سرپر بال کسی زمانے میں ہوں گے، اب نہیں تھے جو جھالر کی صورت میں باقی تھے، سفید تھے۔ جُھریوں کا لشکر چہرے کی طرف ہر اول دستہ بھیج چکا تھا اور چہرے کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر چکا تھا۔ لہجے میں دُکھ تھا۔ بے پناہ دُکھ۔ احتجاج تھا، ایسا احتجاج کہ اگر اس کا بس چلتا تو شاہراہ دستور پر واقع طاقتور ’’اداروں‘‘ کو وہ ضرور تہس نہس کر دیتا۔
’’میں نے حکومت پاکستان کو اپنی زندگی کا بہترین حصہ دیا۔ اڑتیس سال۔ دیانت داری سے کام کیا۔ حکومت کے خزانے کے اربوں کھربوں روپے بچائے اور حکومت نے میرے ساتھ کیاکیا؟ ریٹائرمنٹ پر ایک پلاٹ دیا تاکہ میں گھر بنا کر سر چھپا سکوں لیکن ایسی جگہ جہاں اگلے دس سال تک گھر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہاں تو گائوں کے گائوں آباد ہیں۔ وہاں تو سڑک تک نہیں بنی اور وہ جو ساری زندگی ’’صحیح‘‘ طریقے سے ’’نوکری‘‘ کرتے رہے، انہوں نے راتوں رات اپنے پلاٹ ’’وی آئی پی‘‘ سیکٹروں میں ’’منتقل‘‘ کرا لئے، یہ ہے اس حکومت کا انصاف!‘‘
اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اُس کیلئے پانی منگوایا اور تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ کی شکایت حق بجانب ہے، لیکن ایسا تو بہت سے سرکاری ملازموں کے ساتھ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟‘‘ … ’’حل بہت آسان ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا ’’سول سرکاری ملازموں کے گھروں اور پلاٹوں کے منصوبے پاکستان آرمی کے سپرد کردیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی پلاٹوں پر تعمیر شروع کرنی ممکن ہو جائے گی!‘‘
وہ تو رو دھو کر، دل کا غبار نکال کر چلا گیا اور مجھے وہ خط یاد آنے لگے جو وقتاً فوقتاً اخبارات میں پڑھنے والوں کی طرف سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے کئی خطوط یاد آئے جن میں سرکاری ملازموں نے مطالبہ کیا تھا کہ سول حکومت کے رہائشی منصوبے فوج کے ذمے لگائے جائیں تاکہ وقت پر مکمل ہو سکیں۔
ملک کی تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ فوجی آمروں کے ہاتھ سے سیاہ ہو چکا ہے۔ کسی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا اور کوئی نوے دن کے وعدے کو کھینچ کر گیارہ سال تک لے گیا اور کوئی قاف لیگ کے کندھے پر بیٹھ کر نوسال تک قوم کا منہ چڑاتا رہا، لیکن کیا فوج بطور ادارہ اسکی ذمہ دار ہے؟ نہیں! اور اگر ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہوں کیخلاف فوج نے بغاوت نہیں کی تو یہ بھی فوج کے محاسن میں سے ہے‘ اس لئے کہ جن ملکوں کی فوجیں تقسیم ہو کر آپس میں لڑنے لگتی ہیں اُن پر تاریخ رشک کرتی ہے نہ اُن کی ہم عصر دنیا!
اِس وقت پورے سرکاری سیکٹر میں مسلح افواج ہی وہ ادارہ ہیں جن کے تنظیمی ڈھانچے، اندرونی احتساب اور انٹرنل آڈٹ کا مقابلہ مغربی دنیا کے کارپوریٹ سیکٹر سے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں وقت کی پابندی ہے اور منصوبوں کو وقت پر ختم کرنے کی روایت جو برقرار رکھی جا رہی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایئے! ایک ہفتہ پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو متعلقہ وزارت نے خود بتایا کہ ستر سرکاری مکان سفارشوں کی بنیاد پر الاٹ کئے گئے ہیں۔ سفارش کرنیوالے ’’معززین‘‘ کے اسمائے گرامی بھی اخبار میں شائع ہوئے لیکن وزارتِ عظمیٰ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی!
پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونیوالے فوجی افسروں کو بنے بنائے مکان دینے کا منصوبہ 1980ء میں شروع کیا۔ اس کا ایک طریق کار وضع کیا گیا، قوانین بنائے گئے، ملازمت کے دوران فوجی افسروں کے جی پی فنڈ سے مکانوں کی قیمت اقساط میں لینے کے فارمولے طے کئے گئے۔ اُس وقت سے لیکر آج تک یہ سکیم انصاف کیمطابق چل رہی ہے۔ الاٹمنٹ کے قوانین بھی وہی ہیں اور غالباً ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کسی منظورِ نظر کو کسی عامی پر ترجیح دی گئی ہو۔ ہماری معلومات کیمطابق ریٹائر ہونیوالے کسی فوجی افسر کو بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی۔ اسکے مقابلے میں اسلام آباد کی ہائوسنگ فائونڈیشن کا حال دیکھئے۔ سول ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر بنے بنائے گھر دینے کا یہ منصوبہ 1988ء میں شروع ہوا‘ اب تک
اسکے چار مرحلے
(PHASE) منظرِ عام پر آچکے ہیں اور ہر مرحلے
میںالاٹمنٹ کا معیار بدل دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ کچھ کو نوازا جاسکے اور کچھ کی تذلیل کی جاسکے۔ پہلے مرحلے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بنے بنائے گھر دیئے جائینگے۔ یہ منصوبہ بُری طرح ناکام ہوا۔ بعد کے تین مرحلوں میں پلاٹ دیئے گئے اور ہر بار طریقِ کار نیا وضع کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ جن سرکاری ملازموں کو ریٹائر ہوئے دو دو سال ہو چکے ہیں وہ بھی جی۔14 میں گھر نہیں بناسکتے! یہاں مجھے سلیم بہادر خان یاد آرہے ہیں۔ 1988ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن کے پہلا مرحلہ کا آغاز ہوا تو سلیم بہادر خان پاکستان ایئرفورس کے مالی مشیر تھے۔ مالی مشیر اور اُس کا محکمہ وزارتِ خزانہ کا حصہ ہوتا ہے۔ سلیم بہادر خان حافظ رحمت خان روہیلہ کے خاندان سے ہیں اور اُسی رکھ رکھائو، شرافت اور مہمان نوازی کی صفات سے آراستہ ہیں جو روہیل کھنڈ کے نوابوں میں پائی جاتی تھی۔ انہوں نے ایئرفورس کے کئی اصحابِ ’’قصا و قدر‘‘ کو برج کھیلنا سکھایا لیکن اپنے لئے کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ اسلام آباد ہائوسنگ فائونڈیشن نے سرکاری ملازموں کو مکان دینے کا منصوبہ شروع کیا تو انہوں نے بھی طریق کار کیمطابق درخواست دی لیکن وزارت نے انہیں ’’آگاہ‘‘ کیا کہ چونکہ آپ پہلے سے ہی ایک مکان کے مالک ہیں اسلئے اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سلیم بہادر خان کو بذلہ سنجی سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ ’’میرا‘‘ یہ مکان جسے ہائوسنگ کی وزارت نے ’’دریافت‘‘ کیا ہے، جہاں کہیں بھی ہے، مجھے اس کا محلِ وقوع بتایا جائے تاکہ میں اس پر قبضہ کرسکوں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وزیر صاحب کسی ایسے منظورِ نظر کو نوازنا چاہتے تھے جو معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اس کیلئے خان صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور دھاندلی کی یہ صرف ایک مثال نہیں!
