Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, December 27, 2017

قوم کے لیے مژدہ جانفزا


ایک بہت بڑا کارنامہ جو میاں شہباز شریف نے سرانجام دیا ہے یہ ہے کہ “خونی انقلاب “ کی خونی اصطلاح کا آنجناب نے بندوبستِ دوامی کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا بندوبست ِدوامی کہ جس کی تاریخ ِ انقلاب میں نظیر ملنی مشکل ہے۔کارل مارکس کو جو اذیت چھوٹے میاں صاحب نے پہنچائی ہے ‘کسی گرز سے بھی کیا پہنچی ہوگی!

سچ یہ ہے کہ یہ اصطلاح دشنام بن کر رہ گئی ہے۔محض یہ کہنا کہ مذاق بن کر رہ گئی ہے ،اس اصطلاح کے ساتھ بھی ظلم ہے’مذاق کے لفظ کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خود دشنام کے ساتھ بد سلوکی ہے۔

اس وقت اگر پاکستان میں چوٹی کے پانچ مراعات یافتہ ترین افراد کی فہرست بنے تو شہباز شریف کا نام ان پانچ میں ضرور ہوگا ۔تعجب نہیں اگر ان پانچ میں بھی وہ اولیں نمبر پر ہوں ۔ان کی کئی رہائش گاہیں ہیں ۔ہر رہائش گاہ ایک عالی شان محل ہے،ہر محل کو سرکاری سٹیٹس حاصل ہے۔ ہر محل کے ارد گرد اوپر نیچے آگے پیچھے سینکڑوں سرکاری پہریدار ہیں۔

