لگتا ہے کہ ملکہ کو تاریخ سے واقفیت بھی ہے اور تاریخ کا شعور بھی!
اسے معلوم ہی ہوگا کہ التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ کس بہادری سے دہلی کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرتی رہی۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ احمد نگر کی چاند بی بی نے اکبر کے عہد میں مغلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل نے کس طرح 1857ء کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ انگریز دشمن نے بھی ان کی بہادری کی تعریف کی۔ ہتھیار ڈالنے کے بجائے نیپال جانے‘ ایک مشقت بھری زندگی اور پھر گمنامی کی موت کو ترجیح دی۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ رانی جھانسی (لکشمی بائی) نے کس طرح فرنگی دشمن کا مقابلہ کیا۔ غنیم سے جھانسی واپس لی۔ جب کوئی چارہ نہ رہا تو ایک فقیر سے کہہ کر اپنے آپ کو نذرِ آتش کروا دیا۔ راکھ بن گئی مگر اپنا پاک جسم مر کر بھی دشمن کے حوالے نہ کیا۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ سلطنت کا تمام کاروبار ملکہ نور جہاں کے ہاتھ میں تھا یہاں تک کہ شاہی مُہر بھی! جہانگیر نے کہا تھا کہ اُسے تو بس آدھا کلو گوشت اور کچھ شراب چاہیے! اسے معلوم ہی ہوگا کہ چار عقلمند خواتین نے بھوپال پر حکومت کی اور اس توازن کے ساتھ حکومت کی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانوی ہند کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات خراب بھی نہیں کیے اور ریاست کے تمام امور میں خود مختاری بھی حاصل رہی! قدسیہ بیگم بھوپال کی پہلی خاتون حکمران تھیں۔1837ء میں ان کی حکومت ختم ہوئی۔ نواب سکندر بیگم دوسری خاتون حکمران تھیں۔ انگریز سرکار نے انیس توپوں کی سلامی کی اجازت دی تھی۔ حج کیا تو ایک ہزار افراد ساتھ لے کر گئیں جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ حج کا سفر نامہ اُردو میں تصنیف کیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1870ء میں شائع ہوا۔ اس میں نواب سکندر بیگم نے لکھا کہ جدہ اور مکہ میں صفائی خاطر خواہ نہیں تھی اور یہ کہ ترک اور عرب مہذب تھے نہ دین کا علم رکھتے تھے۔ سکندر بیگم نے ریاست میں کسٹم آفس قائم کیا‘ سیکرٹریٹ بنایا۔ ٹکسال قائم کیا۔ خفیہ اطلاعات کا محکمہ قائم کیا۔ ڈاک کا نظام جاری کر کے ریاست کو بقیہ ہندوستان سے مربوط کیا۔ فارسی کے بجائے اُردو کو دربار کی زبان قرار دیا۔ شاہ جہان بیگم بھوپال کی تیسری حکمران خاتون تھیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ کیخسرو جہاں بیگم چوتھی اور آخری خاتون حکمران تھیں۔ تعلیم کی خوب توسیع کی۔ آرمی‘ پولیس‘ ٹیکس‘ اور عدلیہ میں اصلاحات کیں۔ 1926ء تک حکمران رہیں!