اسکے چار مرحلے
(PHASE) منظرِ عام پر آچکے ہیں اور ہر مرحلے
میںالاٹمنٹ کا معیار بدل دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ کچھ کو نوازا جاسکے اور کچھ کی تذلیل کی جاسکے۔ پہلے مرحلے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بنے بنائے گھر دیئے جائینگے۔ یہ منصوبہ بُری طرح ناکام ہوا۔ بعد کے تین مرحلوں میں پلاٹ دیئے گئے اور ہر بار طریقِ کار نیا وضع کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ جن سرکاری ملازموں کو ریٹائر ہوئے دو دو سال ہو چکے ہیں وہ بھی جی۔14 میں گھر نہیں بناسکتے! یہاں مجھے سلیم بہادر خان یاد آرہے ہیں۔ 1988ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن کے پہلا مرحلہ کا آغاز ہوا تو سلیم بہادر خان پاکستان ایئرفورس کے مالی مشیر تھے۔ مالی مشیر اور اُس کا محکمہ وزارتِ خزانہ کا حصہ ہوتا ہے۔ سلیم بہادر خان حافظ رحمت خان روہیلہ کے خاندان سے ہیں اور اُسی رکھ رکھائو، شرافت اور مہمان نوازی کی صفات سے آراستہ ہیں جو روہیل کھنڈ کے نوابوں میں پائی جاتی تھی۔ انہوں نے ایئرفورس کے کئی اصحابِ ’’قصا و قدر‘‘ کو برج کھیلنا سکھایا لیکن اپنے لئے کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ اسلام آباد ہائوسنگ فائونڈیشن نے سرکاری ملازموں کو مکان دینے کا منصوبہ شروع کیا تو انہوں نے بھی طریق کار کیمطابق درخواست دی لیکن وزارت نے انہیں ’’آگاہ‘‘ کیا کہ چونکہ آپ پہلے سے ہی ایک مکان کے مالک ہیں اسلئے اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سلیم بہادر خان کو بذلہ سنجی سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ ’’میرا‘‘ یہ مکان جسے ہائوسنگ کی وزارت نے ’’دریافت‘‘ کیا ہے، جہاں کہیں بھی ہے، مجھے اس کا محلِ وقوع بتایا جائے تاکہ میں اس پر قبضہ کرسکوں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وزیر صاحب کسی ایسے منظورِ نظر کو نوازنا چاہتے تھے جو معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اس کیلئے خان صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور دھاندلی کی یہ صرف ایک مثال نہیں!
اسلام آباد حکومت کی ’’سنجیدگی‘‘ کا اندازہ لگانا ہو تو سول افسروں کے دفتروں کی دیواروں پر لگے ہوئے لکڑی کے بورڈوں کا ’’مطالعہ‘‘ کیجئے۔ ان بورڈوں پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کون کون سے افسر کتنا کتنا عرصہ اس دفتر میں رہے۔ اگران تمام بورڈوں پر درج شدہ اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو ایک دلچسپ تجزیہ سامنے آئے گا۔ تین سالہ مقررہ میعادِ عہدہ پر عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ کہیں تو دس دس سال تک ایک ہی شخص بیٹھا ہے اور کہیں چند مہینوں بلکہ چند ہفتوں بعد تبادلے کردیئے جاتے ہیں اور یہ انتظامی کارکردگی ان لوگوں کا کارنامہ ہے جو غریب عوام کی جیبوں سے کاٹے گئے ٹیکس کے روپے پر ہارورڈ اور دوسری یونیورسٹیوں سے انتظام عامہ (پبلک ایڈمنسٹریشن) کے کورس کرکے آتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں فوجی افسروں کے دفتروں میں لگے بورڈ بتاتے ہیں کہ مقررہ میعاد ہمیشہ اور ہر حال میں پوری کرنی ہے اور پوری ہو جائے تو اس کے بعد کوئی رہ بھی نہیں سکتا! آپ سول ملازمین کیساتھ کیے جانیوالے مذاق کا اندازہ لگایئے کہ جو بغیر تعیناتی کے ہیں انہیں کھلم کھلا بتایا جاتا ہے کہ کسی وزیر یا بڑے آدمی کی سپانسر شپ (سرپرستی) کا بندوبست کرو اور تعیناتی لے لو! بیرون ملک تعیناتیوں کا حشر اس سے بھی بدتر ہے۔ گزشتہ تیس سالوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ راولپنڈی، لاہور، کراچی اور پشاور کے ڈپٹی کمشنر سب سے زیادہ بیرون ملک تعینات کئے گئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان ڈپٹی کمشنروں کو دن میں کئی بار ائیرپورٹ پر وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے استقبال کیلئے جانا پڑتا ہے اور جو سیاست دان ایک قلیل عرصہ کے دوران ستر سرکاری مکان حق داروں کے منہ سے چھین سکتے ہیں وہ اپنے منظور نظر سرکاری نوکروں کو بیرون ملک کیوں نہ تعینات کرائیں گے! اور جو اور بھی زیادہ خوش قسمت ہیں وہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بن جاتے ہیں اور پھر دھاندلی کی انتہا کرتے ہوئے اور وزرائے اعظم کی عاقبت ’’سنوارتے‘‘ ہوئے اپنی پسندیدہ
