کیا اجتماعی سطح پر ہمارا زوال اس درجے کو پہنچ گیا ہے کہ اب اردو زبان کو علماء کرام نے بھی ثانوی حیثیت دے دی؟ بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے!
مسجد قاسم خان میں جب واجب الاحترام مفتی پوپلزئی صاحب ہلالِ عید دیکھنے کا اعلان فرما رہے تھے، تو بھلے وہ باقی ملک سے ایک دن پہلے نہیں، ایک ہفتہ پہلے عید کرنے کا اعلان کر دیتے اور بے شک وہ صوبائی حکمران جماعت کے دو نہیں، درجنوں وزیر اکٹھے کر لیتے، کم از کم یہ تو دیکھتے کہ وہ پوری قوم سے، پورے پاکستان سے اور تمام پاکستانیوں سے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، خطاب فرما رہے تھے۔ کیا کسی بھی منطق کی رو سے انہیں پہلے اردو میں اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا (یہ بھی نہیں کہ وہ اردو میں رواں نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے فصیح و بلیغ اردو میں خطاب فرمایا) پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کو مخاطب کرنے کا کیا یہی طریقہ تھا؟ اور کیا اب قومی سطح پر ہماری وحدت بالکل ہی پارہ پارہ ہو چکی ہے؟ اور کیا ہم سارے پاکستانی ایک اکائی نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگ جو مسجد قاسم خان میں جمع تھے، اردو سے اتنے نابلد تھے کہ انہیں سمجھانے کے لئے پہلے پشتو میں خطاب ضروری تھا؟ یا کیا مفتی صاحب کے مخاطب ایک محدود علاقے کے رہنے والے تھے؟
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم پشتو کے یا کسی بھی علاقائی زبان کے مخالف ہیں! ایسی بات نہیں! حاشا وکلّا نہیں! خدا کی قسم نہیں! پشتو، پنجابی، بلوچی، سندھی اور ساری علاقائی زبانیں ہمیں عزیز ہیں، لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے، ہماری رابطے کی زبان اردو ہے جب پورے اہلِ پاکستان سے بات کرنا مقصود ہو تو اردو کے سوا ہماری کوئی جائے پناہ نہیں، ہمیں اپنے دل بڑے کرنے ہوں گے، ہمیں اپنے اپنے کنوئیں سے نکلنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بے توقیری تو پہلے ہی ہماری پشت پر، ہماری قمیض اٹھا کر اپنی مہر ثابت کر چکی ہے، ایک اور مہر سہی۔
اگر پی این اے کا کوئی وزیر اردو کو ثانوی حیثیت دیتا تو ہم اس کا نوٹس ہی نہ لیتے! لیکن کیا شبیر احمد عثمانی، سید سلیمان ندوی اور ظفر احمد عثمانی کے جانشین اب علاقائی زبانوں کو قومی زبان پر فوقیت دیں گے؟ اور کیا اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ عربی زبان کے بعد اگر کسی زبان میں اسلام کے بارے میں سب سے زیادہ لٹریچر موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اردو زبان ہے۔ اور کیا ہمارے علماء کرام کو معلوم نہیں کہ بنگال میں اور مہاراشٹر میں، آندھرا پردیش میں اور کرناٹک میں، یو پی میں اور بہار میں … یہ اردو ہی ہے جس نے دینی مدارس کو زندہ رکھا ہوا ہے! اور لاکھوں کروڑوں مسلمان اردو ہی کے ذریعے علوم اسلامی سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما جناب مقصود الٰہی شیخ برطانیہ سے اردو میں ایک مجلہ ’’مخزن‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں۔ اس کے تازہ شمارے میں اورنگ آباد (بھارت) کے جناب اثر فاروقی کا ایک مضمون ’’ہندوستان میں اردو کا مستقبل‘‘ شائع ہوا ہے۔ فاروقی صاحب بتاتے ہیں کہ بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے لئے علم دین حاصل کرنے کا اردو کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں دینی علوم پشتو، پنجابی یا ہندی اور مراٹھی میں تو نہیں پڑھائے جاتے۔ یوپی اور بہار کے سینکڑوں مدرسوں میں دینی علوم کے طلبہ کا ذریعہ تعلیم اردو ہے شاید اہل پاکستان کو معلوم نہیں کہ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک عالم دین انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان پاس کرکے کلکٹر مقرر ہو گئے ہیں۔ صرف دہلی میں دینی مدارس کی تعداد تین سو سے زائد ہے جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے۔ مہاراشٹر کے صوبے میں 35 اضلاع، 358 تعلقہ جات (ہماری تحصیل کے قائم مقام) اور چالیس ہزار سے زائد دیہات ہیں۔ ہر ضلعے اور ہر تعلقے میں اردو کے ذریعے دینی علوم پڑھانے والے مدارس ہیں۔مہاراشٹر پبلک سروس کمشن اور صوبائی انتخابی بورڈ میں ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحان اردو میں دئیے جا سکتے ہیں اس کے مقابلے میں جو ’’پذیرائی‘‘ اردو کو پاکستان میں مل رہی ہے اسے بیان کرنے کے لئے ماتمی الفاظ کا ذخیرہ شاید کم پڑ جائے۔ جب علاقہ پرست سیاسی جماعتوں کی تقلید میں علماء کرام بھی اپنے مخاطبین کا دائرہ صرف علاقائی زبان تک محدود کر لیں تو پھر اردو کے گلے پر فرنگی زبان کا خنجر چلانے والوں سے کیا گلہ! اردو تو فراق گورکھ پوری کے بقول اتنا ہی کہہ سکتی ہے…؎
تو پھرکیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے برا بھی ہو!
