Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 31, 2011

کاش! مولانا فضل الرحمن ایسا کر دیں

لاکھ مخالفت کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایسی بات کہی ہے جو متوازن ہے اور جس بات کی بنیاد توازن پر ہو، اسے سننا چاہئے اور اس پر غور بھی کرنا چاہئے۔
  بدقسمتی سے ہم آج دو انتہاﺅں کا شکار ہیں اور سچائی ان دو انتہاﺅں کے درمیان چھپ گئی ہے۔ ایک طرف وہ فریق ہے جو امریکہ پر کئے جانےوالے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا، ہر خرابی کا ذمہ دار مذہبی حلقوں کو گردانتا ہے اور یہ ماننے کےلئے تیار نہیں کہ اگر ہم امریکہ کی چند باتیں مانتے اور اکثر باتیں نہ مانتے تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ وہ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل مشرف اور مسلم لیگ ق کی مشترکہ حکومت نے امریکہ کے وہ مطالبات بھی تسلیم کر لئے جن کی توقع خود امریکی بھی نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا فریق ایک اور انتہا پر کھڑا ہے۔ اسکے نزدیک دھماکے کرنےوالے سب کے سب بھارتی اور اسرائیلی ہیں۔ وہ ایک لمحے کےلئے بھی اس موضوع پر بات کرنا تو درکنار، سوچنا بھی گوارا نہیں کر رہے کہ اگر اسامہ سے لےکر عمر خالد شیخ تک سب کے سب مطلوب افراد پاکستان سے برآمد ہونگے تو دنیا پاکستان کے بارے میں منفی رائے ضرور قائم کرےگی اگر اس فریق سے کہا جائے کہ دہشتگرد بے گناہ پاکستانیوں کو آخر کیوں مار رہے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہے کہ آخر امریکہ بھی تو ڈرون حملے کر رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن بوجوہ کسی سنجیدہ اور متین تعلیم یافتہ پاکستانی کو کبھی اچھے نہیں لگے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ فارمولا زبان زد عام و خاص تھا کہ جے یو آئی وہ مچھلی ہے‘ جو اقتدار کے پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، اقتدار کا پانی جتنا بھی ٹھہرا ہوا, متعفن اور سڑاند والا ہو اس نے اسکے اندر ہی رہنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اقتدار سے نکل کر اور واپس نہ آ کر اپنے ناقدین کو حیران کر دیا۔ خیر یہ تو ایک جملہ، معترضہ تھا۔ ہم بات مولانا کے اس بیان کے بارے میں کر رہے تھے جو انہوں نے دو دن پیشتر علما کنونشن پشاور میں تقریر کی صورت میں دیا اور ایک بار پھر اپنے مخالفین پر (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے) ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی حرکیات
Dynamic
کو بروئے کار لاتے ہوئے تجزیہ کرنا جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ مولانا نے جہاں حکومت کی امریکہ نوازی پر کڑی تنقید کی اور جہاں امریکی عزائم کو بے نقاب کیا، وہاں یہ بھی کہا کہ :
-1
 ملک میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ داڑھی اور پگڑی پہننے والے بھی محفوظ نہیں رہے۔۲
 چونکہ دہشت گردی کی کارروائیاں اسلامی مدارس سے جوڑی جا رہی ہیں اس لئے عسکریت پسندی اور لاقانونیت کی موجودہ لہر کے اثرات، مذہبی حلقوں پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔
-3
 مولانا نے مسلح اور عسکری جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور
-4
 یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ ان کی جماعت صرف سیاسی اور
 پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اس لئے اس نے مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا۔
گویا مولانا نے یہ تسلیم کیا کہ ملک میں ایک مسلح جدوجہد جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زمینی حقیقت برملا کہتی ہے کہ مسلح جدوجہد جاری ہے، دوسرا یہ کہ اسی مسلح جدوجہد کے وقوع پذیر ہونے پر غور اسی وقت ہو سکتا ہے۔ جب ایک چیز کے وجود کا اعتراف کیا جائے۔ مولانا نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا ہے۔ اسکے مقابلے میں جب حقائق کا ادراک کرنےوالا طبقہ ان مسخرہ نما رہنماﺅں کی دھواں دار تقریریں سنتا ہے جو سامنے نظر آنےوالے حقائق کا بھی انکار کرتے ہیں تو وہ سوائے ہنسنے اور ان سے ہمدردی کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔رہا مولانا کا یہ دعویٰ کہ انکی جماعت نے ملک کے اندر ہونےوالی مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا ہے تو یہ ایک متنازعہ بات ہے۔ اسکی وجہ ہماری یادداشت کا ناقص ہونا بھی ہو سکتا ہے لیکن مولانا یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ذو معنی الفاظ اور سیاسی ابہام ہی انکی شناخت رہے ہیں اور بہت کم مواقع پر وہ بات کو برملا انداز میں بیان کرتے ہیں اور چونکہ وہ عربی کے عالم ہیں اسلئے یہ بھی جانتے ہیں کہ الشّاذُ کالمعدوم! یعنی جو بہت ہی کم ہو، وہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے!
انتہائی اہم نکتہ جو مولانا نے بیان کیا یہ ہے کہ موجودہ دہشت گردی کے اثرات مذہبی حلقوں پر پڑ رہے ہیں اس لئے کہ عسکریت پسندی کے ڈانڈے مدرسوں سے ملائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل بات جس سے مولانا اور انکے مکتب فکر کے دوسرے رہنما اب سے پہلے بے نیاز رہے ہیں اور تجاہل عارفانہ کی پالیسی اختیار کئے رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عسکریت پسند ایک خاص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس مکتب فکر نے ہمیشہ سکوت سے کام لیا اور اپنے آپ کو  ان کارروائیوں سے بری الذمہ نہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ ایک معروف مذہبی سکالر سے جب دہشت گردی  کی کارروائیوں کے بارے میں سوال کیا  گیا تو انہوں نے ٹیلی ویژن پر جواب میں یہ کہا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے  اور اس زمانے میں سکوت ہی بہتر ہے۔لیکن کراچی کا جوڑیا بازار  دہشت گردی کا شکار ہئوا تو سکوت کی پالیسی بھک سے اُڑ گئی اور دھئواں دار پریس کانفرنسیں کی گئیں۔ ستم ظریفی کا ارتکاب یہاں تک کیا گیا کہ جب سوات میں قبروں سے لاشیں نکال کرلٹکائی گئیں تب بھی مذمت کی  گئی نہ یہ وضاحت کی گئی کہ مکتب فکر  کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مولوی فضل اللہ جیسے عسکریت پسند  عالم دین نہیں تھے۔لیکن اس قسم کے لوگ ایک مکتب فکر کے علم بردار بن کر اُس مکتب فکر کو بدنام کرتے رہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں  اس مکتب فکر کے ساتھ اس حد تک وابستہ ہو گئیں کہ  حریف مکتب فکر بھی منظم ہو کر اور خم ٹھونک کر  باہر نکل پڑا اور اس نےمطالبہ کیا کہ مزاروں پر حملےکرنے والے مکتب فکر کو روکا جائے۔        