اسامیوں پرفائز ہو جاتے ہیں۔اس وقت ایشیائی ترقیاتی بنک فلپائن وفاقی محتسب،
، NEPRA،
ہر جگہ سابق پرنسپل سیکرٹری تعینات ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پانچ پانچ سال تک وزیراعظم کی ’’میرٹ‘‘ پالیسی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کے دودھ پر پلنے والے یہ اژدہے عوام سے کئی نوری سالوں کے فاصلے پر اس معیار زندگی سےلطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا عوام تصور تک نہیں کرسکتے
اسامیوں پرفائز ہو جاتے ہیں۔اس وقت ایشیائی ترقیاتی بنک فلپائن وفاقی محتسب،
، NEPRA،
ہر جگہ سابق پرنسپل سیکرٹری تعینات ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پانچ پانچ سال تک وزیراعظم کی ’’میرٹ‘‘ پالیسی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کے دودھ پر پلنے والے یہ اژدہے عوام سے کئی نوری سالوں کے فاصلے پر اس معیار زندگی سےلطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا عوام تصور تک نہیں کرسکتے
ریٹائر ہونیوالے سرکاری ملازموں سے جو سلوک اسلام آباد کی حکومت کر رہی ہے اس کا مسلح افواج میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ مسلح افواج میں ہر ریٹائر ہونیوالے جرنیل کو دو سال کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی ہے۔ جو وہ منظور کرلیتا ہے یا انکار کر دیتا ہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق پیشکش ہر ایک کو کی جاتی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول سروس میں بدترین قسم کا ’’امتیازی‘‘ نظام رائج ہے۔ جو ’’خوش قسمت‘‘ ہیں انہیں لاکھوں روپے ماہوار کی ’’تنخواہ‘‘ پر پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل میں ’’رکھا‘‘ جا رہا ہے اور جن کی رسائی وزیراعظم یا ایوان صدر تک نہیں ہوتی انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی دھاندلیاں اور ناانصافیاں مسلح افواج میں نہیں ہو رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی یوں تو متعدد وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ سیاست دانوں کی کوتاہ نظری ہے۔ بدقسمتی سے یہ کوتاہ نظری کور چشمی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اپنے ذاتی فوائد کیلئے اور اقربا پروری اور دوست نوازی کے جنون ہیں سیاستدانوں نے سول سروس کے پورے نظام کو طاعون زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کی ترقیاں ہونی چاہئیں۔ وہ کونوں کھدروں میں پڑے سسک رہے ہیں اور جنہیں ٹکٹکی پر باندھا جانا چاہئے وہ ’’اوپر‘‘ جا رہے ہیں۔ سول سروس میں دیانت دار اور سرکاری ملازموں کا حال ضیا سرحدی کے بقول یہ ہے کہ …؎
ہم نے اقبال کا کہا مانا
اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
اہل سیاست نے سول سروس کو اس بری طرح اپنی کوتاہ نظری کی آماجگاہ بنایا کہ یاسین وٹو مرحوم جیسے ’’تابعدار‘‘ وزیر کو بھی اْس وقت کے وزیراعظم کے نام احتجاجی مراسلہ لکھنا پڑا کیوں کہ وزیراعظم نے ایک ایسے سرکاری ملازم کو ترقی دیدی تھی جس کو متعلقہ پروموشن بورڈ نے ایک سے زیادہ بار نااہل قرار دیا تھا! اْسی زمانے میں یہ بھی ہوا کہ ایف آئی اے میں تیس افراد بھرتی کئے گئے جن میں سے اٹھائیس کا تعلق ایک خاص نسلی گروہ سے تھا! اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صوبوں میں چیف سیکرٹری اتنی تیزی سے بدلے جاتے ہیں کہ اس رفتار سے عرب شیوخ بیویاں بھی نہیں بدلتے۔
رہا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو اسکی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ نہیں۔ جسے پرسنل سیکرٹری کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو ایک ڈاک خانہ بن کر رہ گیا ہے جو سیاست دانوں، وزیراعظم اور ایوان صدر تک کے احکام کو آگے روانہ کر دیتا ہے۔ نوکر شاہی کا جو رکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری لگتا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی نوکری کے لالچ میں غلامی کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ اسکی مثالیں واضح اور واشگاف ہیں۔ ایک صاحب جو اس اسامی سے سالہا سال پہلے ریٹائر ہوئے، اپنی ’’گونا گوں‘‘ ’’خدمات‘‘ کے عوض آج بھی ’’وظیفہ خوار‘‘ ہیں اور ’’شاہ‘‘ کے دعاگو ہیں!! یہ صورتِ حال خوش قسمتی سے مسلح افواج میں نہیں ہے۔ بّری فوج کی ایم ایس برانچ… جو افسروں کی ترقیوں اور تعیناتیوں کی ذمہ دار ہے۔ ایک ضابطے اور ترتیب سے کام کررہی ہے۔ فوج کا نظام سول سروس سے کئی گنا زیادہ شفاف ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام سیاستدانوں کی دست بْرد سے بچا ہوا ہے۔ ایک صاحب جو بہت تھوڑے عرصہ کیلئے وزیراعظم بنے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے ایک اہم قبیلہ کو نوکری کی معراج پر پہنچایا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اسے جرنیل بنا دیتے۔ اہلِ سیاست کو یہی تو قلق ہے کہ وہ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو تحصیل دار تو بنوا سکتے ہیں، بیرون ملک بھی تعینات کرا سکتے ہیں لیکن انہیں کرنل بریگیڈئر اور جرنیل نہیں بنوا سکتے۔ مسلح افواج کا یہ نظم و ضبط اور شفاف نظام امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اس کا انکے نزدیک ’’علاج‘‘ یہ ہے کہ سیاست دانوں کو افواج کے معاملات میں دخلیل کر دیا جائے۔ یہ کام کیری لوگر بل کے ذریعے تجویز کیا جا رہا ہے۔ بل کے الفاظ پر غور فرمائے۔
An assessment of the extent to which the Government of Pakistan exercises effective civilian control of the military will be carried out regularly
یعنی کسی حد تک حکومتِ پاکستان ملٹری پر ’’سول‘‘ کنٹرول حاصل کر سکتی ہے؟ اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘۔
کیری لوگر بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کے سینئر افسروں کی ترقیاں ’’سول‘‘ کے دائرہ اختیار میں لائی جائیں گی!
مسلح افواج کا سول کے معاملات میں عمل دخل یقیناً لائقِ تحسین نہیں ہے! تینوں افواج کے سربراہوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھی ٹو سٹار اور تھری سٹار ساتھیوں کو سول محکموں میں ملازمتیں حاصل کرنے سے باز رکھیں کیوں کہ اس سے مسلح افواج بطور ایک ادارہ کے بدنام ہوتی ہیں۔ حال ہی میں اخبارات کی اطلاع کے مطابق ایک سابق جرنیل کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان صاحب کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انکے علاوہ اور فرد اس کااہل نہیں تھا؟ اسی طرح سٹاف کالج لاہور، جہاں سینئر سول سرونٹ گریڈ اکیس کی ترقی کیلئے لازمی کورس اٹنڈ کرتے ہیں اور جو انتہائی اہم ہے، ایک عرصہ سے ایک جرنیل کے تصرف میں چلا آ رہا ہے۔ کیا پورے پاکستان میں کوئی سول افسر اس عہدے کا اہل نہیں رہا؟ اور کیا ملٹری اکادمی کاکول کے سربراہ کے منصب پر کسی سول افسر کو تعینات کیا جائیگا؟
اسی طرح دفاع اور دفاعی پیداوار کی وزارتوں کو جس طرح کلی طور پر مسلح افواج کے قبضے میں رکھ دیا گیا ہے، انتہائی غیر منطقی اور نامناسب ہے۔ اکثر و بیشتر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سیکرٹری دفاع مقرر کیا جاتا ہے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو پھر بھی بن جاتی لیکن صورتحال اس وجہ سے انتہائی غیر متوازن ہے کہ سیکرٹری کے نیچے تینوں ایڈیشنل سیکرٹری بھی فوج کے باوردی جرنیل ہیں۔ جن میں سے ایک نیوی سے ایک ائرفورس سے اور ایک بری فوج سے لایا جاتا ہے۔ اس کا موازنہ ذرا بھارت سے کیجئے۔ وہاں سیکرٹری دفاع ہمیشہ سول سرونٹ ہوتا ہے اور اس کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹری بھی سول ہی سے ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ بھارتی وزارت دفاع میں تینوں افواج کے نمائندے موجود ہیں لیکن سینئر ہونے کے باوجود ان کی حیثیت ’’ٹیکنیکل منیجر‘‘ سے بڑھ کر نہیں اور اسی نام سے انہیں پکارا جاتا ہے! بھارتی وزارتِ دفاعی پیداوار کو بھی سول ملازمین چلا رہے ہیں جب کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے!
جنرل اشفاق کیانی نے تحمل اور آہستگی سے مشرف دور کے اقدامات واپس لیکر افواج کا سول میں عمل دخل بہت کم کر دیا ہے لیکن اسکے باوجود ابھی فوج کے سربراہ کو بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سول سروس اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے گی یا بدستور اہل سیاست کی کنیز بنی رہے گی؟؟۔
No comments:
Post a Comment