دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں ۔
دل کہتا ہے میاں نواز شریف اقتدار کی دُھن میں ملک دشمنی کی حد تک نہیں جاسکتے!دماغ کے پاس ثبوت ہیں ۔ حوالے ہیں ۔شہادتیں ہیں ۔ گواہیاں ہیں !
دل کہتا ہے اس دھرتی نے میاں صاحب کے ان بچوں کو بھی کھرب پتی بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔اور عالمِ ارواح میں ہیں ۔تین بار وہ وزیراعظم بنے،تینوں بار پنجاب نے یہ تاج ان کے سر پر رکھا۔کیا اب وہ ان عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں گے جو پاکستان بالخصوص پنجاب کے دشمن ہیں ۔کُھلے دشمن 'ایسے کھلے دشمن کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ایسےدشمن جو خود دشمنی کا دن دھیاڑےڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہیں !نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا!میاں صاحب ایسا نہیں کرسکتے!
دماغ ہنستا ہے ۔طنزیہ ہنسی !قہقہہ لگاتا ہے!اخبارات سامنے رکھ دیتا ہے۔یوٹیوب لگا کر پوچھتا ہے ۔اب بتاؤ!
دل خاموش ہوجا تا ہے!یہ دنیا جذبات کے سہارے نہیں چلتی !یہ ٹھوس شہادتوں 'حقیقی واقعات اور ناقابلِ تردید سچائیوں کے بل پر قائم ہے!
بائیس دسمبر 2017 کے اخبارات کیا بتاتے ہیں ۔
"نواز شریف نے وزیراعظم عباسی کو ہدایت کی کہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے تحفظات دور کیے بغیر فاٹا اصلاحات بِل قومی اسمبلی میں نہ لایا جائے ۔نون لیگ فاٹا اصلاحات بل کی قیمت پر فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی حکومت سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔دونوں شخصیات راضی نہ ہوئیں تو حکومت فاٹا اصلاحات بل سے دستبردار ہوجائے گی!
یعنی مولانا اور اچکزئی کے سوا اور کوئی بھی بل کی مخالفت نہیں کررہا۔یہ دو ہی مخالفت کررہے ہیں۔ان کا موقف ہےکہ فاٹا کا کے پی میں انضمام انہیں منظور نہیں! وزیراعظم ان دوکو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
اس سے پہلےدودسمبر کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ "محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے"!
آئیے دیکھتے ہیں،محمود اچکزئی کا نظریہ کیا ہے؟
جون 2016 ء میں محمود اچکزئی نے "افغانستان ٹائمز"کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے اور وہ اس میں کسی خؤف کے بغیر رہ سکتے ہیں 'اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان مہاجرین کو پاکستان کے دوسرے حصوں میں ہراساں کیا جائے تو انہیں خیبر پختونخوا آجانا چاہیےجہاں کوئی ان سے مہاجر کارڈ نہیں چیک کرسکتا کیوں کہ یہ صوبہ افغانوں کا ہے ۔
2014ء میں معروف اینکر جناب مبشر لقمان نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بتایا کہ محمود اچکزئی کو 2013ء کا الیکشن جتوانے کے لیےافغان خفیہ اداروں نے کئی ملین ڈالر دیے۔مبشر لقمان صاحب نے ایسے فوٹو اور ویڈیو دکھائیں جن میں محمود اچکزئی میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ کھڑے ہیں ۔یہ وہی جنرل عبدالرزاق ہے جو پاکستان دشمن اور بھارت نواز خفیہ سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ٹی وی چینل پر ان دو بلٹ پروف لینڈ کروزرز کی تصویریں بھی دکھائی گئیں جو افغان خفیہ ادارے نے محمود اچکزئی کو دیں ۔بتایا گیا کہ افغانستان سے اس سیاست دان کو تیس لاکھ امیریکی ڈالر دیے گئے ہیں۔ایک اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی کم و بیش یہی باتیں ایک اور چینل پر کہیں ۔
انٹر نیٹ پر ایسی کئی ویڈیو آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں جن میں محمود اچکزئی جلسوں میں پشتونستان زندہ باد اور افغانستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں مگر ان کے منہ سے پاکستان کا نام نہیں نکلتا ۔
معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش نے ٹوئٹر پر وزارتِ داخلہ کا ایک مراسلہ نشر کیا۔ مراسلہ فرید احمد خان سیکشن آفیسر وزارتِ داخلہ اسلام آباد نے دس مارچ 2001 کو لکھا اس مراسلے کے مخاطب دو افراد ہیں ۔ سیکرٹری وزارتِ خارجہ اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ حکومت بلوچستان کوئٹہ۔ مراسلے کا عنوان ہے" یعنی ایران کی طرف سے ملی عوامی پارٹی کی قیادت کے لیے مالی امداد "۔
مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ رمضان نورزئی نامی ایک افغانی شہری نے"جو ہلمند کا رہنے والا ہےاور ایرانی ایجنسی" اطلاعات" کے لیے کام کرتا ہے'کوئٹہ میں ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے ہیں ۔محمود اچکزئی نے نواب محمد ایاز جوگیزئی کو ایک کروڑ روپے دیے جس نے ایک گاڑی 29 لاکھ میں کراچی سے اپنے لیے خریدی۔رمضان نورزئی زاہدان میں ایرانی ایجنسی کے کرنل سردار دہقان کے ساتھ کام کرتا رہا۔رپورٹ کے مطابق کرنل دہقان کا بعد میں تبادلہ کردیا گیا تیسرے او رآخری پیرا گراف میں یہ مراسلہ بیان کرتا ہے کہ ایرانی ایجسنسی"اطلاعات" چاہتی ہے کہ شمالی اتحاد کی سرگرمیوں کو بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ذریعےکوآرڈی نیٹ کرے اور اس مقصد کے لیے اس کی قیادت کو استعمال کرے۔عمومی رائے یہی ہے کہ تخریب کاروں کو ٹھکانے فراہم کرنے کے لیے اور ایران آنے جانے کے لیے اور دیگر افراد کو تربیت دینے کے لیےایرانی حکومت کو بلوچستان کے مقامی افراد کی مدددرکار ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت ایران اور شمالی اتحاد کے ساتھ اس مقصد کے لیے تعاون کررہی ہے۔،ڈاکٹر دانش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں یہ مراسلہ باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔انگریزی روزنامہ نیشن نے چھ جولائی 2016 کی اشاعت میں اس مراسلے کے مندرجات 'کچھ دیگر تفصیلات کے ساتھ رپورٹ کیے ہیں ،رپورٹر کا نام جواد عوان ہے۔یہ جواد اعوان اس وقت روزنامہ 92 میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
محمود اچکزئی کے نظریات کی مزید تشریح کے لیے ٹیلی ویژن کے معروف صحافی جناب افتخار احمد کا وہ انٹر ویو ضرور سننا چاہیے جو انہوں نے اچکزئی صاحب کا کیا تھا۔افتخار احمد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایک ہی بات تین مختلف اوقات میں تواتر سے کہی۔
نوائے وقت 28 جنوری 1993 ء میں 'پھر رونامہ جنگ 23 جنوری 1999ءمیں اور پھر میٹ دی پریس پروگرام حیدرآباد میں دس نومبر 2001ء کے دن!
یہ کہ" پنجابی کالے انگریز ہیں ۔ان کے دل اور رنگ دونوں کالے ہیں ۔ پختونوں کے وسائل پر یہ کالے انگریز قابض ہیں ۔اور یہ پاکستان نہیں پنجابستان ہے"۔
اچکزئی کےپاس اس کا کچھ جواب نہ تھا۔آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔اس انٹر ویو اور بحث میں انہوں نے برملا کہا کہ وہ 1973ء کے آئین کو نہیں مانتے اس آئین کو ختم کرکے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ جب اس"نئے عمرانی معاہدے" کے خدوخال پوچھے گئے تو ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتونوں کو ملا کر ایک الگ یونٹ بنایا جائے اور اس میں اٹک اور میانوالی بھی شامل ہوں ۔
محمود اچکزئی یہ بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں تسلیم کرتے۔یہ ہیں محمود خان اچکزئی کے نظریات کی چند جھلکیاں ۔ جب میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے 'تو اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہے کہ نواز شریف محمود اچکزئی کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں ؟
قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی موقع پر نواز شریف نے یا ان کے کسی ترجمان نے یا وزیر نے یا مسلم لیگ ن کے کسی عہدیدار نے محمود خان اچکزئی کے ان پاکستان دشمن بیانات کی تردید یا مخالفت نہیں کی!کوئی پرویز رشید سیخ پا نہیں ہوا، کسی دانیال عزیز نے زبان کے جوہر نہ دکھائے۔ کسی طلال چوہدری نے مائک پر آ کر تبصرہ نہ کیا۔ مریم نواز کے کسی ٹویت نے محمود خان اچکزئی کے بیانات کی مذمت نہ کی!