یہ جو ہم عید کے موقع پر رونے دھونے کا ذکر چھیڑ بیٹھے ہیں تو اس کے لئے اپنے پڑھنے والوں سے بہت بہت معذرت! اب آئیے! ہنسنے کھیلنے والی خبروں کی طرف! کچھ عرصہ پہلے وقت کے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ تاریخ بنانا چاہتے ہیں، تو اس ضمن میں عملی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے بے خانماں اور قلاش اراکین کے لئے تین ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرکے رہائش گاہیں بنانے کی منظوری دی جا چکی ہے کیوں کہ موجودہ رہائش گاہیں کم پڑ رہی ہیں۔ اگر کچھ پڑھنے والوں کو یہ نہ معلوم ہو کہ ارب کیا ہوتا ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک ارب روپے میں ایک سو کروڑ روپے ہوتے ہیں اور تین ارب روپوں کا مطلب ہے تین سو کروڑ روپے۔ لیکن یہ تو سرکاری رہائش گاہیں ہیں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کے لئے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں ان غریبوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو، دو کنال کے پلاٹ بھی دئیے جائیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ اسمبلی اور سینٹ میں تشریف فرما ہیں، انہیں یہ پلاٹ ملکیتی بنیادوں پر دے دئیے جائیں گے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات کے نتیجہ میں جو حضرات ان اداروں کے لئے منتخب ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ بھی پلاٹ کے حقدار ہوں گے۔ اس طرح ہر ممبر، خواہ وہ اگلے انتخابات میں ہار کر اسلام آباد سے واپس ہی کیوں نہ چلا جائے، ایک پلاٹ کا مالک ہو گا اور یہ سلسلہ صدقہ جاریہ کی طرح چلتا رہے گا۔ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں اکثریت اپنے ذاتی گھروں سے محروم ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ایک ایک کچے کمرے کی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں۔ اس ملک میں تاریخ بنانے والے حکمران ان مستحقین کو نواز رہے ہیں جن کی اکثریت جاگیرداروں صنعت کاروں اور کروڑ پتیوں، معاف کیجئے گا، ارب کھرب پتیوں پر مشتمل ہے۔کیا عجب، آج حکمران، جن ملکوں کو ’’ارض پاکستان‘‘ طشتری میں رکھ کر دے رہے ہیں، وہ کتنے سو سال ہم پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، ہمارے قومی ترانے میں ایک بار ’’ارض پاکستان‘‘ کے لفظ آتے ہیں اور دو بار ’’پاک سرزمین‘‘ آتا ہے۔ یہ مسرت بھی اسی عید پر ملی ہے کہ باسٹھ سال کی جدوجہد کے بعد، قومی ترانے کا مفہوم درست طور پر معلوم ہوا ہے۔ اس حکومت کا موقف یہ ہے کہ اگر ہم نے کشور حسین کو شاد باد کرنا ہے تو پاک سرزمین ٹھیکے پر دوسرے ملکوں کو دے دیں اور اگر مرکزِ یقین کو شادباد کرنا ہے تو ’’ارض پاکستان‘‘ کے ٹکڑے فروخت کرنا شروع کر دیں…؎
بنے گا کوئی تو تیغ ستم کی یادگاروں میں
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
رہا اقبال کا یہ شعر کہ…؎
دہقان و کشست و جُو و بیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارازان فروختند
تو علامہ پرانے زمانے کے آدمی تھے انہیں ان مجبوریوں کا پتہ ہی نہ تھا جن کے تحت غیر ملکی سفارت خانوں کو شہر کی چابیاں دے دی جاتی ہیں۔
مسجد قاسم خان میں جب واجب الاحترام مفتی پوپلزئی صاحب ہلالِ عید دیکھنے کا اعلان فرما رہے تھے، تو بھلے وہ باقی ملک سے ایک دن پہلے نہیں، ایک ہفتہ پہلے عید کرنے کا اعلان کر دیتے اور بے شک وہ صوبائی حکمران جماعت کے دو نہیں، درجنوں وزیر اکٹھے کر لیتے، کم از کم یہ تو دیکھتے کہ وہ پوری قوم سے، پورے پاکستان سے اور تمام پاکستانیوں سے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، خطاب فرما رہے تھے۔ کیا کسی بھی منطق کی رو سے انہیں پہلے اردو میں اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا (یہ بھی نہیں کہ وہ اردو میں رواں نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے فصیح و بلیغ اردو میں خطاب فرمایا) پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کو مخاطب کرنے کا کیا یہی طریقہ تھا؟ اور کیا اب قومی سطح پر ہماری وحدت بالکل ہی پارہ پارہ ہو چکی ہے؟ اور کیا ہم سارے پاکستانی ایک اکائی نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگ جو مسجد قاسم خان میں جمع تھے، اردو سے اتنے نابلد تھے کہ انہیں سمجھانے کے لئے پہلے پشتو میں خطاب ضروری تھا؟ یا کیا مفتی صاحب کے مخاطب ایک محدود علاقے کے رہنے والے تھے؟
