لنکا سے جو بھی نکلا‘ سو باون گز کا! اعلان کیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمت کی ریٹائرمنٹ عمر ساٹھ سال سے گھٹا کر اٹھاون سال کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ غیر مقبول ہونے کے لیے بھی حکومتیں کیا کیا کوششیں کرتی ہیں!
پڑھنے والوں کی توجہ پہلے بھی اس کتاب کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام
The March of Folly
ہے۔ مصنفہ کا نام
Barbara Tuchman
ہے۔ حکومتوں کی حماقتیں سمجھنے کے لیے یہ کتاب اکسیر ہے‘ خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں کی حماقتیں! افسوس! کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ بہت سی ڈھنگ کی کتابیں جن کا پڑھنا لازم ہے‘ یہاں دستیاب ہی نہیں! آپ کا کوئی عزیز یا دوست امریکہ یا برطانیہ سے آ رہا ہے تو شرٹ یا ٹائی یا چاکلیٹ منگوانے کے بجائے کتابیں منگوائیے اور یہ کتاب تو ضرور منگوائیے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ حکومتوں کے اقدامات احمقانہ ہوتے ہیں جبکہ فرد اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر‘ دانائی سے کرتا ہے۔ دانائی سے فیصلے کرنے کی تعریف یہ ہے کہ فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے۔ اوّل‘ ماضی کے تجربات اور نتائج۔ دوم‘ ماضی کے تجربوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کیے گئے مستقبل کے تخمینے (پروجیکشن) اور سوم‘ کامن سینس۔ آپ غور کیجیے‘ بھٹو صاحب کے عہدِ حکومت میں صنعتوں کا قومیایا جانا ایک احمقانہ فیصلہ تھا جو ملک کو کئی دہائیاں پیچھے لے گیا۔ حکومتیں کاروبار کے لیے نہیں ہوتیں‘ کاروبار کے حوالے سے ایسے قوانین بنانے کے لیے ہوتی ہیں جو عوام کے مفاد کی حفاظت کریں۔ ہماری پچھتر سالہ تاریخ حکومتوں کی حماقتوں سے اٹی پڑی ہے۔ اسکندر مرزا کا لگایا ہوا مارشل لاء‘ ایوب خان کا اقتدار پر قبضہ‘ ون یونٹ کی تشکیل‘ جنرل یحییٰ کا قومی اسمبلی کا اجلاس 1971ء میں غیر معینہ مدت کے لیے منسوخ کر دینا‘ آرمی ایکشن‘ بھٹو صاحب کا الیکشن میں گڑبڑ کرنا‘ دلائی کیمپ‘ حریفوں کو مرو ا دینا‘ اس کے بعد تو حماقتوں کی انتہا ہی نہ رہی۔ جنرل ضیا نے تو حد کر دی۔ سرحدیں غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے کھول دیں۔ افغان پورے ملک میں پھیلا دیے۔ قوم نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باہمی لڑائیاں اور پیٹ پھاڑ دینے کے دعوے بھی دیکھے۔ عمران خان کی حکومت بھی حماقتوں سے خالی نہ تھی۔ بزدار کا انتخاب‘ دوست نوازیاں! پچھلے حکمرانوں کی طرح توشہ خانے کے معاملات میں ملوث ہو جانا‘ یہ حکومتوں کی فقط چند حماقتیں ہیں!
یہ جو تیاری ہو رہی ہے کہ سرکاری ملازمین کو اٹھاون سال پر ریٹائر کر دیا جائے‘ احمقانہ سوچ کی تازہ مثال ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے تو یہ سوچا جا رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ عمر ساٹھ سال کے بجائے باسٹھ سال کر دی جائے۔ اسے کہتے ہیں ذہنی عدم استحکام!! کبھی ایک میل آگے کبھی چار کوس پیچھے!! اٹھاون سال کر دیں گے تو ہر طرف سے نقصان ہی نقصان ہو گا۔ مقبول تو آپ پہلے ہی کوئی خاص نہیں ہیں‘ غیر مقبول پہلے سے زیادہ ہو جائیں گے۔ جن کے پاس سرکاری مکان ہیں اور انہوں نے ساٹھ سال کے حساب سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے‘ ان کے لیے یہ اقدام لرزہ خیز ہو گا۔ بے شمار خاندانوں کو صدمہ پہنچے گا اور نقصان ہو گا۔ اب تو پہلے کی نسبت متوقع عمر (Life Expectancy) زیادہ ہے۔ صحت کی سہولتیں بہتر ہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرکاری سہولتیں بہتر ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت نجی شعبے سے علاج کراتی ہے اور ادویات اپنی جیب سے خریدتی ہے) پینسٹھ بلکہ ستر سال تک لوگ کام کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ پھر‘ یکدم آپ اتنے زیادہ لوگوں کو ریٹائر کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تجربہ کار افرادی قوت سے محروم ہو جائیں گے۔ بہت بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔ سرکاری شعبہ‘ جو پہلے ہی زیادہ مستعد نہیں اور جس کی کارکردگی اب بھی قابلِ رشک ہرگز نہیں‘ مزید مایوس کن نتائج دے گا۔ آپ یہ امید کر رہے ہیں کہ مدتِ ملازمت کم ہو گی تو پنشن بھی کم ہو گی مگر یہ بھول رہے ہیں کہ یکدم بہت زیادہ تعداد میں ریٹائر کرنے سے پنشن کا بوجھ بہت زیادہ ہو جائے گا۔