دماغ جذبات کے دباؤ میں آتا ہے نہ من مانی تشریحات اور توجیہات کرتا ہے۔دماغ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف کا محمود اچکزئی کے ساتھ نظریاتی تعلق ہے اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ :میاں نواز شریف مانتے ہیں کہ
پنجابی کالے انگریز ہیں
پنجابیوں کے دلاور رنگ دونوں کالے ہیں
پختونوں کے وسائل پر کالے انگریز قابض ہیں
یہ پاکستان نہیں 'پنجابستان ہے
ڈیورنڈ لائن کی کوئی حقیقت نہیں ۔
محمود خان اچکزئی نے افغان اور ایران سے بھاری رقوم وصول کیں ( جن کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے)
محمود خان اچکزئی'شمالی اتحاد اور ایرانی ایجنسی"اطلاعات"کے آلہٰء کار رہے۔
محمود خان اچکزئی کے مشہور پاکستان دشمن اور بھارت نواز میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ تعلقات ہیں ۔
بلوچستان کے پختون علاقوں 'اٹک میانوالی اور کے پی پر مشتمل الگ پشتون اکائی وجود میں لائی جائے۔
1973ء کے آئین کو ختم کردینا چاہیے۔
یہ آئین پشتون علاقوں کے اتحاد میں حائل ہے۔
ا س میں کیا شک ہے کہ نواز شریف صاحب کی پاکستان میں اور پاکستان کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایک طرف پوری دنیا کے حکمرانوں میں سے صرف مودی کو وہ اپنی نواسی کی شادی پر بلاتے ہیں۔بیماری کے دورن لندن سے صرف مودی کو فون پر اعتماد میں لیتے ہیں ۔'مری میں بھارتی ایجنٹ سے' وزارتِ خارجہ سے بالا بالا خفیہ ملاقات کرتے ہیں ۔ مذمت کا لفظ نہیں بولتے'دوسری طرف ان کا اتحاد محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن سے ہے! اس سیاسی اتحاد کے علاوہ اچکزئی سے ان کا نظریاتی تعلق بھی ہے جس کا علان واعتراف وہ جلسہ عام میں کرتے ہیں !
سارے پاکستان میں 'انہیں دو اتحادی قبول ہیں۔اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن !مولانا کے بارے میں معروف صحافیوں نے کئی بار لکھا ہے کہ بھارت جاکر انہوں نے پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے انضمام کی حمایت کی تھی یا تجویز پیش کی تھی۔یہ بات پاکستان پہنچی تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اسے ڈس انفارمیشن قرار دیا۔ مذہب کے علمبردار 'یعنی مذہب کے بزعمِ خویش علم بردار 'ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔غلط دفاع کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ بھی دوسرے طبقات کی مانند ایک طبقہ ہے۔اور یہ اپنے ساتھیوں کی حمایت کرنے کے لیے سچ کے سینے میں بھالا اتارنےسے دریغ نہیں کرتے۔یہی قاضی صاحب مرحوم نے یہی کیا۔ مگر سید منور حسن نے' کہ بہت سی خامیوں کے باوجود شمشیر برآں ہیں 'برملا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی مذمت کی!مولانا کو معلوم ہے کہ فاٹاکے پی میں ضم ہوا تو وہاں کے باشندے پتھر کے زمانے سے نکل آئیں گے اور پروہتوں کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔مولانا کو راضی رکھنے کے لیے نواز شریف فاٹا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں ۔
نواز شریف کے نزدیک فاٹایا پاکستان کے مسائل پر کاہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ان کی بلا سے ۔انہیں صرف اس سے غرض ہے کہ وہ حکمران بنیں ۔وہ نہ بن سکیں تو ان کی بیٹی اس ملک پر حکومت کرےوہ بھی نہ کرسکے تو ان کا بھائی۔ان کا وژن اس سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔آنکھ میں پیچھے روشنی نہ رہےتو چشمہ کام آتا ہے نہ سرجری!
اب ایک ہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ وہ ان اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے قائداعظم کے مزار پر کبھی حاضر نہ ہونے کا اعلان کردیں ۔
No comments:
Post a Comment