بے تکلفانہ تعلقات کا وہ پس منظر جس کے حوالے سے ہلیری نے میرے غریب خانے پر آکر مجھ سے ملاقات کی۔ خاندانی لوگوں کا وطیرہ یہی ہوتا ہے جب وہ اقتدار کے عروج پر ہوتے ہیں تو اس وقت بھی دیرینہ مراسم کی لاج رکھتے ہیں یہ تو نیچ لوگ ہوتے ہیں جو ذرا سی خوشحالی اور رمق بھر حکومت دیکھتے ہیں تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو حکومتی راہداریوں سے لے کر میڈیا کی غلام گردشوں تک ایسے کئی ’’خاندانی‘‘ پس منظررکھنے والے بہلول مل جائیں گے۔
میں نے ہلیری کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کی بے پناہ مصروفیات کا ذکر کیا اور اسکی تعریف کی کہ اس صورتحال میں بھی وہ مجھے ملنے آئی اور وہ بھی اس طرح کہ امریکی سفارت خانے کو اس ملاقات کی ہوا لگی نہ اسکے پاکستانی میزبان ہی جان پائے۔ میں نے اسے شکیب جلالی کا شعر سنایا…؎
گلی میں لوگ بھی تھے‘ میرے اسکے دشمن لوگ
وہ سب سے چھپ کے مگر میرے پاس آیا تھا
تو وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔
اچانک وہ سنجیدہ ہوگئی اور اخبار پھیلا کر اس نے یہ خط جس کا ترجمہ میں نے اس کالم کے آغاز میں پیش کیا ہے، سامنے رکھ لیا۔ اسکے لہجے میں عجیب دل سوزی تھی اور آنکھوں میں ایک دل گیر خلوص تھا۔
’’دیکھو اظہارالحق، میں اس وقت وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں بات کر رہی میں تو ان دیرینہ مراسم کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہوں جو تمہارے اور میرے درمیان قائم ہوتے ہوتے رہ گئے۔
پولیس کے ایک افسر کا یہ خط تمہارے ملک کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ تمہارا دشمن بھارت ہو یا وہ دہشت گرد جو دھماکے کر رہے ہیں، اسرائیل ہو یا امریکہ، تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ یہ ذہنی سطح جس کا اس خط میں سراغ ملتا ہے تمہاری سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ ذہنی سطح‘ یہ طرز عمل‘ یہ
MIND-SET
جس قوم میں بھی ہو وہ ہمیشہ
ذلت کی گہرائیوں میں رہتی ہے اور یہ طرز عمل یہ
MIND-SET
صرف ایک سیاست دان کا نہیں، تمہاری قوم کے ہر فرد میں ہے۔ جو بی اے کر لے وہ اپنا سامان خود نہیں اٹھاتا، نواز شریف‘ آصف زرداری‘ الطاف حسین‘ چودھری شجاعت حسین کا تو ذکر ہی کیا۔ تمہارے ہاں تو سینٹ اور اسمبلیوں کے ارکان عام لوگوں سے نہیں ملتے۔
رینجر کا کمانڈر ہو یا ڈپٹی کمشنر‘ ضلع ناظم ہو صوبائی نوکر شاہی کا کوئی رکن‘ قانون پائوں کی جوتی تلے روندا جاتا ہے، تمہارے منتخب نمائندوں اور نوکر شاہی کے پرزوں میں اس قدر شدید احساس کم تری ہے کہ وہ جہاز کی اکانومی کلاس میں بھی سب سے آگے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں یہ نشستیں ان خواتین کیلئے مخصوص ہوتی ہیں جن کی گود میں بچے ہوں۔
دنیا کے کسی مہذب ملک کو دیکھ لو، سنگاپور ہے یا سوئٹزر لینڈ، سویڈن ہے یا فرانس، کینیڈا ہے یا آسٹریلیا، کسی کیلئے ٹریفک روکی جاتی ہے نہ پولیس کے افسروں اور جوانوں کو اس لئے سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے ٹریفک کیوں نہیں روکی۔ اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ذہنی پس ماندگی ہے جس کی رو سے سڑکوں پر ٹریفک روکی جاتی ہے۔ محلات پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور لوگوں کو ملنے سے اجتناب برتا جاتا ہے، جس ملک کی سیاسی جماعتوں کے اجلاس بھوربن کے فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوں وہ ملک ہمیشہ دوسروں کا غلام رہتا ہے اور جس ملک میں سیاست دان‘ سیاسی جماعت کے رہنما کے بعد اس رہنما کی اولاد کے سامنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اس ملک کو غلام بنانے کیلئے کیری لوگر بل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیری لوگر بل تو احساس کم تری کے مارے ہوئے ہر اس کھرب پتی کے ذہن میں ہے جو اپنی دولت میں تو عوام کو کیا شریک کرے گا، شاہراہیں تک عوام سے چھین لینا چاہتا ہے!!!‘‘
No comments:
Post a Comment