Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 18, 2017

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور


الیگزینڈر برنس سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا  ۔سولہ سال کی عمر میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں  بھرتی ہوگیا۔ ذہانت خداداد تھی۔جلد ہی اردو اور فارسی میں مہارت حاصل  کرلی۔

1822 میں کمپنی نے اسے سُورت میں  ترجمان مقرر کردیا۔ زبانوں میں مہارت کے باعث افغانستان اور وسط ایشیاء میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔یہ زمانہ گریٹ گیم کے عروج کا تھا۔روس جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا بارڈر ستلج تک لے آئی تھی۔دونوں استعماری طاقتیں  ایک دوسرے سے خائف تھیں اور گمان کر رہی  تھیں کہ گھمسان کا رن درمیان میں یعنی افغانستان میں پڑے گا۔برطانیہ نے برنس کو جاسوس بنا کر بخارا بھیجا جہا ں سے اس نے انتہائی کارآمد معلومات ارسال کیں ۔

1831
 میں برنس برطانیہ کے بادشاہ کی طرف  سے رنجیت سنگھ کے لیے گھوڑوں کا تحفہ لے کر لاہور آیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہانہ بنایا کہ گھوڑے خشکی کے راستے سفر نہیں کر پائیں گے 'چنانچہ سندھ پہنچ کر یہ گھوڑے دریائے سندھ کے ذریعے لائے گئے۔ اصل مقصد سندھ کا مشاہدہ کرنا اور دریائی راستے کا نقشہ بنانا تھا۔

برنس کو 1841 میں افغانوں  نے کابل میں قتل  کردیا ۔اس کا تذکرہ یہاں اس  رائے کے حوالے سے کیا جارہا ہے جو قیام لاہور کے درمیان اس نے رنجیت سنگھ کے بارے میں لکھی۔ اس نے لکھا:

"ایک آنکھ والے اس شخص کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ قامت پانچ فٹ تین انچ سے زیادہ نہیں!نمود و نمائش سے دور ہے مگر دربار پر اس کی ہیبت چھائی رہتی ہے۔ میں کسی ایشیائی سے اتنا متاثر  نہیں ہوا جتنا رنجیت سنگھ سے ہوا ہوں ۔ تعلیم ہے نہ کسی کی رہنمائی مگر سلطنت کے امور کمال مہارت اور چابکدستی سے نمٹاتا ہے"۔

اب جیک مانٹ کے تاثرات سنیے۔ جیک مانٹ فرانسیسی تھا۔ علمِ  نباتات کا ماہر اور جڑی بوٹیوں کا شائق۔ اسی زمانے میں وہ کلکتہ اور دہلی سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا۔ ہمالیہ کے دامن میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں  اور پودوں پر تحقیق کی۔رنجیت سنگھ کے بارے میں اس نے لکھا:

"یہ پہلا ہندوستانی ہے جسے میں نے متجسس پایا۔اس کی ساری قوم میں جو بے حسی پائی جاتی ہے،اس کی کمی اس کے تجسس نے پوری کردی ہے۔اس نے مجھ سے کئی سو ہزار سوال پوچھے۔برطانیہ ،یورپ ،نپولین،دنیا ،آخرت،جہنم،بہشت،روح،خدا،شیطان اور دیگر ہزار ہا موضوعات پر اس نے بے شمار سوالات کیے۔

ان پڑھ رنجیت سنگھ نے جیتے جی انگریز کو ستلج پار نہ کرنے دیا۔پنجاب کے سکھ سرداروں اور مسلمان نوابوں کو اس نے باجگزار بنا کررکھا۔معلومات  ،حاضر  جوابی اور اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارہا انگریزوں ،فرانسیسیوں اور  افغانیوں سے کامیاب مذاکرات کیے۔پنجاب کی قسمت دیکھیے کہ پونے دو سال بعد اسی مٹی سے ایک اور حکمران ابھرا جو  بظاہر پڑھا لکھا ہے مگر آئے دن اس کی معلومات اور علم کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہورہے ہیں ۔ایک معروف کالم نگار نے'جو انگریزی سے اردو کالموں کی طرف آئے ہیں ۔بتایا ہے کہ موصوف نے ایک بار سعودی عرب کی مثال دے کر فرمایا کہ وہاں تو  ٹیکس لگتا ہی نہیں۔اس سے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انہیں پاکستان کی قومی آمدنی  کے ذرائع بارے میں کچھ نہیں معلوم  ورنہ سعودی عرب کی مثال نہ دیتے۔

