Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 25, 2017

وائرس جس نے ہر پاکستانی کو بے چین کررکھا ہے۔


ٹریفک رینگ رہی تھی ۔آگے جاکر بالکل رُک گئی۔اس نے باس  کی معیت میں ایک میٹنگ کے لیے جانا تھا۔باس کو فون کیا اور صورتحال بتانے  کے بعد معذرت کی۔باس نے تسلی دی کہ ایسا ہوجاتا ہے۔کوئی بات نہیں !

چند دن کے بعد'چھٹی کے بعد وہ گھر واپس جارہا تھا۔پھر ٹریفک کی وہی حالت ہوگئی۔ہائی وے پر گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔اس نے بیوی کو فون کیا۔بیوی طنزیہ ہنسی ہنسی!زہر میں بجھی ہوئی ہنسی!"مجھے معلوم ہے آپ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں "
یہ واقعہ ایک صاحب نے سنایا جو جرمنی میں رہتے ہیں ۔

اس تفاوت کا سبب کیا ہے؟باس یقین کرلیتا ہے۔مگر بیوی جو رفیقہء حیات ہے'جھٹلا دیتی ہے؟ کیوں ؟
یہ محض سوال نہیں 'یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگرا س سوال کا جواب دریافت کر لیا جائے'پھر اس پر غور کرلیا جائے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا رویہ اس سوال اور اس کے جواب کی روشنی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہی پاکستان جسے ہم رات دن کوستے ہیں 'جنت بن جائے۔

وجہ  جاننے کے لیے ستاروں کے علم کی ضرورت ہے نہ چلے کاٹنے کی۔باس جس ماحول میں پلا بڑھا 'اس میں جھوٹ بولنے کا رواج نہ تھا۔اسے بچپن میں جو کچھ بتایا جاتا تھا 'وہ اصل میں بھی وہی ہوتا تھا۔کبھی اس کے ما ں باپ نے اسے ڈاج کرنے کی کوشش کی نہ کسی ہم جماعت نے نہ کسی استاد نے۔وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔

بیوی کی پرورش جس فضا میں ہوئی 'وہ فضا دروغ گوئی کے جراثیم سے اٹی ہوئی تھی۔اس نے ہوش سنبھالا تو ہر طرف جھوٹ تھا۔نوکر نے بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے 'چھٹی چاہیےبعد میں معلوم ہوا ماں زندہ ہی نہیں تھی!باپ اچھا بھلا بستر پر لیٹا ' رضائی اوڑھے  اخبار پڑھ رہا تھا۔وہ پاس بیٹھی تھی۔ وہ اپنے باس کو فون کررہا تھا کہ سر مجھے بخار ہے'میں آج نہیں آسکوں گا۔اماں نے تین سوٹ نئے خریدے۔شوہر کو صرف ایک کا بتایا۔ایک شادی کا دعوت نامہ آیا ۔دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ یہاں نہیں جانا۔دعوت دینے والوں کو دونوں نے معذرت کرتے ہوئے وجہ یہ گھڑی کہ اسی دن قریبی رشتہ داروں کے ہاں شادی کی تقریب ہے۔کسی کو برا لگے یا درست لگے'ابکائی آئے یا کٹھا ڈکار'نام نہاد مسلمانی مجروح ہو یا جعلی حمیت کو ٹھیس پہنچے'سچائی صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی زندگی جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور جھوٹ پر ختم ہوجاتی ہے'ایک قریبی عزیر کے بچے کی ولادت تھی۔

دارالحکومت کے ایک جانے پہچانے نجی ہسپتال میں بیوی کو داخل کرایا۔محض بل بڑھانے  کے لیے  ڈاکٹروں نے جھوٹ پر جھوٹ اور مزید جھوٹ بولا۔بغیر کسی وجہ کے بچے کو وینٹی لیٹر پر رکھا۔جو ضروری نہیں تھا وہ سب کروایا اور خریدوایا۔ آپریشن کیا گیا ۔ ایک ہفتے بعد زچہ ٹانکے کھلوانے گئی تو اسے دو گھنٹے انتظار یہ کہہ کر کرایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر ہیں ۔حالانکہ ڈاکٹر صاحبہ دوسری ڈاکٹروں کے ساتھ چائے پی رہی تھیں اور کیک اڑا رہی تھیں۔