      کستان کسی ایک مکتب فکر کا ملک نہیں، سارے مکاتب فکر کو اس میں رہنے کا حق ہے۔ یہ مکاتب فکر، ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے یہ بھی سوچیں کہ پاکستان کی سلامتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب بھی ہیں اور ہمارے مکاتب فکر بھی ہیں۔مسلّح جدو جہد کرنے والے عسکریت پسند پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ چند بندوق بردار  ہاتھوں کی وجہ سے  سارے مدارس بدنام ہو رہے ہیں۔ مولانا  نے مسئلے  کی نشاندہی  کی ہے  لیکن انکی ذمہ داری یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ لازم ہے کہ مولانا اپنی اس نشاندہی کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مولانا اپنے مکتب فکرکے تمام بڑے بڑے رہنماﺅں اور علماءکو اکٹھا کریں اور انہیں اس حقیقت کا احساس دلائیں کہ چند عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور چند غیر سند یافتہ نیم علماءکے اقدامات کی وجہ سے پورا مکتب فکر بدنام ہو رہا ہے اور زد مدارس پر پڑ رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے  فرقہ وارانہ منافرت میں کمی واقع ہو گی۔ 

15 comments:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

پاکستان میں مزہبی منافرت کے پیچھےبڑھی ہوئ جہالت جس کی ذمہ دار پاکستانی حکومتیں ہیں۔ امریکہ نواز حکومتیں جو تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ انہی مسالک کے گنے چنے وہ لوگ جو اپنے ہم مسلک عوام کے بل بوتے پہ اقتدار کی غلام گردشوں تک پہنچ پاتے ہیں اور محض اپنے مفاد کے لئیے اسے سیاسی قوت کے طور پہ دباؤ ڈالنے کے لئیے استعمال کرتے ہیں امریکہ اور ادہر ادہر سے دانہ چگنے والی وہ تنظیمیں اور پاکستان کی کچھ غیر مذھب شخصیتیں جو پاکستان میں بوجوہ اپنا قد کاٹھ اس حد تک بڑھا چکی ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی اچانک اور ناگہانی صورتحال پہ(جو بدقستی سے آج کال پاکستان میں آئے روز ہوتی ہے) پہ وہ پاکستان کے خلاف اور پاکستان کی عنی اساس پہ اپنی غلیظ سنگ باری شروع کر دیتی ہیں۔

جہاں تک تعلق ہے پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے وجود کا ۔ تو یہ تیار کی گئی وہ چیز ہے جس کا مقصد ہی پاکستانی عوام کو پہلے پہل اس بات پہ تیار کرنا تھا کہ پاکستانی عوام افغانستان کے اندر امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑنے والے لوگوں کی اخلاقی حمایت سے ہاتھ کیھنچ لیں۔ اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے صرف طالبان ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ شامل ہیں۔ مگر پاکستان میں چونکہ ایک اسٹنڈر کا رواج ہے جس کا نام طالبان ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ افغانستان کے اندر برسر پیکار سب سے بڑا اور کئی صوبوں میں واحد گروپ طالبان ہے۔

تو دھوؤں کو وجود دینے والے منصوبہ سازوں نے جن کے پاس وسائل پیسے تکنیک اور ہر زبان بولنے والوں کی کمی نہیں۔ رہی سہی کسر چھوٹا زہن رکھنے والوں پاکستان سے ناراض عناصر مختلف پاکستان کے خلاف بغض رکھنے والے طبقوں ،غیر مسلم قرار دیا گیا ایک خاص فتنہ۔ بکاؤ مال، غربت اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آیا ہوا پاکستانی نوجوان کی شکل میں خام مال وافر ہونا۔ ان سب اجزائے ترکیبی کو باہم ملا کر سب سے پہلے طالبان کی طرز ایک تنظیم تحریک طالبان کے نام پہ کھڑی کی جسکی پشت پناہی پہ وہی طاقتیں جو افغانستان کے اندر طالبان کے خلاف ہیں۔