رنجیت سنگھ کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کا وجود نہ تھا لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہوتا تو رنجیت سنگھ  امتحان خود دیتا۔ اس کی جگہ  کمرہ امتحان میں کوئی   نقلی رنجیت سنگھ نہ حاضر ہوتا۔اس کا بخت اچھا تھا کہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ ہوتا تو انگریزوں  فرانسیسیوں اور افغانوں ،کشمیریوں  اور سندھیوں سے سرکاری بات چیت کرتے وقت جیب سے چٹیں نہ نکالتا۔فائلیں خود پڑھتا۔تعجب ہے کہ  ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی اسے بین الاقوامی امور پر  عبور حاصل تھا۔یہاں یہ حال ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں  کبھی بھول کر بھی گفتگو نہ کی۔ تعلیم ،زرعی اصلاحات ،بیرونی قرضے ،ان کی لغت میں موجود  ہی نہ تھے۔کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کوئی اہم دستاویز۔

تاریخ میں حیرت کے کتنے باب باندھے جائیں گے صرف اس موضوع پر کہ کیسے کیسے افراد کو قسمت نے تخت پر لابٹھایا اور  تاج پہنایا، قسمت سے زیادہ ایسے حادثوں کی ذمہ داری حالات اور نظام پر ہے۔ صدر ایوب خان نے عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا۔اس کا علم بھی اسی طرح حد سے زیادہ "متاثر" کرتا تھا۔ مشہور ہے کہ  ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کا وفد ملا۔درخواست کی کہ ڈھاکہ ریڈیو سے ٹیگور کے گیتوں پر پابندی ہے ۔ازراہِ کرم اٹھا دیجیے۔فرمایا کہ تم لوگ خود کیوں  نہیں ٹیگور کے گیت لکھتے؟

اس کی شخصیت اور  مجموعی تاثر  کو دیکھتے ہوئے

؎بڑھا بھی دیتے تھے کچھ زیبِ داستاں کے لیے

خان صاحب(یعنی عبدالمنعم خان)ماوزے تنگ سے ملے۔ ان سے پوچھنے لگے کہ ہمارے ملک میں اشتراکیوں کے دو گروہ  ہیں ایک ماسکو نواز اور دوسرا پیکنگ نواز(اس زمانے میں  بیجنگ کو پیکنگ کہتے تھے) آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے؟ ایک لطیفہ یہ  مشہور تھا کہ ڈھاکہ ائیر پورٹ پر خان صاحب نے بطور گورنر صدر ایوب خان کا استقبال کیا ۔گلے ملتے وقت،ایوب خان کو کوئی شئے چُبھی۔تلاشی لینے پر  دیکھا گیا کہ ایوب خان کی تصنیف فرینڈز ناٹ ماسٹرز  عبدالمنعم خان نے سینے کے ساتھ لپٹائی ہوئی تھی!

بڑے بھائی کا علم و فضل کیا کم تھا کہ اب  برادرِ خورد کو مستقبل کا بادشاہ بتایا جارہا ہے او رعمران کے مقابل لایا جارہاہے۔آخر عمران کا کرپشن کے ان  غیر متنازعہ ،مصدقہ اور رسوائے زمانہ کھلاڑیوں سے کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔دنیا تسلیم کررہی ہے کہ کےپی  میں پولیس سیاسی آلودگی سے پاک ہوچکی ہے۔روایت ہے کہ سندھ کے آئی جی ،اے ڈی خواجہ نے، جو اپنی دیانت داری کی وجہ سے سندھ حکومت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں،کہا کہ انہیں سندھ میں کے پی پولیس جیسا سسٹم چاہیے۔ایک ارب درخت لگانے کے علاوہ عمران  خان کی ٹوپی میں کامیابی کے کئی پَر ہیں۔لاکھوں طلبہ پرائیویٹ سکولوں سے اٹھ  کر سرکاری سکولوں میں آگئے ہیں ۔ہسپتالوں میں نظام بدل گیا ہے۔ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔ اس کے کسی رشتہ دار نے صوبائی حکومت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔پنجاب میں اس کے برعکس پولیس  وزیراعلیٰ کی کنیز  سے زیادہ نہیں۔لاہور شہر میں  ایک  رات  میں درجنوں ڈاکے پڑتے ہیں۔ حاکم کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹاؤن پر ختم ہوجاتا ہے۔