ان پہریداروں کی تنخواہ اس کھرب پتی شخص کی جیب سے نہیں بلکہ اس بھوکی ننگی مفلس قلاش، مظلوم،معتوب،مقہور،بدبخت قوم کی انتڑیوں سے نکالے گئے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ بیڑوں کے بیڑے قیمتی لیموزینوں کے خادم اعلیٰ کے لیے ہر وقت تیار کھڑے ہیں، باہر نکلتے ہیں تو غلام قوم کے لیے ان شاہراہوں کا استعمال حرام قرار دے دیا جاتا ہے جنہیں اسی غلام قوم کے گاڑھے خون پسینے سے بنایا گیا ہے۔ ہر چند ہفتے بعد خادمِ اعلیٰ صحت کے چیک اپ کے لیے ولایت تشریف لے جاتے ہیں۔اتنا ٹھاٹھ باٹھ ہے اور اتنا تزک و احتشام اور جاہ و جلال ہے کہ صوبائی حکمران ہوتے ہوئے اسلامی کانفرنس میں ترکی گئے۔ باقی وزرائے اعلیٰ اتنے گھگھو اور مٹی کے مادھو ہیں کہ احتجاج تک کا حوصلہ ہے نہ عقل۔ ترکی جاکر شہباز شریف جو وزیراعلیٰ خاقان عباسی کے ماتحت ہیں'ایک تصویر کی رُو سے' صدر اردوان کو اپنے وزیراعظم سے بھی پہلے مل رہے ہیں  اور پاکستان کے وزیراعظم ایک چکن کی طرح اپنے ماتحت کے پیچھے کھڑے ہیں کہ باری ٓئے تو اردوان سے ملیں!وزیراعظم کا بھائی ہونے کا ان صاحب نے اس قدر فائدہ اٹھایا اور اس حد تک اپنی حد سے بڑھے کہ ان کی اپنی پارٹی کے رکن اور ان کی اپنی حکومت کے وزیر بھرے اجلاس میں ان کی مداخلت کے خلاف پھٹ پڑے۔ہر وفاقی معاملے میں یہ صوبائی حکمران آگے آگے ہے  یہاں تک کہ قطر کے ساتھ گیس کے قبضے میں بھی!
اس سب پر کچھ مستزاد یہ ظلم کہ ان کے صاحبزادے جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں عملاً صوبے کے بادشاہ ہیں! تعیناتیاں ہوں یا فنڈز کی تقسیم، ہر معاملے میں اختیار ان کا ہے۔ جو پروٹوکول شہزادے کو مل رہا ہے'وہ گورنر یا وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں!
آمریت کا یہ حال ہے کہ صوبائی اسمبلی میں آپ سال میں اتنی ہی بار جاتے ہیں جسے انگلیوں پر گنا جاسکے۔ رہی صوبائی کابینہ تو اُسے جوتوں کے تسموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ صوبائی کابینہ رانا ثنا اللہ صاحب سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہوتی ہے۔
مری داستان ِ غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
اب آپ انصاف کیجیے'  یہ حد سے زیادہ مراعات یافتہ صاحب' جن کی طاقت' جن کا اختیار' جن کا جاہ و جلال، طمطراق اور شان و شوکت شاہ جہان اور جہانگیر سے کم نہیں' اگر خونی انقلاب کا بار بار نعرہ لگائیں اور نعرے سے بھی بڑھ کر خونی انقلاب کی دھمکی(بروزنِ گیدڑ بھبھکی) دیں تو کیا خونی انقلاب کی اصطلاح دشنام نہیں بن جاتی؟
کبھی  فرماتے  ہیں غریبوں کو انصاف نہ ملا تو خونی انقلاب آئے گا! کبھی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔
خلقِ خدا کو ہنسانا نیکی کا مشغلہ ہے۔ مگر اتنا بھی دوسروں کو کیا ہنسانا کہ انسان خود ہی نکُو بن جائے۔ارے جہاں پناہ! آپ اور آپ کے برادرِ کلاں لگ بھگ تین عشروں سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔غریبوں کو  انصاف آپ ہی نے تو دینا تھااور تھانے کیا بھارتی حکومت کے نیچے تھے؟اگر آپ آئی جی کو ذاتی ملازم کے طور پر استعمال کریں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسے وفاداری کا صلہ بھی دیں گے اور خلقِ خدا کی حیرت کو جوتی کی نوک پر رکھیں گے تو تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک کیسے ہوگا؟ اور پھر رونا رونا کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا' کیا اس کا مقصد اپنی مذمت کرنا ہے؟ وہی پامال شدہ قصہ دہرانا پڑتا ہے ایک شہزادہ پیدائش سے جوانی تک زنان خانے رہا۔ خواجہ سراؤں' کنیزوں اور بیگمات کے سوا کچھ دیکھا ہی نہ تھا ۔حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔جب بیگمات اور کنیزیں چیخ رہی تھیں کہ کسی مرد کو بلاؤ تو نسوانیت زدہ شہزادہ بھی پکار رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ۔خلقِ خدا چیخ رہی ہے کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا تو وزیراعلیٰ بھی خلقِ خدا کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر فریاد کررہے ہیں کہ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ د ل اس معصومیت پر فدا ہونا چاہتا ہے مگر دماغ کہتا ہے کہ یہ فریاد جعلی ہے! پرسوں کڈنی ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ا میر غریب کا فرق مٹانے کے لیے آپ نے تیس برسوں میں کیا کیا ہے؟ پورے صوبے میں کسی ایک کچہری کا نام بتا دیجیے جس کا کلچر بدل گیا ہو!
اور اب ماشااللہ!یہ خبر عام ہے کہ اگلے وزیر اعظم بھی آپ ہی ہوں گے۔ کیا مژدہ جانفزا ہے قوم کے لیے۔استاد ذوق اور مرزا غالب حیات ہوتے تو قصیدے لکھتے۔ قاآنی شیرازی ہوتا تو ایسے ایسے یاقوت و مرجان لٹاتا کہ بادشاہی کا مزا آجاتا
اقبال و بخت و نصرت و فیروزی و ظفر
تصور کیجیے'  دارالحکومت میں داخل ہوتے ہی آپ کو سب سے بڑے چوراہے پر زرِ خالص کی بنی ہوئی بہت بڑی انگشتِ شہادت نظر آئے گی جو ہر آنے والے کو کچھ سمجھا رہی ہوگی۔ ایک اور چوک پر فرنگی ہیٹ آویزاں ہوگا۔ اس کے بعد سب سے بڑی شاہراہ پر لمبے والے بوٹ!ایک بوٹ  کے نیچے اسمبلی اور دوسرے  کے نیچے کابینہ   - شہر میں ایک بھی درخت نہ ملے گا کیوں کہ دن رات شاہراہیں اکھاڑی بنائی' پھر اکھاڑی بنائی اور پھر اکھاڑی بنائی جارہی ہوں گی۔پُل اس قدر ہوں گے کہ شہر کا شہر ہی انڈر پاس لگے گا۔
چونکہ سرکاری سکولوں سے آپ کو شدید نفرت ہے اس لیے وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکول ایک بھی نظر نہیں آئے گا۔سب دانش سکول ہوں گے۔ ساری روٹیاں سستی روٹیاں ہوں گی۔ساری ٹیکسیاں پیلی ٹیکسیاں ہوں گی اور سارے گھر آشیانہ گھر ہوں گے۔
اخبارات شائع ضرور ہوں گے مگر تمام کے تمام صفحے پر خادمِ اعظم کی (وزیر اعظم بنتے ہی لقب خادم اعظم  ہوجائے گا) تصویر اور کارناموں کی تفصیل ہوگی۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی یہی پروگرام نشر ہو رہے ہوں گے۔
ماڈل ٹاؤن کے 14قتل' جس میں بیوروکریٹ کا نام آرہا تھا اسے بیرون ملک سفیر لگا دیا گیا تھا۔ بس اسی کو واپس لاکر خادمِ اعظم کا معاون ِ خاص تعینات کیا جائے گا۔نوکر شاہی کا لاہور گروپ لاہور میں بھی ہوگا اور وفاقی دارالحکومت میں بھی!پنجاب کے جن ریٹائرڈ آئی جی صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق میں اعلیٰ منصب عطا کیا گیا ہے' انہیں خادم ِ اعظم کے چارج لیتے ہی مزید اعلیٰ منصب پر بٹھایا جائے گا۔ دارالحکومت کے  ہر کھمبے پر خونی انقلاب کی تصویر لٹک رہی ہوگی! کئی محلات حرم سرا کا درجہ حاصل کریں گے۔ نئی ایلیٹ فورس او رنئی ڈولفنس پولیس وجود میں آئے گی اور سب کو شاہی محلات اور حرم سراؤں کے ارد گرد آگے پیچھے اور نیچے پھیلا دیاجائے گا۔خادمِ اعظم ایک کیمپ آفس انقرہ میں اور دوسرا کیمپ آفس لندن میں بنائیں گے تاکہ کاروبار مملکت کو وہا ں بیٹھ کر چلاتے رہیں۔ اگر حاضرین سامنے موجود ہوں تب بھی ترجیح ویڈیو تقریر کو دی جائے گی کہ ویڈیو خطاب زیادہ موثر اور زیادہ متاثر کن لگتا ہے۔رہا صوبہ تو اس کا چارج بھی آپ ہی کے پاس رہے گا اس لیے کہ والی ء پنجاب کے طور پر صرف آپ ہی سجتے ہیں۔شہزادہ عملاً اسی طرح نائب وزیراعظم ہوگا جیسے اب نائب وزیراعلیٰ ہے! اور ہاں! خادمِ اعلیٰ لندن، بیجنگ،انقرہ اور لاہور کے سوا کہیں بھی نہیں جائیں گے اس لیے کہ وفاق میں آکر'  ملک کے باقی حصوں کا مرتبہ و مقام آنجناب کی نظر میں وہی ہوگا جو بطور وزیراعلیٰ لاہور کو چھوڑ کر باقی پنجاب کا تھا۔ اب تو صوبے کا بجٹ لاہور کی نذر ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کا بجٹ نذر کیا جائے گا۔
اگر خاندان چھوٹے میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرچکا ہے تو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آخر اس قوم کو اعمال کی سزا بھی تو ملنی ہے


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com