یہ اسی مذموم اور سائنسی پورپگنڈے اور حکومتی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اچھے خاصے سلجھے زہن کے مالک لوگ پاکستانی ریاست اور پاکستان کی سب سے بڑی این جی ۔اوز یعنی مدرسوں سے مشکوک ہو رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مدرسے تو صدیوں سے یہیں ہیں تو اس خطے میں امریکی دلچسپی سے پہلے تو نہ کبھی خود کش بم دہماکے اور سفاک دہشتگردی پہلے کبھی ہوئی تھی۔ تو پھر اب وہ کونسی وجوہات ہیں کہ اچانک کسی بھی مسجد ۔ کہیں بھی کسی ہجوم کو بلاتفریق اڑا دیا جاتا ہے۔ یہ تو کسی طور پہ کسی بھی مذہب کی بنیادی اخلاقیات پہ پورا نہیں اترتا اور اسلام کی تعلیمات کے تو قطعی طور پہ خلاف ہے۔

آخر قبائلی ایجنیسوں سے ایک سولہ سترہ سالہ لڑکے کو یا ایک آتھ دس افراد کے دہشت گرد گروپ کو ملتان لاہور کراچی جیسی جگہوں تک بمعہ انکی تکینکی سپورٹ کرنے والوں اور باردوی ساز سامان اور جدید اسلحے کے پہنچنے کیوں کر کامیاب ہوجاتے ہیں کہیں ٹریس نہیں ہوپاتے اسوقت تک جب مہران نیول بیس کراچی ۔ پاکستان جی ایچ کیو ہیڈکواٹر اسلام آباد ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پہ لاہور حملہ ۔ اور اسطرح کے ہزاروں دہماکے اور ان پہ اٹھنے والے اخراجات اور لاجسٹک سپورٹ آخر اس سب کا بندوبست کون کرتا ہے؟ پاکستان کے مدارس پہ الزام لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کرنے والوں کو اتنا جدید ترین دہماکہ خیز مواد ، دہشت گردوں کی تربیت، جدید اسلحہ۔ لاجسٹک اسپورٹ، اہداف کے سیاسی تعین۔ انکے بارے درست خفیہ معلومات، اور سب سے بڑھ کر اس پہ خرچ آنے والا زرخطیر انہیں کون مہیاء کر رہا ہے؟


دہوئیں کو وجود عطا کرنے کے بعد پاکستان کے مخصوص حالات جسے مشرف اور موجودہ حکومت کے سیاسی جغادریوں نے مجرمانہ نااہلی اور تغافل سے خاص کر بگاڑا۔ جس میں توانائی کا شدید بحران ۔ غربت افلاس میں بے تحاشہ اضافہ ملکی وسائل کی بندر بانٹ۔ بے جا طور پہ غیر ملکی اشاروں پہ غلط پالیساں اور اسطرح کے دیگر پے در پے اقدامات سے پاکستانی عوام کو نہ صرف پاکستان کے قومی بلکہ بجائے خود پاکستان کے وجود کے ساتھ رہی سہی ہمدردی کو رفتہ رفتی بیزارگی میں بدل دیا ہے ۔ جسے پاکستان مخالف طاقتیں پاکستان سے نفرت میں بدل دینا چاہتی ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

گزشتہ سے پیوستہ

پاکستان کے اندر پے در پے ایسے واقعات اسٹیج کئیے گئے جسے بنیاد بنا کر ساری دنیا میں ہمیں ایک اچھوت ملک کے طور پہ پیش کیا جاتا رہا اور ہمارے حکمران آنے بہانے سے اپنے فرائض میں غفلت برتتے ہوئے انہی طاقتوں کے گیت گاتے رہے جنہوں نے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پہ رکیک حملے کئیے۔ اور دنیا میں پاکستان کا بچھا کچھا اگر کوئی وقار تھا تو اسے مٹی میں ملا دیا اور آج دنیا پاکستان کو ایک اچھوت اور بے اعتبار ملک سمجھتی ہیں اور طرف تماشہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ملکوں کو ملا کر ان سب سے زیادہ گردنیں اس نام نہاد جنگ میں ہم نے کٹوائیں ہیں اور اسکے باوجود کوئی وقات جاتا ہے کہ پاکستان کو غنڈہ ریاست اور دہشت گردی کی پشت پناہ ریاست قرار دے دیا جائے۔