یہ ہمارے مسیحا ہیں !ایک معروف اینکر نے دو ماہ پہلے پریشانی میں بتایا کہ ان کے دل کا معاملہ تشویشناک ہو چلا ہے۔ تین دن بعد دو سٹنٹ پڑیں گے۔ڈاکٹر نے بتا دیا ہے۔تسلی کے لیے انہوں نے ایک جاننے والے ماہر امراض قلب سے رابطہ کیا ۔انہوں نے پورا معاملہ دیکھا اور فیصلہ دیا کہ پریشانی کی کوئی ضرورت نہیٰں۔ سٹنٹ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مزید اطمینان کے لیے ایک عزیز دوست سے بیرون ملک مشورہ کیا۔وہ بھی ماہر امراض قلب تھے۔انہوں نے بھی یہی بتایا کہ سٹنٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔انہوں نے سٹنٹ نہیں ڈلوائے ان ہدایات پر عمل کیا جو ان واقف کار  ڈاکٹروں نے بتائیں۔ ماشااللہ خوش و خرم ہیں ۔
مسیحاؤں کے مکروہ رویے کی بات درمیان میں آن پڑی۔بات اس جھوٹ کے جالے کے بارے میں ہو رہی تھی جو پیدائش ہی سے زندگی کے ارد گرد بن دیاجاتا ہے۔شوہر بیوی سے کہتا ہے فلاں رشتہ دار سے نہیں ملنا۔بیوی چھپ کر ملتی ہے پھر جھوٹ بولتی ہے۔شوہر بیوی کو تنخواہ غلط بتاتا ہے۔جاتاکہیں اور  ہے'بیوی کو کچھ اور بتاتا ہے۔ماں باپ بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور دن رات بولتے ہیں ۔ "میں یہیں ہوں کہیں نہیں جارہا"باپ بتاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد باپ نظر نہیں آتا۔بچہ اسے ڈھونڈتا ہے مگر پاتا نہیں ۔بچے کی نفسیات میں یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح جاگزیں ہوجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا کوئی ایسی بات نہیں یہ تو پوری زندگی کا حصہ ہے۔روزمرہ کی طرح محاورہ ہے! فون کی گھنٹی بجتی ہے۔بچہ سنتا ہے۔باپ سامنے بیٹھا ہے۔اشارے سے اسے بتاتا ہے کہ کوئی میرا پوچھے تو میں گھر پر نہیں ہوں۔ معمار یا الیکڑیشن مزدوری مانگ رہا ہے۔"صاحب !آپ نے آج کا وعدہ کیا تھا"بچہ پاس کھڑا سن رہا ہے۔دیکھ رہا ہے باپ ڈھٹائی سے کہتا ہے 'یار وعدہ  تو کیا تھا مگر آج نہیں 'دو دن بعد لے لینا'دعوت میں جارہے ہیں ۔گھر سے نکلے ہی تاخیر سے۔پہنچ کر سبب یہ بتاتے ہیں کہ راستے میں ٹریفک بلا ک تھی۔بچہ ساتھ تھا۔وہ سن رہا تھا۔ ٹریفک ہر  گز بلاک نہیں تھی۔

یہ ہے وہ ماحول 'وہ فضا جس میں بچہ بڑا ہوا ہے۔ جھوٹ کا یہ مکروہ جال 'ہر طبقے نےاپنے گھرمیں بُنا ہوا ہے۔مستری ہے یا مزدور'افسر ہے یا کلرک' استاد ہے یا تاجر' اسمبلی کا ممبر ہے یا وزیر' کروڑ پتی صنعت کار ہے یا عام دکاندار 'مرد ہے یا عورت' بوڑھا ہے یا جوان۔کراچی میں ہے یا اسلام آباد میں ' لاہور میں یا ملتان میں یا کوئٹہ میں یا پشاور میں یا کسی چھوٹے موٹے قصبے میں ہے یا کسی دور افتادہ گاؤں میں ۔مذہبی ہے یا غیر مذہبی'ہر شخص ہر مرد ہر عورت رات دن جھوٹ بولتی ہے۔اہل مذہب کا رویہ ایک رمق بھر بھی مختلف نہیں ۔ایک قریبی عزیز کی بیٹی کا نکاح تھا۔یہ کالم نگار دلہن کی طرف سے وکیل بنایا گیا۔ مولانا صاحب رخصت ہوئے تو وعدہ کیا کہ کل فارم مکمل کرکے گھر پر پہنچا دیں گےتین دن انتظار کیا۔چوتھے دن پوچھا تو آدھا گھنٹہ مولانا نے کسی گھنٹی پر فون نہ اٹھایا۔پھر ایک "سنجیدہ" سا پیغام ایس ایم ایس کیا ۔فون اٹھایا ۔فرمانے لگے فارم تو مکمل ہے آپ آئے ہی نہیں "دوست نے منع کیا مگر کالم نگار نے ان سے تسلیم کرا لیا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا اور یہ کہ وعدہ خلافی کی ہے۔ غور کیجیے' یہ جھوٹ اس حد تک سرائیت کرچکا ہے کہ مولانا کو اس کا احساس ہی نہیں ! بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مذہبی لوگوں کا ذکر بطور خاص کیا جارہا ہے۔وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔پھر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے اجتناب صرف اہل مذہب پر ہی تو لازم نہیں !

