میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان لوگوں کی جو‘ اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ روحیں مجھے ملنے آئیں گی اور وہ بھی آدھی رات کو!
مجھے تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ ہے نہ جھجک کہ میں ایک ڈرپوک آدمی ہوں اور یہ آج سے نہیں‘ بچپن سے ہے۔ گائوں میں چرواہے شام کو اپنے ریوڑ واپس لاتے تھے۔ میں گلی میں کھیل رہا ہوتا‘ اور کوئی بیل یا راکھی کرنیوالا کتا گزرتا تو میں دیوار کے ساتھ لگ جاتا۔ میرے ساتھی میری یہ حالت دیکھ کر قہقہے لگاتے اور شام کے بعد صحن سے اٹھ کر اندھیرے کمرے میں جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اسکے برعکس میرے بہن بھائی لالٹین لیکر بے دھڑک اندر چلے جاتے!
یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ میں آدھی رات کو بیدار ہوا۔ کیوں؟ اسکی وجہ مجھے نہیں معلوم! مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت آہستگی سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ میری بیوی ایک بڑے تھرموس میں پانی ڈال کر گلاس سمیت میری چارپائی کے پاس رکھ دیتی ہے۔
میں نے ایک گلاس پانی غٹاغٹ پیا‘ لیکن عجیب بات ہے کہ میری پیاس میں اس سے اضافہ ہو گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں دھوپ میں کئی میل پیدل چل کر آیا ہوں۔
ابھی میں نے دوسرا گلاس پینے کیلئے تھرموس سے بھرا ہی تھا کہ مجھے ڈرائنگ روم میں کرسی گھسیٹنے کی آواز آئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔ میں نے بیوی کی طرف دیکھا‘ وہ سو رہی تھی۔ مردانہ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ اسے جگائوں!
دونوں لڑکے اور بیٹی اوپر کی منزل پر تھے اور اگروہ جاگ رہے ہوتے تو نیچے لائونج میں ہوتے جہاں وہ ٹی وی دیکھتے ہیں یا اپنے اپنے کمپیوٹر پر نہ جانے کیا کرتے رہتے ہیں!
میں اپنے کمرے سے نکلا اور باورچی خان کے سامنے سے گزرتا ہوا لائونج میں آ کھڑا ہوا۔ اوہ! میرے اللہ! ڈرائنگ روم میں بتی جل رہی تھی اور آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز … بالکل صاف… کسی شبہ کسی شک کے بغیر … سنائی دے رہی تھی!!
مجھے یوں لگا جیسے میری ٹانگیں بے جان ہو گئی ہوں۔ گھٹنے ٹیڑے ہونے لگے‘ میں نے تھوک نگل کر آواز نکالنے کی کوشش کی تاکہ پوچھوں کہ اندر کون ہے‘ لیکن آواز نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ بیوی پاس ہوتی تو میری یہ حالت دیکھ کر ضرور کہتی کہ سبحان اللہ! کتنے بہادر مرد ہو! مردانہ غیرت پھر جاگی اور میں ہرچہ بادا … باد کہہ کر ڈرائنگ روم میں داخل ہو گیا۔
کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ صوفوں پر اور باقی لوگ قالین پر بیٹھے تھے۔ میں نے ان میں سے چھ کو فوراً پہچان لیا۔ قریب تھا کہ میں نے بے ہوش ہو کر گر پڑتا‘ ان میں سے ایک نے اٹھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اس سے مجھے یوں لگا جیسے کسی نے پیار کیا ہو اور ماحول یک دم جانا پہچانا ہو گیا ہو! میں ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گیا!
جن چھ آدمیوں کو میں نے پہچانا‘ ان میں سے پانچ وہ تھے جو چند ہفتے پہلے جی ایچ کیو پر دہشت پسندوں کے حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ ایک طرف حوالدار زرخان شہید بیٹھا تھا۔ اسکے ساتھ حوالدار ایوب بیٹھا مسلسل مسکرا رہا تھا۔ بریگیڈیر انوار الحق قالین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے چہرے پر دل آویز مسکراہٹ لئے لانس نائک شاہد اقبال سے کوئی بات کر رہے تھے۔ کرنل وسیم عامر صوفے پر تھے اور انکے ساتھ بریگیڈیر معین الدین بیٹھے تھے جو چند دن پہلے اپنی کار میں کہیں جاتے ہوئے شہید کر دئیے گئے تھے۔ ان چھ کے علاوہ باقی حضرات کو میں نہیں جانتا تھا‘ بعد میں بریگیڈئر انوار نے بتایا کہ وہ سب کارگل کے شہدا تھے!