ایسے میں آپ جیسے باخبر لوگوں کا ان تمام بالا اجزائے تکیبی ان تمام عناصر کا احاطہ کئیے بغیر ایک بے چارے مولانا فضل الرحمٰان کے عام سے بیان کو بنیاد بنا کر اسمیں سے وہ کچھ تلاش کر لانا جو شاید انہوں کہا ہی نہ ہو۔ اور اسے اپنے مخصوص معنی پہنا دینے اور پاکستان کے اندر باقی سبھی مزموم ایکٹرز کو یکسر فراموش کر دینا لائق تحسین نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن جنہیں آجکل پاکستان کے موجودہ سیاسی سیت اپ اور بگڑے ہوئے حالات میں اپنی سیاسی شناخت کا مسئلہ ہورہا ہے۔ ان پہ یکے بعد دیگرے دو قاتلانہ حملے ہوچکے۔ ہیں جن میں وہ بال بال بچے ہیں۔ اور اس میں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کسی طور انکی روانگی کی ٹائمنگ اور رستے کا علم پہلے سے دہشتگرودوں کا علم تھا۔ جس وجہ سے دہشت گرد درست اطلاعات کی وجہ سے حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوئے۔

مولنا فضل الرحمٰن سے سیاسی اختلافات سے قطع نظر ان کی سیکورٹی لیپس اور ان پہ اسطرح ہوئے حملے حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہیں جس سے وہ اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ پاکستان میں جو اسلام کے نام پہ وجود میں آیا تھا اسمیں ایک باریش آدمی اور پگڑی باندھنے والا یا ایک عام آدمی ایک سازش کے تحت دن بدن غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے اور اسی نسبت سے علم و تدریس کا کام انجام دینے والے پاکستان کے تاریخی مدارس بھی دہشت گردی کے بے ہودہ الزامات کی وجہ سے غیر محفوظ ہوئے جارہے ہیں۔ کیونکہ جسطرح تحریک طالبان پاکستان کو دہوئیں سے وجود عطا کیا گیا اسی طرز پہ کچھ سالوں میں مشکوک قسم کے مدارس کو بھی وجود عطا کیا گیا جن کے قائم کرنے کا مقصد ہی پاکستان میں دہائیوں سے قائم مدرسوں کا وجود بدنام کرنا تھا۔

یہ ایک ایسی سازش ہے جس سے پاکستان سے پرخارش رکھنے والے ایک ہی وقت میں کئی فائدے اٹھا رہے ہیں جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اگر ایسی گندی سازشوں سے پاکستان عدم وجود ہوتا ہے تو یقین مانیں تو ہر روز ٹائی سوٹ بدلنے والے اور نام نہاد روشن خیالی کا لیکچر جھاڑنے والے بھی اتنا ہی بھگتیں گے جتنا پاکستان کے ایک عام مسلمان کو بھگتنا پڑے گا

Anonymous said...

بھائی جی آپ کچھ بھی کرلیں ان جاہلوں کے بھوسے میں کچھ بھی گھسنے والا نہیں،
ان کی وہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے،
مثال اوپر موجود ہے!
فرماتے ہیں،

آخر قبائلی ایجنیسوں سے ایک سولہ سترہ سالہ لڑکے کو یا ایک آتھ دس افراد کے دہشت گرد گروپ کو ملتان لاہور کراچی جیسی جگہوں تک بمعہ انکی تکینکی سپورٹ کرنے والوں اور باردوی ساز سامان اور جدید اسلحے کے پہنچنے کیوں کر کامیاب ہوجاتے ہیں کہیں ٹریس نہیں ہوپاتے اسوقت تک جب مہران نیول بیس کراچی ۔ پاکستان جی ایچ کیو ہیڈکواٹر اسلام آباد ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پہ لاہور حملہ ۔ اور اسطرح کے ہزاروں دہماکے اور ان پہ اٹھنے والے اخراجات اور لاجسٹک سپورٹ آخر اس سب کا بندوبست کون کرتا ہے؟ پاکستان کے مدارس پہ الزام لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کرنے والوں کو اتنا جدید ترین دہماکہ خیز مواد ، دہشت گردوں کی تربیت، جدید اسلحہ۔ لاجسٹک اسپورٹ، اہداف کے سیاسی تعین۔ انکے بارے درست خفیہ معلومات، اور سب سے بڑھ کر اس پہ خرچ آنے والا زرخطیر انہیں کون مہیاء کر رہا ہے؟