ابھی تین دن پہلے معروف کالم نگار رؤف کلاسرہ نے ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایا ہے کہ وزیراعلٰی کی خواہر نسبتی کے ساتھ شادی کرنے والے شخص کو بورڈ آف  انویسٹمنٹ کا سربراہ لگا دیا گیا ہے۔وزیراعلی کو چاہیے تھا کہ صحافی کو عدالت لے جاتے ،یا کم از کم الزام کی تردید ہی کردیتے مگر یہاں کوئی ایک الزام ہو تو  تردید کی جائے ۔راولپنڈی میں حکمران جماعت کے لیڈر نے تھانے پر باقائدہ حملہ کیا اور ملزموں کو چھڑا کر لے گیا مگر لہک لہک کر حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والے وزیراعلی کی رگِ انصاف نہ پھڑکی۔کتنے ہی سرکاری اہلکاروں کے تبادلے سیاست دانوں کی فرمائش پر  کیے گئے۔مضحکہ خیز دعوے کیے گئے اور عشروں کے اقتدار کے باوجود تھانہ کچہری میں رمق بھر تبدیلی نہیں نظر آتی! کیا یہ کرپشن نہیں کہ شہزادہ صوبے کے سیاہ سفید کا مالک ہے اور حکمرانوں جیسا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ صوبے کی اسمبلی  میں ضمیر  کی مردہ لاشوں کے بجائے ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے نمائندے بیٹھے ہوتے  تو ضرور حساب لیتے کہ وزیراعلی کتنی بار چیک اپ کرانے کے لیے لند ن گئے ؟تاریخ نے یہ لطیفہ بھی دیکھا کہ صوبے کا حکمران اپنی صحت کے لیے لند ن گیا  اور وہاں سے ویڈیو کے ذریعے صوبے میں صحت کی"ترقی" کا راگ الاپا۔ظفر اقبال نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہے

؎ مجھے کبڑا نہ سمجھو، زندگی پر

میں ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں!

تاریخ  بھی ہنستے ہنستے دہری ہوگئی ہوگی ۔یہ الگ بات کہ ذہنی کُبڑوں کو ہر طرف  ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ ساون مسلسل برس رہا ہے۔

عمران خان کے ساتھ موازنہ قابلِ دست اندازیء پولیس ہے ۔اگر کوئی صاحب استاد امام دین گجراتی کی شاعری غالب یا اقبال کی شاعری سے موازنہ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لیں تو کون سا آسمان ٹوٹ گرے گا۔شاعر نے تو پہلے ہی مایوسی کا اظہار کردیا تھا۔

؎کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں

اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت!

زرداری صاحب قائداعظم کے ملک کے پانچ سال صدر رہے تو کون سے پتھر برس پڑے۔ یوں بھی مکافاتِ عمل کو  جلدی نہیں اس لیے کہ کچھ لوگوں کی رسی قدرت خود دراز کرتی ہے۔

ایک شاعر سے بادشاہ ناخوش ہوا  اور قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔ وزیر نے سمجھایا کہ قیدِ تنہائی تو شاعر کے لیے نعمت سے کم نہیں۔کتابیں پڑھے گا اور فکرِ سخن کرے گا۔ وزیر نے کہا صبحتِ ناجنس میں ڈال دیجیے،چنانچہ ایک جاہل مطلق سر پھرے کو اس کوٹھری میں بند کردیا گیا۔شاعر نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو۔اس نے پوچھا پہلے تم بتاؤ تم کون ہو؟  شاعر نے جواب دیا  میں شاعر ہوں ۔اس نے کہا میں ماعر ہوں ۔شاعر نے پوچھا ماعر کون ہوتا ہے۔اس نے پلٹ کر پوچھا شاعر کیا کرتا ہےشاعر نے بتایا کہ شعر کہتا ہے۔اس نے جواب دیا ماعر وہ ہوتا ہے جو مِعر کہتا ہے۔اس نے کہا تم بتاؤ شعر کیا ہوتا ہے۔شاعر نے مثال دی۔جیسے ع

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور

ماعر نے کہا مِعر یہ ہوتا ہے ع

ماغ میں مِرتے ہیں کیا مُش مُش مکور

خدا کرے کہ اس قوم کی جان سیاسی ماعروں سے چھوٹ جائے ۔ملک کو حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والوں کی نہیں ،اس انقلابی شاعری کو عملی جامہ پہنانے والوں کی ضرورت ہے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com