صدر تو ایک حادثے کے نتیجے میں سیاست میں در آئے، سوال یہ ہے کہ مصیبت کے اس موسم میں کیا وزیراعظم عوام کے دکھ میں شریک ہیں؟ نہیں! بالکل نہیں! وزیراعظم کو اُس مصیبت کے دسویں تو کیا ہزارویں حصے کا بھی احساس نہیں جس میں ٹیکس ادا کرنےوالے بے بس عوام مبتلا ہیں!
سوٹ اور نکٹائی‘ سوٹ اور نکٹائی‘ اسکے بعد پھر سوٹ نکٹائی اور صرف اور صرف سوٹ اور نکٹائی! دنیا کے تمام ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان اگر سوٹوں اور نکٹائیوں کا مقابلہ ہو تو پاکستان کے وزیراعظم کم از کم اس مقابلے میں فرسٹ پوزیشن ضرور حاصل کر لیں گے! حد سے بڑھے ہوئے اس شوق کی تہہ میں کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا کچھ اور؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جو وزیراعظم سوٹ اور نکٹائی کے بغیر خواب میں بھی نظر نہ آئے اُسے کیا معلوم کہ چالیس سے بڑھے ہوئے درجہ حرارت میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ عوام پر کیا قیامت ڈھا رہی ہے!
کوئی مانے یا نہ مانے، لوڈشیڈنگ سے نجات پانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر اور وفاقی وزیروں کی رہائشی کالونی میں بھی اتنی ہی لوڈشیڈنگ ہو جتنی پاکستان کے عوام کےلئے ہے۔ ان مراعات یافتہ افراد کو صرف ایک جون اور ایک جولائی لوڈشیڈنگ کےساتھ گزارنے دیجئے پھر دیکھئے کہ یہ پرویز اشرفوں اور نوید قمروں کےساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور بجلی کی کمی پوری ہوتی ہے یا نہیں۔
دنیا کے باقی ملکوں میں کیا ہوتا ہے؟ پڑوسی ملک بھارت کے روزنامہ ہندوستان ٹائمز کی ایک عام سی خبر پڑھئے۔
”گول مارکیٹ کی رہائشی آشا کماری نے بتایا کہ دوپہر کے ڈیڑھ بجے کے بعد بجلی بند رہی۔ ہم لوگوں نے بجلی کے محکمے میں اپنی شکایات رجسٹر کروائیں۔ محکمے نے بتایا کہ پاور سپلائی میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اُدھر نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے ایک سینئر اہلکار کا بیان ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے بھی دو شکایات موصول ہوئیں اور دونوں شکایتیں متعلقہ محکمے کو بھیج دی گئیں۔ بجلی منقطع ہونے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ علاقے میں کھدائی کا کام ہو رہا تھا!“
بھارت میں یہ اس لئے ممکن ہے کہ وہاں کے ”بدلباس“ وزیراعظم کے پاس نصف درجن سے بھی کم کُرتے، پاجامے اور شیروانیاں ہیں۔ اسکی بیوی بازار سے سودا سلف خود لاتی ہے۔ دہلی میں جب خواتین نے مہنگائی کے خلاف جلوس نکالا
تو اس میں وزیر اعظم کی بیوی بھی شامل تھی۔
فرانس کی مثال دیکھئے۔ ایوانِ صدر کے تمام اخراجات کی تفصیل آڈیٹر جنرل آف فرانس کو پیش کی گئی۔ آڈیٹر جنرل نے کچھ ایسے اخراجات پر اعتراض کیا جو صدر کو ذاتی جیب سے ادا کرنے چاہئیں تھے لیکن حکومت کے ذمے ڈال دئیے گئے۔ صدر نے یقین دلایا کہ یہ انکے علم میں نہیں تھا چنانچہ صدر سرکوزی نے چودہ ہزار ایک سو تئیس یورو کی رقم قومی خزانے میں اپنی جیب سے جمع کرائی۔ آڈیٹر جنرل نے صدر کو تنبیہ کی کہ خرچ کم کیا جائے۔ کھانا فراہم کرنے والی کمپنیوں سے ازسرنو معاہدے کر کے نرخ کم کرائے جائیں۔ پھولوں اور سجاوٹ کی دیگر اشیاءکم خریدی جائیں۔
ایوان صدر نے گیس اور بجلی کے بل تاخیر سے جمع کرائے اور یوں جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اس پر بھی اعتراض کیا گیا۔ عوام سے سیاسی مسائل پر رائے لینے کےلئے ایوانِ صدر نے سروے کرایا۔ اس پر جو رقم صرف ہوئی آڈٹ نے وہ بھی منظور نہ کی۔ فرانس کے صدر نے ان سارے اعتراضات کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا اور یقین دلایا کہ وہ محتاط ہو جائینگے۔ انہوں نے سینئر اہلکاروں اور افسروں کا دوپہر کا سرکاری کھانا بند کرا دیا اور صدارتی جہاز میں صدر کےساتھ سفر کرنےوالے صحافیوں کو پیش کئے جانےوالے مہنگے مشروبات بھی بند کرنے کا حکم دیا!