جواب یہ ہے کہ سارے ڈانڈے پنجاب میں جاکر ملتے ہیں،انہیں بنانے والے اور تربیت دینے والے بھی وہیں کے،انہیں سپورٹ فراہم کرنے والے بھی جو پولس اور ایجینسیوں میں موجود ہیں وہ بھی وہیں کے،

مگر جب اس حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے تو لوگوں کو اس میں تعصب نظر آنے لگتا ہے،
اب اندھیرے کو اندھیرا نہ کہیں تو کیااجالا کہیں؟؟؟؟؟؟

Abdullah

Anonymous said...

پاکستان کا بس ایک ہی مسئلہ ہے،
فرعونیت
اور
شتر مرغ پن

Abdullah

Anonymous said...

صدیوں سے موجود ان ہی مدرسوں نے تو جہالت اور انتہاء پسندی کو فروغ دے دے کر دو دو انگل کے دماغ تیار کر کر کے آج پاکستان کو اس نوبت کوپہنچا دیا ہے،
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

یہ بوری بند لاشوں کے ٹریڈ مارکہ مافیا جن کے گرو لاہور میں انگریزوں کے تلوے چاٹ رہیں یہ ان کے بارے دیکھ لیں ۔ کہ یہ خود دہشت گرد گروپ ہے۔ کچھ بارے ان کے بھی بیان ہوجائے۔ کہ یہ کسقدر منافق غیر ملکی طاقتوں کے پٹھو ہیں۔
http://www.qalamkarwan.com/2011/06/%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81%DB%94%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%DA%A9%DB%8C-%D9%84%DB%8C%DA%A9%D8%B3-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%85%D8%AC%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D9%86.html

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

لاہور سے مراد لنڈن ہے

Anonymous said...

:)
بے چارے کی پھڑپھڑاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے!!!!

میرے سچ سے اتنی مرچیں لگتی ہیں تم لوگوں کو؟؟؟؟؟؟؟
اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کہتا ہوں وہ سچ کہتا ہوں!
:)

Abdullah

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

مینڈکی کو زکام ہوا ہے۔

یہ کوئی نئی بات ہے۔ کسی بھی موضوع کو گھسیٹ کر پنجاب پہ تبرہ بیجھنا تمہارا پسندیدہ شغل ہے کیونکہ وہ تمھیں جن الفاظ سے انٹ نیت پہ ساری دنیا یاد کرتی ہے واللہ اگر تم میں تھوڑی سے غیرت ہوتی تو لکھنے کے لئیے کی بورڈ کو ہاتھ تک نہ لگاتے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایویں کیوں ایوں بے غیرت مافیا میں کس قسم کے ڈھیت اور بے غیرت قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

اور یہ وہ وجہ ہے جو اس مافیا کو پنجاب میں کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔

بہر حال تمھیں موضوع یاد کروا دوں وہ مولنا فضل الرحمٰن کا بیان ہے۔

Anonymous said...

جو تبرہ کے قابل ہوں ان پر تو تبرہ بھیجنا ہی چاہیئے!!!!!
بے غیرت اور ڈھیٹ تو تم بھی کم نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!
:)
گھاس تو تم جیسے گدھے کھاتے ہیں،
باقی متحدہ کی پنجاب میں کیا ویلیو ہے یہ آئندہ انتخابات میں دیکھ لینا،ابھی سے کیوں بلبلائے جارہے ہو!!!!!!
:)

Abdullah

Anonymous said...

