یہ ان دنوں کی بات ہے جب کساد بازاری سرطان کی طرح پھیل چکی تھی اور بے روزگاری عام تھی! کوئی اقتصادی سرگرمی رونما نہیں ہو رہی تھی۔ خرید و فروخت کا بازار سرد تھا۔ لوگ پلاٹ لے کر منڈی میں بیٹھے تھے اور آدھی قیمت پر بیچنے کو تیار تھے لیکن خریدار عنقا تھا! درآمد برآمد کا کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ سرکاری شعبے میں یہ حال تھا کہ بیروزگاروں کو تو کیا نوکریاں ملتیں، پہلے سے موجود سرکاری ملازمین کو نکالا جا رہا تھا۔ سوائے کابینہ کے کسی شعبے میں توسیع نہیں ہو رہی تھی اور کابینہ میں نوکری حاصل کرنے کے لئے نیم خواندہ ہونے کے علاوہ بھی کئی کڑی شرطیں تھیں جن کا پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ایسے میں جب مفتی صاحب نے مجھے اپنے ہاں ملازمت کی پیشکش کی تو مجھے یوں لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ میرے اہل خانہ نے مشورہ دیا کہ میں ملازمت کی پیشکش قبول کرنے سے پہلے یہ ضرور پوچھ لوں کہ میرا کیا ہوگا، لیکن میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ہم پاکستانیوں کو ایک بیماری یہ بھی لاحق ہے کہ پہلے تو نوکری کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں سفارشیں تو خیر کرائی ہی جاتی ہیں رشوت تک پیش کی جاتی ہے لیکن جب نوکری ملتی ہے تو اس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔ چنانچہ میں نے فوراً ہاں کردی۔ مفتی صاحب نے دوسرے دن حاضر ہو جانے کی ہدایت کی۔
دوپہر ابھی ہونے ہی والی تھی جب مفتی صاحب کا ذاتی ملازم مجھے بلانے کے لئے نمودار ہوا۔ مجھے مسجد میں طلب کیا گیا تھا حاضر ہوا تو مفتی صاحب نے ایک لمبے بانس کی طرف اشارہ کیا جو مسجد کے صحن میں پڑا تھا۔فرمایا کہ اسے صحن کے عین درمیان میں گاڑ دو۔ میں نے کدال سے اینٹیں ہٹائیں، گڑھا کھودا اور بانس گاڑ دیا۔ اب انہوں نے کہا کہ بانس کی لمبائی ماپو۔ میں نے سوچا کہ بانس کی لمبائی تو اس وقت ماپی جانی چاہئے تھی جب وہ صحن میں لیٹا ہوا تھا۔ لیکن مفتی صاحب کا نکتہ یہ تھا کہ اس وقت یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ کتنا حصہ زمین کے اندر ہوگا اور کتنا باہر۔گڑے ہوئے بانس کی لمبائی ماپنا عجیب سا کام لگ رہا تھا۔ لکڑی کی سیڑھی اس کے ساتھ لگائی جاتی تو بانس گر پڑتا۔ بالآخر میں نے چار پانچ میز اوپر تلے رکھے۔ پھر تین چار افراد نے مجھے سہارے سے سب سے اوپر والے میز پر کھڑا کیا میں نے ایک لمبے فیتے سے بانس کو ماپا اور بڑی مشکل سے نیچے اتر کر مفتی صاحب کو یہ لمبائی گزوں فٹوں اور انچوں میں بتائی۔ اب انہوں نے دھوپ کی طرف اشارہ کیا۔ بانس کا سایہ مشرق کے رخ پر تھا۔ فرمایا کہ اب بانس کے سائے کی پیمائش کرو۔ وہ بھی بتا دی۔ اب حکم ہوا کہ سائے کو ہر پانچ منٹ کے بعد ماپتے رہو اور جس وقت سائے کی لمبائی بانس کی لمبائی کے برابر ہو جائے تو ظہر کی اذان دو۔ میرے دل میں ایک سوال اٹھا لیکن ملازمت کی خیر مناتے ہوئے میں نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ اس دن میں نے چودہ دفعہ بانس کا سایہ ماپا۔ پندرہویں دفعہ قسمت نے یاوری کی اور حساب لگایا تو بانس کی لمبائی اور سائے کی لمبائی برابر تھی۔ دوڑ کر مفتی صاحب کو بتایا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا۔ اب ایک اور ڈیوٹی بتائی گئی کہ جیسے ہی ظہر کو کچھ دیر گزر چکے، پھر سایہ ماپنا شروع کر دو اور جب سائے کی لمبائی بانس کی لمبائی سے دوگنا ہو جائے تو یہ عصر کی نماز کا وقت ہوگا۔ اس دن اٹھارہ دفعہ سائے کی پیمائش کی۔ انیسویں بار قسمت نے یاوری کی اور سایہ بانس سے دوگنا ہوگیا۔ اس وقت عصر کی اذان دی گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ یہ دونوں اوقات… یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات… ایک کاغذ پر لکھ لئے جائیں اور آئندہ گھڑی دیکھ کر اذان دے دی جائے۔ مفتی صاحب کا سفید چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ انہوں نے میری کلائی سے گھڑی اتاری اور مسجد کے کنویں میں پھینک دی۔ اس کے بعد انہیں کچھ یاد آیا۔ مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ دیوار سے گھڑیال اتارا اور ایک شاگرد کو حکم دیا کہ اسے پتھروں سے اس طرح توڑا جائے جیسے بْت توڑے جاتے ہیں۔