یہ تو بھارت اور فرانس کی مثالیں ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو رہا تھا۔ قائداعظم ہر ماہ گورنر جنرل ہائوس کے اخراجات کا خود جائزہ لیتے تھے۔ بہت سے سرکاری اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کر دیتے تھے۔ انہوں نے سٹاف کو ذاتی طور پر ہدایت کی کہ بجلی اور پانی کے استعمال میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔ وہ صرف ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ، علامتی طور، لیتے تھے۔ گورنر جنرل کے طور پر وہ اپنی ذاتی گاڑی پیکارڈ استعمال کرتے جسے وہ بمبئی سے ساتھ لائے تھے۔ یہ انہوں نے پندرہ سال پہلے خریدی تھی۔ ڈرائیور بھی انکا ذاتی ملازم تھا جو اُنکے ساتھ ہی بھارت سے آیا تھا۔ گورنر جنرل گاڑی کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ جب وزارت خارجہ اور محکمہ پروٹوکول نے اصرار کیا کہ گورنر جنرل کےلئے سرکاری کار اور جہاز ہونا چاہیے تو قائداعظم نے رپورٹ طلب کی کہ دولتِ مشترکہ کے باقی ممالک کا اس ضمن میں کیا عمل ہے جب انہیں بھارت میں وائسرائے اور اس کے اہل خانہ پر خرچ کئے جانےوالے بھاری بجٹ کا علم ہوا تو وہ حیران ہوئے۔ انہوں نے وزیراعظم سے کہا ”ہمارا نیا ملک اس سب کچھ کا متحمل نہیں ہو سکتا، میرا بجٹ کم سے کم رکھو، میں اپنے ذاتی خرچ پر آرام سے رہ سکتا ہوں۔ ہمیں کشمیری اور مہاجرین کی آبادکاری کےلئے رقم درکار ہے۔ مجھے نئی کار کی کوئی ضرورت نہیں، میری اپنی کار پیکارڈ ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ رہے لمبے سفر .... تو میں عام پروازوں سے یا ائر فورس کے جہازوں پر جا سکتا ہوں!“
قحط پڑا تو عمر فاروق اعظمؓ نے گھی کا استعمال ترک کر دیا، آپ خشک روٹی کھانے لگے اور کئی مہینے یوں ہی گزر گئے۔ یہاں تک کہ ان کا سرخ و سفید چہرہ سیاہ پڑنے لگا اور لوگوں کو گمان ہوا کہ امیر المومنین اپنی جان سے گزر جائیں گے۔ لیکن جب تک قحط ختم نہ ہو گیا اور عام لوگ گھی خریدنے کے قابل نہ ہو گئے آپ نے یہ مشقت جاری رکھی۔ حضرت علیؓ کی خدمت میں عید کے دن ملاقاتی حاضر ہوا۔ اُس نے دیکھا کہ آپ خشک روٹی تناول فرما رہے تھے!
ملک جہنم بنا ہوا ہے کہیں درجہ حرارت 46 ہے اور کہیں اس سے بھی زیادہ ۔ لوگ بے ہوش ہو کر گر رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اس قدر زیادہ کہ تاریک براعظم افریقہ کے ملکوں میں بھی ایسا نہ ہوتا ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم کچھ بھی نہیں کر سکتے، ان میں وژن ہے نہ ادراک ۔ لیکن وہ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے دفتر....اپنے گھر.... ایوانِ صدر.... اور اپنے وزیروں کے سرکاری محلات میں لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کی سپلائی بند کروا دیں!
No comments:
Post a Comment