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم پشتو کے یا کسی بھی علاقائی زبان کے مخالف ہیں! ایسی بات نہیں! حاشا وکلّا نہیں! خدا کی قسم نہیں! پشتو، پنجابی، بلوچی، سندھی اور ساری علاقائی زبانیں ہمیں عزیز ہیں، لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے، ہماری رابطے کی زبان اردو ہے جب پورے اہلِ پاکستان سے بات کرنا مقصود ہو تو اردو کے سوا ہماری کوئی جائے پناہ نہیں، ہمیں اپنے دل بڑے کرنے ہوں گے، ہمیں اپنے اپنے کنوئیں سے نکلنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بے توقیری تو پہلے ہی ہماری پشت پر، ہماری قمیض اٹھا کر اپنی مہر ثابت کر چکی ہے، ایک اور مہر سہی۔
اگر پی این اے کا کوئی وزیر اردو کو ثانوی حیثیت دیتا تو ہم اس کا نوٹس ہی نہ لیتے! لیکن کیا شبیر احمد عثمانی، سید سلیمان ندوی اور ظفر احمد عثمانی کے جانشین اب علاقائی زبانوں کو قومی زبان پر فوقیت دیں گے؟ اور کیا اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ عربی زبان کے بعد اگر کسی زبان میں اسلام کے بارے میں سب سے زیادہ لٹریچر موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اردو زبان ہے۔ اور کیا ہمارے علماء کرام کو معلوم نہیں کہ بنگال میں اور مہاراشٹر میں، آندھرا پردیش میں اور کرناٹک میں، یو پی میں اور بہار میں … یہ اردو ہی ہے جس نے دینی مدارس کو زندہ رکھا ہوا ہے! اور لاکھوں کروڑوں مسلمان اردو ہی کے ذریعے علوم اسلامی سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما جناب مقصود الٰہی شیخ برطانیہ سے اردو میں ایک مجلہ ’’مخزن‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں۔ اس کے تازہ شمارے میں اورنگ آباد (بھارت) کے جناب اثر فاروقی کا ایک مضمون ’’ہندوستان میں اردو کا مستقبل‘‘ شائع ہوا ہے۔ فاروقی صاحب بتاتے ہیں کہ بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے لئے علم دین حاصل کرنے کا اردو کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں دینی علوم پشتو، پنجابی یا ہندی اور مراٹھی میں تو نہیں پڑھائے جاتے۔ یوپی اور بہار کے سینکڑوں مدرسوں میں دینی علوم کے طلبہ کا ذریعہ تعلیم اردو ہے شاید اہل پاکستان کو معلوم نہیں کہ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک عالم دین انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان پاس کرکے کلکٹر مقرر ہو گئے ہیں۔ صرف دہلی میں دینی مدارس کی تعداد تین سو سے زائد ہے جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے۔ مہاراشٹر کے صوبے میں 35 اضلاع، 358 تعلقہ جات (ہماری تحصیل کے قائم مقام) اور چالیس ہزار سے زائد دیہات ہیں۔ ہر ضلعے اور ہر تعلقے میں اردو کے ذریعے دینی علوم پڑھانے والے مدارس ہیں۔مہاراشٹر پبلک سروس کمشن اور صوبائی انتخابی بورڈ میں ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحان اردو میں دئیے جا سکتے ہیں اس کے مقابلے میں جو ’’پذیرائی‘‘ اردو کو پاکستان میں مل رہی ہے اسے بیان کرنے کے لئے ماتمی الفاظ کا ذخیرہ شاید کم پڑ جائے۔ جب علاقہ پرست سیاسی جماعتوں کی تقلید میں علماء کرام بھی اپنے مخاطبین کا دائرہ صرف علاقائی زبان تک محدود کر لیں تو پھر اردو کے گلے پر فرنگی زبان کا خنجر چلانے والوں سے کیا گلہ! اردو تو فراق گورکھ پوری کے بقول اتنا ہی کہہ سکتی ہے…؎
تو پھرکیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے برا بھی ہو!