ہمارے ہاں ان گھرو ں سے 'یہ بچے 'اس تربیت کے ساتھ نکلتے ہیں اور معاشرے میں پھیل جاتے ہیں ۔ بچہ تاجر بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔استاد  بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔یہاں تک کہ صدر بنتا ہے تو صاف کہتا ہے کہ وعدہ ہی کیا تھا 'وعدہ کوئی قرآن حدیث تھوڑی ہے۔وزیراعظم بنتا ہے تو قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولتا ہے۔عدالت میں اس جھوٹ کے بارے میں جرح ہوتی ہے تو وکیل پوری "شرافت "کے ساتھ کہتا ہے کہ اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر تو سیاسی تھی ۔وزیراعظم خالو کو پہچاننے میں اڑھائی گھنٹے لگاتے ہیں !

یہ تو معاملے کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ وہ ہے جو اس بیوی نے دکھایا ہے۔اسےشک ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ نہیں میاں دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانک رہا ہے۔یہ اعتماد کا فقدان ہے۔ہر شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات پر یقین نہیں کرتا! یہ ہے وہ وائرس جس نے معاشرے کو بے چین کررکھا ہے۔ہر پاکستانی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔کل چھت پڑنی ہے 'رات کو نیند نہیں آرہی اس لیے کہ یقین نہیں کل معمار مستری اور مزدور آئیں گے یا نہیں ! کل گاہک کو مال دینا ہے۔بے چینی یہ ہے کہ کل تک سپلائر یا ڈسٹری بیوٹر مال پہنچاتا ہےیا نہٰیں!بیگم میکے گئی ہے  کل  آنا ہے۔جانے وعدہ پورا کرتی ہے یا نہیں !

وعدہ  ایک  معاہدہ  ہے۔تحریری ہے یا زبانی ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اب اس جھوٹ اور وعدہ  خلافی کی دوسری صورتیں دیکھیے۔ہوائی جہاز وقت پر پہنچانے کا قومی ائیرلائن نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ جھوٹا  ثابت ہوتا ہے۔ غور کیجیے 'تھائی ائیر لائن سنگا پور ائیر لائن کیوں نہیں جھوٹ بولتی۔ وہی گھر کی تربیت کا معاملہ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ شاہراہ سال کے آخر میں بن جائے گی۔نہیں بنی۔سب جھوٹ پر بڑے ہوئے ہیں ۔نیا اسلام آباد ائیر پورٹ 2007 میں بننا شروع ہوا ۔گیارہ میں مکمل ہونا تھا۔سترہ گزر گیا ہے' ابھی تک آثار نہیں ۔وہی جھوٹ گھروں سے نکلا اور قوم کے اوپر افق سے افق تک چھا گیا۔سیاست دان وعدے کرکے ووٹ لیتا ہے۔وعدے جھوٹ نکلتے ہیں ۔بیوروکریٹ کہتا ہے کل آپ کی فائل پر فیصلہ ہوجائے گا۔نہیں ہوتا ۔ جھوٹ اس کی گھٹی میں ہے۔ پروفیسر کلاس میں نہیں آتا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ہفتے میں اتنی کلاسیں پڑھائے گا'جھوٹا


ثابت ہوا۔ وقت پر دفتر کوئی نہیں آتا ۔وعدہ کیا تھا کہ آٹھ بجے آئیں گےاور چار بجے تک حاضر رہیں گے۔جھوٹ ۔سب جھوٹ!
اس وائرس کا جس دن علاج ہوگیا 'یہی ملک سوئٹزرلینڈ 'کینیڈا 'جاپان بن جائے گا۔ورنہ لاکھ میٹرو 'کروڑ اورنج ٹرین 'ہزاروں بجلی  کے کارخانے'کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com