اس کا باپ فیکٹری میں کام کرنیوالا ایک عام ملازم تھا۔ آج وہ برطانیہ کی کابینہ میں وزیر ہے اور قومی سطح کی سیاسی پارٹی کی سربراہ!
حیرت مجھے یوں چمٹی ہے کہ پنڈا نہیں چھوڑ رہی۔ میں اس خبر پر کیسے یقین کر لوں! اس خاتون کا تعلق کسی جاگیردار خاندان سے نہیں۔ اسے اسمبلی کی نشست دادا اور باپ سے ورثے میں نہیں ملی۔ یہ خاتون صنعت کار نہیں۔ اسکے پاس محلات ہیں نہ کارخانے، اس کے پاس جعلی ڈگریاں نہیں۔ اس نے سیاسی پارٹیاں نہیں تبدیل کیں۔ اس نے فوجی حکمران کی وردی استری نہیں کی نہ یہ نعرہ لگایا کہ ہم اسے دس بار منتخب کروائیں گے۔ اس نے کروڑوں اربوں کے قرضے معاف نہیں کرائے۔ ٹیکس چوری نہیں کرتی۔ صحیح ڈیوٹی دینے والے پولیس مین کو ناک سے لکیریںنہیں نکلواتی۔ اسکے آگے پیچھے چمکتے ہوئے اسلحہ کی نمائش کرنیوالے باڈی گارڈ نہیں۔ قانون کو پائوں تلے روندنا اپنا پیدائشی حق نہیں مانتی۔ اس میں تکبر ہے‘ نہ جہالت، اسکے باوجود وزیر بن گئی! الیکشن جیت لیا اور ایک سیاسی پارٹی کی سربراہ مقرر کر دی گئی! میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اسکے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی پارٹی کی قیادت سنبھالے گی اور کیا پارٹی کے ارکان، معزز ارکان … اسکے صاحبزادے یا صاحبزادی کی غلامی قبول کر لیں گے؟
میں اس خبر پر کیسے یقین کر لوں؟ کیا فی الواقع ایسا ہوا ہے؟ کہیں یہ کیمرہ ٹرک تو نہیں! میری مثال اس خاکروب کی ہے جس کی حکایت رومی نے مثنوی میں بیان کی ہے۔ وہ خاکروب عطر فروشوں کے بازار میں جا پہنچا اور تھوڑی دیر کے بعد بے ہوش ہو گیا۔ عطر فروش جمع ہو گئے اور اسے قیمتی سے قیمتی عطر سنگھانے لگ گئے تاکہ وہ ہوش میں آئے لیکن خاکروب بدبخت ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ کا گزر ہوا۔ وہ کہنے لگے۔ بے وقوفو! اسے اس ٹوکرے کی غلاظت سنگھائو جو اسکے سر پر تھا۔ عطر اسکے نصیب میں کہاں، عطر کی خوشبو ہی سے تو یہ بے ہوش ہوا ہے!
میں بے ہوش ہونے کے قریب ہوں۔ خدا کیلئے تم سب ہٹ جائو، تمہارے قیمتی عطر مجھے بے ہوش کر کے رہیں گے۔ میرا ٹوکرا کہاں ہے؟ اسے ادھر لے کر آئو اور اسے میری ناک کے نیچے رکھو، میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! جعلی ڈگریوں والے امیدوار اور ان کی مہم چلانے والے حکومتوں کے سربراہ! مخالف امیدوار کے ٹوٹے ہوئے دانت اور ٹوٹے ہوئے بازو!پارٹیوںکی قیادت سنبھالنے کیلئے تیار بیٹھے ہوئے شہزادے! جن کے مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار کو قتل کیا گیا اور جس کی مخالفت میں پوری اسمبلی سے … جی ہاں‘ پور ی اسمبلی سے… صرف تین آوازیں بلند ہوئیں۔ پارٹیاں بدلنے والے اور بدلنے والی ارکان اسمبلی اور تین تین سو کنال کے ’’گھروں‘‘ میں رہنے والے سیاسی لیڈر!
دیکھو! میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! دو برس کی مدت میں ایک ہزار چار سو سولہ ڈاکٹر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ آبادی کے حساب سے ملک میں ایک لاکھ اکاسی ہزار نو سو چوبیس ڈاکٹروں کی پہلے ہی کمی ہے۔ دانتوں کے ڈاکٹر ایک لاکھ پچاس ہزار پانچ سو اکاون کم پڑ رہے ہیں! بین الاقوامی معیار کی رو سے ہر پانچ سو اشخاص کیلئے ایک ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں کئی ہزار افراد ایک ڈاکٹر پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس شدید کمی کے باوجود وفاقی وزیر جناب سید خورشید شاہ قومی اسمبلی میں بتاتے ہیں کہ یہ جو دو سال کے عرصہ میں ایک ہزار چار سو سولہ ڈاکٹر اور سات سو چوہتر ڈسپنسر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ایک تو یہ زرمبادلہ بھیجیں گے۔ دوسرے بیروز گاری کم ہو گی سبحان اللہ میرے ٹوکرے میں کیسے کیسے نکتے اور فلسفے ہیں۔ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں حاملہ عورتوں اور کم سن بچوں کے مرنے کے اعداد و شمار دنیا بھر کے ملکوں میں سرفہرست ہیں لیکن حکومت اس پر سجدہ شکر بجا لاتی ہے کہ زرمبادلہ کمانا ہے تو ڈاکٹروں کو کم تنخواہیں دو۔ انکی عزت پٹواریوں، تھانیداروں اور سیکشن افسروں سے بھی کم کرو۔ سیاست دانوں کو ملک لوٹنے کے طریقے بتانے والی نوکر شاہی کو چالیس چالیس کنال کی کوٹھیاں اور دس دس گاڑیاں دو لیکن ڈاکٹروں کو جھونپڑی تک نہ دو اورگدھا گاڑی کیلئے بھی ترسائو اتنا کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اسکے بعد مریضوں کو مرنے دو اور زرمبادلہ زیادہ ہونے کی خوشی میں تالیاں بجائو اور ڈھول پیٹو!
میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! ورلڈ بنک نے پنجاب میں ترقی کا سارا پول کھول دیا ہے۔ اس نے اعداد و شمار دیئے ہیں کہ ترقیاتی رقوم کا بھاری حصہ صرف ایک شہر… ایک خاص شہر… پر صرف ہو رہا ہے۔ اس شہر میں ہر شخص پر 35 ہزار روپے ترقیاتی بجٹ میں سے خرچ ہو رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جو شہر (راولپنڈی) سب سے زیادہ ترقیاتی رقوم حاصل کر رہا ہے اس کا فی کس خرچ دس ہزار روپے ہے۔ ورلڈ بنک کہتا ہے کہ لیہ جھنگ میانوالی اٹک اور دوسرے شہر کسی شمار کسی قطار میں نہیں ۔
میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! فاروق لغاری، ذوالفقار کھوسہ، عابدہ حسین، مخدوم احمد محمود اور حنا ربانی کھر ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے لکژری گاڑیوں کے ٹیکس نہیں ادا کئے۔ یہ خبر ایک ہفتہ پہلے متعلقہ محکمے نے دی ہے!
حیرت مجھے یوں چمٹی ہے کہ پنڈا ہی نہیں چھوڑ رہی! کیا ہے برطانیہ کے پاس؟
میرے ملک کے دو ضلعوں کے برابر رقبہ!
برف،
سردی سے ٹھٹھرتے لوگ،
سال میں دس مہینے ہر طرف چھائی ہوئی تاریکی، دھند اور زندگی کو عذاب بنا دینے والی مسلسل بارشیں!
اور کیا نہیں ہے میرے ملک میں!
سارے موسم،
سارے لینڈ سکیپ،
سارے پھل،
قسم قسم کے غلے،
ساری دنیا سے زیادہ ذہین اور فطین باشندے،
دریا،
سمندر،
دھرتی کا ایک انچ بھی ایسا نہیں جس کے نیچے قیمتی معدنیات نہ ہوں۔
ایسے ایسے خوبصورت علاقے جن کا کرہ ارض پر کوئی جواب نہیں!
اسکے باوجود برطانیہ آگے ہے، کوسوں ٰآگے، کئی نوری سال آگے اور میرا ملک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے!
افسوس! میں حیران تو ہوں لیکن دیکھتا نہیں! میں نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ میں یہ نہیں دیکھتا کہ برطانیہ میں اصول ہیں جنہیں توڑا نہیں جاتا! وزیر اعظم پولیس کے سربراہ سے کہتا ہے کہ اگر میں نے اپنے دفتر میں غیر ملکیوں کو ملنا ہو تو اسمبلی سے نکل کر… وقت پر نہیں پہنچ پاتا اس لئے راستے کی ٹریفک کو روکا جائے لیکن پولیس کا سربراہ انکار کر دیتا ہے اور مشورہ دیتا ہے کہ جناب وزیراعظم! آپ دس منٹ پہلے روانہ ہو جایا کریں! وزیراعظم کی اہلیہ ٹرین چھوٹ جانے کے ڈر سے ٹکٹ خریدے بغیر سوار ہو جاتی ہے۔ اسے عدالت میں جانا پڑتا ہے اور جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے! میں حیران تو ہوتا ہوں لیکن یہ نہیں یاد کرتا کہ کچھ عرصہ ہوا لندن میں ایک دوست کے گھر کھانا کھانے گیا، قطار کے سارے مکان ایک جیسے تھے۔ میزبان نے بتایا کہ اس قطار میں انہی ایک جیسے گھروں میں سے ایک گھر میں خاکروب رہتا ہے اور ایک اور گھر میں اسمبلی کا رکن! اسی لئے تو فیکٹری کے عام ملازم کی بیٹی سعیدہ وارثی … مسلمان ہونے کے باوجود… پاکستانی نژاد ہونے کے باوجود… ٹوری پارٹی کی سربراہ بن جاتی ہے اور کابینہ کی فل وزیر!لیکن یہ باتیں چھوڑئیے… یہ تو عطر فروشوں کا بازار ہے! آئیے یہاں سے جلدی نکل چلیں ورنہ ہم بے ہوش ہو جائیں گے!
1 comment:
ہمارے بس میں اپنے ہی منہ پر طمانچے مارنے اور بین کرنے کے علاوہ کیا ہے؟
Post a Comment