لخ دیاں لعنتاں۔

تم اپنا منحوس تھوبڑا ہر سنجیدہ جگہ پہ گھسیر کر موضوع بدل دیتے ہوئے ۔

موضوع فضل الرحمن کا بیان ہے۔

Anonymous said...

Assalam o Alaikum brothers,

Please refrain from abusing each others. You are all educated Pakistanis, and you have right to express your opinions with all freedom. All your opinions are equally important, and none of the opinions including the column writer Muhammad Izhar ul Haq, is "Harf e Aakhir" (final statement).

Please be patient and tolerant to others' opinions and others' ethnicity - because at the end we are all Pakistanis and wish good for our country.

Tolerance and patience is what we lack as a nation at this point of time. We should be more constructive in our opinions rather than abusing each other. If we dont agree to someone else's opinions, we should argue positively and logically- getting angry at each other and start abusing doesnt get us anywhere.

And we should remember: education is for all.

Jazakahum Allah Al Khair

Anonymous said...

I absolutely agree with the above post.

Let us be more constructive than this, and promote unity and good will and positive attitudes in this hard time for pakistani nation

Anonymous said...

اس شخص نے ہمیشہ اسی طرح کی گالم گلوچ کی ہے اور جواب ملنے پر ایسے ہی ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا ہے !
اتنا گند بکھیرتے ہیں یہ لوگ ،اور پھر سارا الزام ،دوسروں پر ڈال کر خود پاک صاف بن جاتے ہیں!
اور بزدلی کی انتہاء یہ ہے کہ گند ڈالتے ہوئے اپنا نام نہیں دیتے،نامعلوم تبصرہ کرتے ہیں!!!
اللہ ہی انہیں ہدایت دے تو دے،ورنہ انکے سدھرنے کے کوئی آثار نہیں،ایجینسیوں کے ٹاؤٹ!!!!!!!

Abdullah

محمد اظہارالحق said...

میں اپنے پڑھنے والوں کا شکر گذار ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کا ردِّعمل ہی لکھنے والے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ ہاں ہر فرد کا اپنا اسلوبِ بیان ہے۔ اسی لیے کچھ دوستوں کا اسلوب ، کچھ اور دوستوں کو کھردرا لگتا ہے۔ ایک شعر اس حوالے سے یاد آرہا ہے
اُس کا درشت لہجہ اُسے اس طرح لگا
سِلکی بدن پہ جیسے سجے کھردری قمیض
زیرِ نظر تحریر میں بنیادی طور پر میرا مقصود یہ تھا کہ ملک کے [ آبادی کے لحاظ سے ] دو بڑے مکاتب ِ فکرمیں جو خطرناک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے اس کا تدارک ہونا چاہیے۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مزاروں پر حملے ہو رہے ہیں۔یہ حملے امریکہ کرا رہاہے یا را یا ہمارے اپنے ہم وطن، حملے بہرطور ہو رہے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ ہمارے عسکریت پسند جس مکتب ِ فکر سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں وہ مکتب فکر آگے بڑھتا اور ان حملوں کی ، اگر مگر کیے بغیر ،غیر مشروط مذمّت کرتا۔
میں دیانت داری سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کوئی مکتب فکر، کوئی فریق، کوئی سیاسی پارٹی اور کوئی مذہبی جماعت، مکمل طور پر معصوم ہے نہ کُلّی طور پر گنہگار ۔ اس وقت ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں اس کے ہم سب،اس کالم نگار سمیت، ذمہ دار ہیں۔
اگر دوسروں کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آپ کو بھی مجرم سمجھیں اور عدم برداشت کا رویّہ ترک کر کےبرداشت کا کلچراپنائیں تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو سکتے ہیں ۔
محمد اظہارالحق

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com