اس کوشش میں عرصہ ہی لگ گیا، اس اثنا میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کا منصب چھوڑتے وقت، اپنے جانشین کے طور پر جو تین نام تجویز کئے، ان میں سرفہرست اس فقیر کا نام تھا۔ ملک صاحب کی منطق یہ تھی کہ نفاذ اردو کیلئے زمین ہموار ہو چکی ہے اور اب مقتدرہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو بیوروکریسی سے، کسی احساس کم تری کے بغیر بات کرسکے اور افسر شاہی کے اندر اور باہر کو بخوبی جانتا ہو، ظاہر ہے حکومت کا ظاہری مرکز اسلام آباد لیکن اصل مرکز ملتان تھا۔ پینل میں شامل ایک اور دوست ملتان سے تھے اور نظریاتی طور پر بھی وہ اربابِ حل و عقد کو زیادہ راس آسکتے تھے۔ میرا نام سرفہرست ہونے پر ذوالکفل بخاری کی مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ پی آر میں صفر ہونے کی وجہ سے میری کامیابی کا کوئی امکان نہیں، لیکن اس نے نظریاتی طور پر صف بندی کرلی اور میرے لئے کوششیں کرنے لگا۔ نظریاتی حوالے سے اپنے (اور میرے) کسی نہ کسی حوالے سے اسے مقتدرہ اور اوپر کے فیصلہ سازی کے مرکزوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں اور وہ مجھے معاملے کی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا۔ اس کی بے تابی سے بعض اوقات مجھے شبہ ہونے لگتا کہ مقتدرہ کے سربراہ کیلئے میرا نہیں، بلکہ اس کا نام زیر غور تھا! لیکن یہ محض اس کا خلوص، بے غرضی اور وہ بلند مقام تھا جس پر وہ شخصیت اور کردار کے حوالے سے فائز تھا! بعد میں یوں ہوا کہ اس فہرست میں سے وزیراعظم نے کسی کو بھی نہ چُنا اور قرعۂ فال ایک بار پھر دوستِ مکرم جناب افتخار عارف کے نام نکل آیا۔ ذوالکفل کو معلوم ہوا تو اس نے مجھے ٹیلی فون کیا۔ وہ بالکل بجھا ہوا اور خاموش سا تھا لیکن میں نے اسے یاد دلایا کہ اس میں ہمارے لئے ضرور کوئی بہتری ہوگی۔ اسے جب میں نے بتایا کہ جناب افتخار عارف کی تعیناتی میرے لئے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کیونکہ میرے ذاتی تعلق کے علاوہ ان کا جو گہرا اور والہانہ تعلق والد گرامیؒ سے رہا اور ہے، اس کے پیش نظر وہ میرے لئے بہت محترم ہیں اور میں اس محبت اور احترام کو ایک لمحے کیلئے بھی پس پشت نہیں ڈال سکتا جو جناب افتخار عارف کے باطن اور ظاہر میں والد گرامی کیلئے تھا۔ اس پر وہ لمحۂ یاس جو اس پر طاری تھا، گزر گیا۔
رواں سال کا کوئی ابتدائی مہینہ تھا۔ فروری یا مارچ، ٹھیک سے یاد نہیں، ذوالکفل کا فون آیا کہ وہ سعودی ویزے کے سلسلے میں اسلام آباد آرہا ہے۔ وہ کام سے فارغ ہو کر میری قیام گاہ پر آگیا۔ شام کو اس نے رخصت ہونے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے جانے نہ دیا۔ اس رات وہ میرے پاس ٹھہرا۔ میری اہلیہ اپنی بیٹی اور نواسوں کو ملنے لاہور گئی ہوئی تھی اور مجھے قلق تھا کہ ذوالکفل کی کماحقہ خاطر مدارت نہ ہوسکے گی۔ ہر پوری شام باتیں کرتے رہے اور احساس ہی نہ ہوا کہ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو اسلام کی روح کو روحِ عصر کے حوالے سے سمجھ سکتے تھے۔ اس کے ایک عقیدت مند نے ایک ملازمت کی پیشکش جب صرف اس وجہ سے ٹھکرانا چاہی کہ وہاں انگریزی لباس پہننا پڑتا تھا تو ذوالکفل نے اسے منع کیا اور سمجھایا کہ صرف لباس کی وجہ سے نہ جا کہ بہت سے وہ کام کس طرح کئے جاسکیں گے جو ایک اچھا مسلمان ہی کرسکتا ہے۔
چند دن بعد اس نے مکہ یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت کرلی۔ فون پر اس نے بتایا کہ اب وہ مکہ شریف میں رہائش پذیر ہے۔ خانوادہ آنے والا ہے اور یہ کہ میں اہل و عیال کے ساتھ آئوں تو خوب رونق رہے گی۔ اپریل میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں میرا جدہ جانا ہوا۔ میں عمرہ کیلئے حرم پہنچا تو ذوالکفل میر امنتظر تھا۔ عرب لباس میں وہ ایک وجیہہ شہزادہ لگ رہا تھا۔جتنی دیر میں عمرہ کرتا رہا، وہ مقررہ جگہ پر انتظار کرتا رہا۔ عمرہ ختم ہوا اور حجام کے پاس گئے تو اس کے حجام سے قینچی لے کر میرے بالوں کی ایک لٹ اپنے ہاتھوں سے کاٹی۔ اس نے فاسٹ فوڈ ریستوران سے ڈھیر سارا کھانا خریدا اور ہم حرم کے جوار میں بیٹھ کر، پہروں باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن شام گئے وہ جدہ پہنچ گیا اور گردش زمانہ سے کچھ وقت ہم نے پھر چھین لیا۔دو ماہ پہلے اس نے رمضان ملتان میں گزارا۔ فون پر بات ہوئی تو میں نے اصرار کیا کہ شاہ صاحب! اسلام آباد کو اپنے قدموں سے تھوڑی دیر ہی کو سہی، سرفراز فرما جایئے، لیکن ذوالکفل رمضان کے فوراً بعد مکہ مکرمہ واپس چلا گیا۔دس بارہ دن پہلے میں گھر کے لائونچ میں بیٹھا تھا۔ ایک طرف اخبارات کا پلندہ تھا اور دوسری طرف لیپ ٹاپ کھلا تھا۔ عجیب اداس اور پھیکی شام تھی۔ میں نے بیزار ہو کر سامنے پڑا ہوا ٹی وی بندکردیا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ حافظ صفوان تھے۔ مجھے اچنبھا ہوا۔ حافظ صاحب ای میل پر ہروقت رابطے میں رہتے ہیں لیکن فون پہلی بار آیا تھا۔ کاش نہ آتا! ذوالکفل شہرِ امن مکہ کی ایک گلی میں ٹریفک کے حادثے کی نذر ہوگیا۔ مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کیا کروں، کس سے بات کروں، المیہ یہ تھا کہ رونا بھی نہیں آرہا تھا۔ ملتان خالد مسعود کو فون کیا معلوم ہوا وہ امریکہ میں ہے۔ امریکہ کا فون لیکر وہاں اس سے بات کی لیکن ہزار دوستوں سے بھی بات کرلینے سے سینے کے اندر جو آگ سی لگی ہوتی ہے، کہاں بجھتی ہے! میں ڈرائنگ روم میں چلا گیا، جس جگہ وہ بیٹھا رہا تھا، وہاں بیٹھ کر اندھیرے میں آنسو بہائے۔ شائستگی، شرافت، حلم اور محبت کا ایک پیکر تھا، جو رخصت ہوگیا۔ کیا رومی نے دیوانِ شمس تبریز کا یہ شعر ذوالکفل ہی کیلئے نہیں کہاتھا؟…؎
بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد
گماں مبر کہ مرا فکرِ این و آں باشد
No comments:
Post a Comment