مغرب سے پہلے مجھے چھت پر چڑھا دیا گیا۔ غروبِ آفتاب آنکھوں سے دیکھنا ضروری تھا۔ورنہ اذان دی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ عشاء کی اذان کے لئے میں نے افق پر تیرتے ہوئے اندھیرے ماپے اور پھر کہیں جا کر نیچے اترنے کی اجازت ملی۔ لیکن یہ سب تو کچھ بھی نہیں تھا۔ دو ماہ بعد رمضان کا مبارک مہینہ آگیا میں نے ایک اسلامی کتاب گھر سے سحری اور افطاری کے اوقات کا نقشہ لیا اور خوشی خوشی مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میرے نمبر تو خیر کیا بنتے، مفتی صاحب جلال میں آ گئے اور نقشہ پھاڑ کر پرزے پرزے کر دیا۔آدھی رات کو میرے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا باہر پھر مفتی صاحب کا ملازم کھڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں سحری چھت پر بیٹھ کر کھاؤں گا اور مسلسل مشرقی افق کو دیکھتا رہوں گا۔ جس وقت سفیدی اور سیاہی الگ الگ نظر آ جائیں گی۔ تو سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ کڑکتا ہوا جاڑا، آدھی رات کو اٹھ کر چھت پر جانا اور سحری ختم ہونے تک مسلسل افق کو گھورتے رہنا! پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ بیروزگاری کے اس عذاب میں ملازمت تو ہے!۔
ابھی ایک دو روزے باقی تھے کہ مجھے چاند دیکھنے کا حکم ملا۔ میں نے کچھ عرض کرنے کے بجائے مناسب سمجھا کہ تعمیل حکم میں تاخیر نہ کروں۔ چاند ہوتا تو نظر آتا۔ لیکن حضرت کا اصرار تھا کہ چاند ہرحال میں دیکھنا ہے۔ میں نے بتایا کہ ماہرین فلکیات کے حساب کی رو سے آج چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں مفتی صاحب پریشان ہوگئے۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر مجھے بتایا کہ بدبخت! ماہرین فلکیات کا ذکر کرکے تم دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہو۔ انہوں نے نہایت شفقت سے مجھے کلمہ پڑھا کر میرے ایمان کی تجدید کی۔ وہ تو محض اتفاق تھا کہ میں ابھی تک غیر شادی شدہ تھا ورنہ نکاح کی تجدید بھی کرانا پڑتی۔
جب دوسری بار بھی چاند نظر نہ آیا اور میں سب سے اوپر والی چھت سے نامراد نیچے اترا تو اس بار مجھے ایک گھڑا دیا گیا جس کے پیندے میں بہت باریک سا سوراخ تھا۔ مفتی صاحب نے مجھے تیسری بار چھت پر بھیجا تو خصوصی دعا فرمائی اور میری نشست پر تھپکی نما ہاتھ پھیر کر کامیابی کا یقین دلایا۔ میں نے چھت پر جا کر گھڑے کا پیندا مغرب کی طرف کیا اور چہرہ گھڑے کے اندر ڈال کر سوراخ سے سامنے آسمان کو دیکھنا شروع کیا۔ جتنا سوراخ تھا، اتنا ہی آسمان نظر آتا تھا۔ دس منٹ سوراخ سے آسمان کو مسلسل دیکھتا رہا۔ مفتی صاحب کی دعا اثر لائی اور گیارہویں منٹ میں ہلال عید بالکل صاف نظر آنا شروع ہوگیا۔ مفتی صاحب نے عید کا اعلان کر دیا۔
عید کے دن گلے ملے تو شفقت سے پاس ہی بٹھا لیا۔ فرمانے لگے آج میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو تمہارے دل میں سوال اٹھاتی ہے! اگر ہم نمازوں کے اوقات کا تعین گھڑی دیکھ کر کریں یا سحری اور افطاری کا وقت سائنس دانوں کے بنائے ہوئے نظام الاوقات کے مطابق طے کریں تو کل کو کوئی عاقبت نااندیش یہ بھی کہہ دے گا کہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا تعین بھی اسی طرح سائنس کی مدد سے کیا جائے جس طرح سال بھر کی نمازوں کے اوقات پہلے ہی معلوم ہو جاتے ہیں اور ان اوقات کا نقشہ ہر مسجد میں لگا ہوا ہوتا ہے یا جس طرح رمضان کے پورے مہینے کی سحری اور افطار کے اوقات پہلے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ہم ہر چیز برداشت کر سکتے ہیں لیکن سوراخ والے گھڑے کے بغیر چاند دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے!۔
No comments:
Post a Comment