یہ عجیب بات ہے کہ اب میں ہر گز خوف زدہ نہیں تھا۔ میرے دل پر اطمینان اس طرح اتر رہا تھا جیسے میرے سامنے بادلوں سے برف کے نرم نرم گالے اتر رہے ہوں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ سب میرے قریبی عزیز ہوں۔ میں نے بے تکلفی سے کہا کہ میں چائے بنا کر لاتا ہوں‘
لیکن کرنل وسیم عامر نے میرے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا…’’ہم روحیں ہیں اور ایک ضروری بات کرنے آئے ہیں‘ ہم تمہاری دنیا کی چائے پانی سے بے نیاز ہیں‘ ہمارے کھانے پینے کا انتظام وہ ذات کرتی ہے جس کے راستے میں ہم نے اپنی جانیں قربان کیں‘‘
میں ہمہ تن گوش تھا! حوالدار زرخان شہید نے کہا کہ وہ سب کی طرف سے بات کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیا ہے!
’’ہم اس لئے شہید ہوئے کہ یہ ملک امن اور انصاف کا گہوارہ بنے‘ اپنی بیویوں کو بیوہ اور اپنے ماں باپ کو زخم رسیدہ اس لئے نہیں کیا کہ اس ملک میں ظلم اور دھاندلی ہو! کل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں انتہائی دیدہ دلیری کیساتھ اعتراف کیا گیا کہ سینکڑوں سرکاری ملازمین کو جو سالہا سال سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے… انکے حق سے محروم کر کے سرکاری مکانات ستر (70) ایسے افراد کو الاٹ کر دئیے گئے جو سفارشی تھے! شہیدوں کی روحیں اس ظلم سے تکلیف میں ہیں!
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ سرکاری مکانات جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور انکی جماعت کے دیگر اراکین کی سفارش پر الاٹ کئے گئے۔ سفارش کرنیوالے دوسرے افراد میں قمر الزمان کائرہ‘ راجہ پرویز اشرف‘ حمید اللہ جان آفریدی‘ خورشید شاہ‘ میاں رضا ربانی‘ فوزیہ وہاب ‘ سلیم سیف اللہ‘ محمد میاں سومرو‘ سینیٹر انور بیگ اور کچھ دوسرے افراد شامل ہیں! ہم شہید سفارش کرنیوالے ان طاقت ور لوگوں سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ لوگ جو ویٹنگ لسٹ میں تھے اور انتظار کر رہے تھے اور از روئے انصاف انکی باری تھی۔ پاکستانی نہیں تھے؟
اگر وزیر ‘پارلیمنٹ کے ارکان اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ حق دار لوگوں کا حق مار کر اپنے اپنے پسندیدہ افراد کو نوازتے رہیں گے تو کیا یہ ملک ذلت کے اس گڑھے سے نکل سکے گا جس میں آج پڑا کراہ رہا ہے؟ ‘‘
یہاں حوالدار زرخان شہید کی آواز بھرا گئی اور اسکی آنکھوں سے موتیوں جیسے آنسو نکل کر اسکے رخساروں پر بہنے لگے۔ بریگیڈئر انوار الحق نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور مجھے کہنے لگے‘
’’ اگر ہو سکے تو حق داروں کا حق مارنے والے ان طاقت ور حکمرانوں کو وہ واقعہ سنا دینا۔ ایک بادشاہ کو ایک ایسا مرض لاحق ہوا جس کیلئے کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر طبیبوں نے ایک ایسے آدمی کا کلیجہ تجویز کیا جس میں کچھ خاص صفات ہوں۔ تلاش شروع ہوئی ایک کسان کا بیٹا ان صفات کا حامل قرار دیا گیا بادشاہ نے اسکے ماں باپ کو دولت کی پیش کش کی اور وہ اس کے قتل پر راضی ہو گئے۔ پھرقاضی نے فتویٰ دے دیا کہ سلطنت کے سربراہ کی جان بچانے کیلئے رعایا کے ایک فرد کا خون بہانا جائز ہے۔ جب جلاد اسے قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسنے لگا۔
بادشاہ نے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے۔ لڑکے جواب دیا کہ اولاد کے محافظ ماں باپ ہوتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے دولت کے عوض مجھے فروخت کر دیا۔
قاضی سے انصاف طلب کیا جاتا ہے‘ اس نے بھی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ رعایا کی آخری فریاد بادشاہ کے پاس ہوتی ہے۔ لیکن بادشاہ ہی نے تو مجھے اس قتل کیلئے چنا ہے۔ ایسے عالم میں خدا کی طرف دیکھنے کے سوا کیا کر سکتا ہوں۔
فیل بان نے کہا تھا کہ جو پائوں کے نیچے کچلی جانے والی چیونٹی کی پرواہ نہیں کرتے‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہاتھی کے پائوں تلے ان کا حال اس سے مختلف نہ ہو گا!
سفارش کرنیوالے اور سفارش ماننے والے محتاط رہیں ! کہیں مظلوم آسمان کی طرف دیکھنا نہ شروع کر دیں!!
No comments:
Post a Comment