یہ جو ہم عید کے موقع پر رونے دھونے کا ذکر چھیڑ بیٹھے ہیں تو اس کے لئے اپنے پڑھنے والوں سے بہت بہت معذرت! اب آئیے! ہنسنے کھیلنے والی خبروں کی طرف! کچھ عرصہ پہلے وقت کے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ تاریخ بنانا چاہتے ہیں، تو اس ضمن میں عملی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے بے خانماں اور قلاش اراکین کے لئے تین ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرکے رہائش گاہیں بنانے کی منظوری دی جا چکی ہے کیوں کہ موجودہ رہائش گاہیں کم پڑ رہی ہیں۔ اگر کچھ پڑھنے والوں کو یہ نہ معلوم ہو کہ ارب کیا ہوتا ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک ارب روپے میں ایک سو کروڑ روپے ہوتے ہیں اور تین ارب روپوں کا مطلب ہے تین سو کروڑ روپے۔ لیکن یہ تو سرکاری رہائش گاہیں ہیں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کے لئے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں ان غریبوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو، دو کنال کے پلاٹ بھی دئیے جائیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ اسمبلی اور سینٹ میں تشریف فرما ہیں، انہیں یہ پلاٹ ملکیتی بنیادوں پر دے دئیے جائیں گے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات کے نتیجہ میں جو حضرات ان اداروں کے لئے منتخب ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ بھی پلاٹ کے حقدار ہوں گے۔ اس طرح ہر ممبر، خواہ وہ اگلے انتخابات میں ہار کر اسلام آباد سے واپس ہی کیوں نہ چلا جائے، ایک پلاٹ کا مالک ہو گا اور یہ سلسلہ صدقہ جاریہ کی طرح چلتا رہے گا۔ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں اکثریت اپنے ذاتی گھروں سے محروم ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ایک ایک کچے کمرے کی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں۔ اس ملک میں تاریخ بنانے والے حکمران ان مستحقین کو نواز رہے ہیں جن کی اکثریت جاگیرداروں صنعت کاروں اور کروڑ پتیوں، معاف کیجئے گا، ارب کھرب پتیوں پر مشتمل ہے۔کیا عجب، آج حکمران، جن ملکوں کو ’’ارض پاکستان‘‘ طشتری میں رکھ کر دے رہے ہیں، وہ کتنے سو سال ہم پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، ہمارے قومی ترانے میں ایک بار ’’ارض پاکستان‘‘ کے لفظ آتے ہیں اور دو بار ’’پاک سرزمین‘‘ آتا ہے۔ یہ مسرت بھی اسی عید پر ملی ہے کہ باسٹھ سال کی جدوجہد کے بعد، قومی ترانے کا مفہوم درست طور پر معلوم ہوا ہے۔ اس حکومت کا موقف یہ ہے کہ اگر ہم نے کشور حسین کو شاد باد کرنا ہے تو پاک سرزمین ٹھیکے پر دوسرے ملکوں کو دے دیں اور اگر مرکزِ یقین کو شادباد کرنا ہے تو ’’ارض پاکستان‘‘ کے ٹکڑے فروخت کرنا شروع کر دیں…؎
بنے گا کوئی تو تیغ ستم کی یادگاروں میں
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
رہا اقبال کا یہ شعر کہ…؎
دہقان و کشست و جُو و بیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارازان فروختند
تو علامہ پرانے زمانے کے آدمی تھے انہیں ان مجبوریوں کا پتہ ہی نہ تھا جن کے تحت غیر ملکی سفارت خانوں کو شہر کی چابیاں دے دی جاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment