Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, December 06, 2017

دکھ اور شرم کی نہ ختم ہونے والی داستان


نوجوان کالم نگار اور دانشور وسی بابا کے بقول اگر لائبریری بھی دسترس میں ہو، ایک خوبصورت ساحل بھی اور کینگرو بھی' تو اور کیا چاہیے!جہاں ان دنوں ہم ہیں وہاں یہ سب کچھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کینگرو مسلکی بنیادوں پر زیادہ اچھلتےنظر آتے ہیں !

گزشتہ آٹھ  نو برس کے دوران جب بھی آنا اور  رہنا ہوا'میلبورن ہی میں رہے۔اب جیلانگ میں بھی کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ جیلانگ آسٹریلیا کی ریاست(صوبے)وکٹوریہ کا میلبورن کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے۔ تاہم وہ جو دنیا کے تمام شہروں میں میلبورن کو رہنے کے لیے بہترین جگہ

The best livable  place

قرار دیا جاتا ہے تو اس اعتبار سے جیلانگ میلبورن کا حصہ ہی سمجھیے۔ایک تو دونوں  شہر تقریباً ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔دوسرے 'انفراسٹرکچر اور معیار ِ زندگی دونوں کا ایک جیسا ہی ہے۔

یہ جو آسٹریلیا کے صوبے کا نام وکٹوریہ ہے تو یہ بھی عجیب قصہ ہے۔جس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ میں  سورج غروب نہیں ہوتا تھا 'اس زمانے میں  انگریز جہاں بھی گئے اپنی ملکہ کانام تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے شہروں ' بندرگاہوں ' ہسپتالوں' چوراہوں'پہاڑوں' میدانوں'عجائب گھروں' باغوں 'صحراؤں' پلوں اور جزیروں کے نام وکٹوریہ پر  رکھتے گئے۔ چنانچہ آسٹریلیا'کینیڈا' نیوزی لینڈ' برِ صغیر' برما'گھانا'ہانگ کانگ' کینیا' ملائشیا'مالٹا'ماریشش'نائجیریا' پاکستان'سنگا پور'جنوبی افریقہ'سری لنکا' یوگینڈا' زمبیا اور زمبابوے میں سینکڑوں  مقامات ملکہ وکٹوریہ کے نام پر آج بھی موجود ہیں ۔یوں بھی انگریز ہماری طرح عقل مند اور "دوراندیش" تو تھے نہٰیں کہ اپنے اور اپنے خاندانوں  کی پرورش کرتے۔ بدبختوں کو فکر تھی تو ملک اور قوم کی۔مغل شہنشاہ نے انگریز سپوت سے خوش  ہو کر پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے'تو اس نے گورنری مانگی نہ اپنے بیٹے یا خاندان کے لیے مراعات!  ورنہ سونے میں تُل سکتا تھا۔ مانگا تو کیا مانگا'اپنے ملک کے تاجروں کے لیے مراعات!

کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش  کولمبیا کے دارالحکومت کا نام بھی وکٹوریہ ہے ۔یہ بحرالکاہل میں واقع ایک دیدہ زیب دلکش جزیرہ ہے۔ورنہ بڑا شہر تو صوبے کا وینکوور ہے۔اس کالم نگار کو یہ  وکٹوریہ بھی  دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ایک پرسکون 'خوابیدہ شہر 'دنیا بھر کے متمول افراد کا ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا انتخاب!

ضمیر جعفری مرحوم نے غالباً مسقط کے بارے میں کہا تھا

  اک طرف پہاڑی ہے اک طرف سمندر ہے

اس کے بعد جو کچھ ہے بس اسی کے اندر ہے

تو جیلانگ بھی ہے تو چھوٹا شہر'مگر صرف پہاڑی اور سمندر پر مشتمل نہیں ہے۔ ایک نرماہٹ 'ایک دلکشی'ایک دھیما پن ہے جو شہر پر چھایا ہوا ہے۔دھلی دھلائی'چمکتی صاف ستھری شاہراہیں ہیں 'ایک جیسے مکان'جن پر سنگ مرمر کی تہیں ہیں  نہ خوبصورت آرائش وتزئین۔مگر پھر بھی لگتا ہے زیبائش ایک کڑھی ہوئی چارد کی طرح  ہر شے کے اوپر تنی ہے!

مرکزی لائبریری قابلِ دید  ہے۔پانچ منزلہ عمارت میں ایک منزل پوری صرف بچوں کے لیے مخصوص ہے۔جہازی سائز کی سکرینوں والے کمپیوٹر ہر منزل پر موجود ہیں ۔انٹر نیٹ مفت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ہفتے کے سات دن لائبریری کھلی ہے۔الگ کمرے بھی ہیں ۔ریسرچ کرنے والے حضرات یا گروپ ان کمروں کو روزانہ کی  بنیاد پر اپنے بیٹھنے کے لیے بُک کرا سکتے ہیں ۔گراؤنڈ فلور پر کیفے ہے جہاں کھانے  پینے کی اشیا دستیاب ہیں۔

وکٹوریہ کی صوبائی بڑی لائبریری جو میلبورن میں ہے اس کی رکنیت کئی سال پہلے حاصل کرلی تھی ۔جس  محلے میں قیام ہے وہاں کی لائبریری کی ممبر شپ بھی ہے۔ اب جیلانگ آنا جانا شروع ہوا تو  یہاں کی لائبریری کی رکنیت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ممبر شپ حاصل کرنے میں پانچ سات منٹ لگے ہوں گے۔چالیس کتابیں (جن میں سولہ سی ڈی شامل ہیں ) ایشو کرائی جاسکتی ہیں ۔جو چار ہفتے رکھی جاسکتی ہیں ۔کتابیں ایشو کرانے کے لیے اپنی مدد آپ کا اصول ہے۔کمپیوٹر کے سامنے کتابوں کا انبار رکھیے۔کارڈ کمپیوٹر میں لگائیےمطبوعہ رسید باہر نکل آئے گی جس میں کتابو ں کے نام اور واپس کرنے کی تاریخ درج ہوگی واپس کرنے کے لیے بھی کسی سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں۔لیٹر بکس نما بڑا سا سوراخ ہے 'اس میں ڈال دیجیے۔اگر آپ کو کوئی کتاب درکار ہےاور وہ لائبریری میں  موجود نہیں 'تو آپ اس کا نام لکھ دیجیے۔اگر آسٹریلیا کے کسی شہر میں  دستیاب ہےتو خرید لی جائے گی اور پھر آپ کو باقائدہ اطلاع دی جائے گی۔

جیلانگ کی آبادی دو لاکھ سے کم ہے۔دو لاکھ سے کم کی آبادی کے اس شہر میں  مرکزی لائبریری کے علاوہ سولہ لائبریریاں  اور بھی موجود ہیں جو مختلف محلوں  اور سینکڑوں میں مقامی حکومت نے کھولی ہوئی ہیں ۔رکنیت کا ایک ہی کارڈ'ہر لائبریری میں قابل ِ قبول ہے۔ ایشوکرائی ہوئی کتابیں  کسی بھی لائبریری میں واپس کی جاسکتی ہیں ۔

کسی ترقی یافتہ ملک میں آنا اور آکر رہنا باعثِ آزار بھی ہے۔لوگوں کے طور اطوار'معاشرتی قدریں اور اخلاقیات دیکھ کر اندر کرب کی ایک لہر اٹھتی ہے اور انسان بے اختیار اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ سب ہمارے ہاں ممکن نہیں ؟

کم از کم تین ایسے پہلو ہیں جو اچھنبے میں مبتلا کرتے ہیں۔اول عمومی صفائی۔یہ زیادہ عجیب اس لیے ہے کہ نوے پچانوے فیصد گھروں میں  کل وقتی ملازم رکھنے کا رواج ہے نہ ایسا کرنا ممکن ہے اگر کہیں صفائی کرنے والی خادمہ یا باغ سنوارنے والا باغبان آتا بھی ہے تو روزانہ کی بنیاد پر نہیں!ہفتہ وار یا دو ہفتے میں ایک بار'یا ایک ہفتے میں دو بار'تعجب ہوتا ہے کہ ملازموں کی مدد کے بغیر'ہر گھر کا لان'ایک خوبصورت باغ کی طرح ہے۔پودے ترشے ہوئے'کہیں کوڑا کرکٹ نہ کثافت!کوڑا کرکٹ سنبھالنے کا ایک نظام ہے جو کسی سقم کے بغیر کام کرتا ہے۔کفایت شعاری کا ایسا اہتمام ہے کہ گھروں میں گاڑیاں دھونے کی اجازت نہٰیں !بارش کاپانی ذخیرہ کرکے اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔دوم'وقت کی پابندی!دفتر ہے یا دکان یا سکول یا یونیورسٹی 'اگر مقررہ وقت نو بجے ہے تو اس سے مراد نو ہی ہے۔نو بج کرپانچ منٹ نہیں ! تقاریب اور شادیوں  کے فنکشن بھی پابندی وقت پر عمل کرتے ہیں !کہنے کو یہ کوئی خاص بات نہیں لگتی 'مگر سوچنے پر گرہیں اور پرتیں اور تہیں کھلتی چلی جاتی ہیں ! ہمارے جیسے ملکوں میں اگر کوئی شکوہ کرے  بھی کہ  میں وقت پر آ گیا تھا'آپ موجود نہیں تھے یا یہ کہ آپ تاخیر سے آئے ہیں ۔'تو شکوہ کرنے والا بُدھو لگتا ہے۔ تاخیر کی یا وعدہ خلافی کی شکایت کرنا'ہمارے ہاں ایک ایسا فضول عمل ہے جس کے  کرنے والے کو سڑیل'چڑچڑااور

fussy

تک کہا اور سمجھا جاتا ہے!یہ کتنا بڑاالمیہ ہے'قومی سطح پر اس کا ادراک تک نہیں ! اس کا ایک بڑا شاخسانہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی کام 'انفرادی ہو یا خاندانی'یا ملکی سطح کا' وقت پر نہیں ہوپاتا!صبح پہنچنے والا دوپہر کو پہنچ رہا ہوتا ہے۔تقریب پہروں تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ہمارے حکمران'عمائدین اور امرا کمال دیدہ دلیری اور بے شرم ڈھٹائی کے ساتھ  حاضرین مجلس کو گھنٹوں انتظارکراتے ہیں! شادی بیاہ کی تقاریب ہماری بے حسی اور اخلاقی اور معاشرتی پس ماندگی کی بدترین نمونہ ہیں ۔

سوم! ان ملکوں میں روز مرہ کی زندگی 'لین دین اور کاروبار میں باہمی اعتبار اور صدق مقال ایک ایسی قدر ہے جو معاشرے کو ہموار  راستے پر چلا رہی ہے۔اس راستے پر اونچ نیچ ہے 'نہ گڑھے'نہ کیچر بھرے ٹکڑے نہ پتھریلے پیوند'گاہک دکاندارکو آکر کہتا ہے کہ یہ شے جو  خریدی تھی  'ٹھیک نہیں نکلی'دکاندار اس بیان پر شک نہیں کرتا 'جھٹلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا'فوراً رقم واپس کردیتا ہے۔تاجروں  دکانداروں کی اکثریت "ری فنڈ"یعنی خریدی ہوئی شے واپس کرنے کی واضح  پالیسی رکھتی ہےجس کا گاہک کو بتایا جاتا ہے اور اس پر  عمل کیا جاتا ہے۔سرکاری ملازم اگر اپنے محکمے کو اپنی اہلیہ یا بچے  کی بیماری کا بتاتا ہے تو اس کی تحقیق نہیں کی جاتی۔مفروضہ یہ ہےکہ سچ بول رہا ہے۔ یہی وہ سچ ہے اور یہی اس سچ پر یقین ہے  جس نے اس معاشرے  میں زندگی کو آسان بنایا ہواہے۔آ پ کو کسی نے کوئی اطلاع دے دی ہے تو غلطی  کا علم ہونے کے فوراً بعد وہ شخص آپ سے رابطہ کرے گا اور غلطی کی تصحیح کرے گا۔تحریری معاہدہ کسی بھی معاملے میں ہوگیا ہے'یازبانی بھی کچھ طے ہوگیاہےتو اس پر عملدرآمدکے لیے کسی یاد  دہانی کی یا منت سماجت کی ضرورت نہٰیں  ۔اب یہ طے ہے کہ اس پر خود بخود عملدرآمد ہوگا۔

آپ نے مکان کرائے پر لیا ہے جو تاریخ آپ کو دی گئی ہےاس پر آپ  بلا کھٹکے سامان لے جائیں ۔ایسا نہیں کہ آگے سے ایک صاحب منتیں کرکے گھگھیانے لگیں  یا بدتمیزی سے رعب جمائیں کہ ابھی میں خالی نہٰیں کرسکتا۔معاہدہ زبانی ہو یا تحریری 'اس کی حرمت قائم رکھی جاتی ہے۔یہ جو نسخہ ہمارے ہاں  حال ہی میں متعارف کرایا گیا ہے کہ میں نے تو ایک بات کی تھی' وعدہ نہیں کیا تھا۔یہ نفاق ان کافروں کے ہاں نہیں ملتا۔

دکھ اور شرم کی یہ داستان طویل ہےکبھی نہ ختم ہونے والی داستان!!         


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com