سب سے بڑا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امتیازی سلوک جو سرکاری ملازموں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ کیا ریٹائرمنٹ عمر کم کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ حالت یہ ہے کہ ہر حکومت بے یار ومدد گار ملازمین کو ساٹھ سال پر ر یٹائر کر دیتی ہے مگر سفارشیوں‘ خدمت گاروں‘ ٹوڈیوں‘ چمچوں‘ ذاتی وفاداروں اور کنیز نما ملازموں کو توسیع دے دیتی ہے۔ ستر ستر‘ اسی اسی سال کے افراد اب بھی دفتر سنبھالے بیٹھے ہیں۔ بعض کے بارے میں تو لوگ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ مقبرہ دفتر ہی میں بنے گا۔ سب جانتے ہیں کہ پولیس افسروں سے کون پوچھتا تھا کہ ''ہم سے دوستی کرو گے؟‘‘ کون کافر اس سوال کا جواب نفی میں دے سکتا ہے! صاف ظاہر ہے کہ دوستی کا مطلب یہاں وفاداری اور ذاتی نوکری ہے‘ ورنہ کھرب پتیوں کی دوستی گریڈوں میں پلنے والے سرکاری ملازموں سے کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جن افسروں کو فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبر لگایا جاتا ہے‘ وہ سو نہیں‘ ایک سو دس فیصد سفارش یا ذاتی تعلق کی بنا پر لگتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر جائیں گے‘ اور آپ کی ''اوپر‘‘ تک رسائی نہیں ہے تو آپ کو بُلا کر‘ ملازمت پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جائے گی؟ ایسی کوئی ایک مثال بھی نہیں!! دیانت داری‘ محنت‘ میرٹ‘ کسی وصف کی کوئی اہمیت نہیں! ریٹائرمنٹ کے بعد صرف اسی کو ملازمت ملتی ہے جس کی سفارش ہو یا جس نے نوکری کے دوران کوئی سیکرٹ فروخت کیا ہو یا ذاتی چاکری کی ہو۔ سب سے زیادہ انصاف کی امید عمران خان سے تھی مگر ان کے زمانے میں بھی وہی کچھ ہوتا رہا جو ہو رہا تھا۔ ان کے زمانے میں پنجاب میں محتسب کی اسامی خالی ہوئی تو ایک وفاقی سیکرٹری کو ایک سال پہلے ریٹائر کر کے اس اسامی پر لگا دیا گیا تاکہ چار پانچ سال مزید مل جائیں! کچھ ایسا ہی سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہوا۔ اور یہ صرف دو مثالیں ہیں! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی آپ نے یہی کچھ کرنا ہے تو یہ اٹھاون سال والا ظلم خدارا مت کیجیے۔ کل کو روزِ حشر کیا جواب دیں گے کہ جو بے یار ومددگار تھے انہیں اٹھاون سال پر چلتا کر دیا اور جو سفارشی تھے اور جی حضوری میں طاق‘ انہیں سالہا سال تک نوکری دیے رکھی بلکہ کچھ کو پارلیمنٹ کی ممبری دے کر وزارت بھی دے دی! اور یہ صرف اس حکومت میں نہیں ہو رہا‘ ہر حکومت نے یہی کچھ کیا ہے۔ جن صاحبان کے بارے میں مشہور ہے کہ دوستی نبھاتے ہیں‘ وہ دوستوں کو اپنی جاگیروں یا اپنے کارخانوں میں نہیں لگاتے‘ یہ دوستیاں سرکاری عہد ے دے کر نبھائی جاتی ہیں! ویسے ریسرچ کے لیے یہ ایک چشم کُشا موضوع ہو گا۔ تحقیق ہونی چاہیے کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری پانے والوں اور بیرونِ ملک تعیناتیاں اُڑا لے جانے والوں کے پاس کیا کیا گیدڑ سنگھی تھی‘ کس کس کی سفارش تھی اور سیاست دانوں کی کیا کیا خدمات کس کس نے انجام دی تھیں اور یہ بھی کہ مقتدرہ کا ہاتھ کس کس کے کندھے پر تھا! اس سے ہماری سوسائٹی میں پھیلی ہوئی بدبودار کثافت بھی کھل کر سامنے آ جا ئے گی!! چنانچہ گزارش ہے (ہم تو گزارش ہی کر سکتے ہیں) کہ اگر اٹھاون سال والا چُھرا چلانا ہی ہے تو پھر سب کے گلوں پر بلاامتیاز چلائیے! کسی کی سفارش نہ مانیے۔ یاد رکھیے قبرستان ناگزیر افراد سے بھرے پڑے ہیں!
No comments:
Post a Comment