حکمران خواتین کے اس طویل سلسلے اور روایت کے بعد‘ آج اگر ایک خاتون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو عملاً چلا رہی ہے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ آپ نظریاتی سطح پر مخالف ہیں تو مخالفت ضرور کیجیے۔ یہ آپ کا حق ہے۔ یہ قلم کار بھی نظریاتی حوالے سے مخالف ہے اور اتنا ہی شدید مخالف ہے جتنا شدید پہلے حامی تھا۔ آپ جادو کا طعنہ دینا چاہتے ہیں تو دیجیے۔ ساحرہ سمجھیے یا کاہنہ! تنک مزاج کہنا چاہتے ہیں تو کہیے‘ بزدار اور گجر کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تو وہ بھی ضرور دیجیے مگر آپ ملکہ کی جرأت اور بہادری سے انکار نہیں کر سکتے۔ جس طرح وہ گھر سے نکل کر جلوس میں شامل ہوئیں اور قیادت کی‘ اس طرح پاکستانی خواتین کا مزاج ہی نہیں۔ ایسی تو لاکھوں میں ایک ہوتی ہے۔ ملکہ چاہتی تو جیل جانے کے بجائے معافی مانگ کر آرام سے گھر بیٹھ جاتی۔ جیل سے نکل کر بھی سارے معاملات سے اپنے اپنے آپ کو الگ کر کے کسی گوشۂ عافیت میں ٹھکانہ کر سکتی تھی مگر اس نے ایک روایتی پاکستانی بیوی بننے کے بجائے ایک فائٹر بننے کو ترجیح دی۔ آج اگر قیدی شوہر سب سے زیادہ اعتماد اسی پر کرتا ہے تو اس لیے کہ و ہ قابلِ اعتماد ہے اور معتبر ہے۔
جو مرد اس کے اردگرد جمع ہیں‘ بلکہ یوں کہیے کہ تقدیر نے اسے مردوں کے جس حلقے میں لاکھڑا کیا ہے‘ وہ مرد بے خوفی میں اور پیش رفت میں اور پیش گامی میں اور حملہ آور ہونے میں پہل کرنے میں اس کے پاسنگ بھی نہیں! ان میں سے کچھ تو کمین گاہوں میں روپوش ہیں۔ باہر نکل کر معاملات کا سامنا کرنے کی ان میں طاقت نہیں! ہاں بڑ ہانکنے میں ان کا ثانی کوئی نہیں! کچھ باہر ہیں مگر نیمے دروں نیمے بروں! ہزار مصلحتوں نے ان کے پیروں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں! مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ درمیان میں ڈانواں ڈول ہیں‘ نہ پورے اس طرف نہ پورے اُس طرف!! کردار کے غازی تو کیا ہوتے‘ گفتار کے غازی بھی نہیں! آپس میں کو آرڈی نیشن مکمل مفقود ہے۔ کسی کی شخصیت میں ایسی کشش‘ ایسی مقناطیسیت نہیں جو پارٹی کے کارکنوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ ان میں سے کچھ کی ساری زندگی خارزارِ سیاست میں گزری ہے مگر سینوں میں نالہ ابھی تک خام ہے۔ بات کرتے ہیں تو گَلے کے اوپر اوپر سے نکلتی ہے‘ دل سے کوسوں دور! عام کارکنوں کے جذبات سے بے نیاز! اپنی ذات کے اسیر! چھوٹی چھوٹی اغراض کے محاصرے میں بند! گفتگو کریں تو گہرائی نہیں! گویا ملکہ زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسی نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ایک سوال اور بھی ہے جس پر کم ہی غور ہوا ہے! کیا اس حد سے زیادہ ذہین اور حاوی ہونے والی خاتون کا شوہر بھی اتنا ہی ذہین ہے؟ ایسا ہوتا تو وہ حاوی ہوتا۔ فیصلے سارے یہ بہادر اور جری خاتون کرتی تھی۔ کس وقت جانا ہے‘ کب آنا ہے‘ کس وقت کیا کھانا ہے‘ کس وقت کیا پینا ہے‘ کس وقت سونا ہے‘ کس وقت جاگنا ہے‘ کس کو کہاں تعینات کرنا ہے‘ کس کو کہاں سے ہٹانا ہے؟ کون حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرے گا‘ کون نہیں کرے گا؟ کون گورنر بنے گا‘ تسبیح میں کون سا وِرد کرنا ہے‘ یہ سب کچھ ملکہ طے کرتی تھی! روحانی سلسلہ تھا یا نہیں! ذہانت‘ قوت ارادی اور بے خوفی ضرور تھی۔ اور اگر روحانی سلسلہ تھا بھی تو روحانیت بھی ذہانت کے بغیر در نہیں آتی! جو کچھ بھی ہوتا رہا‘ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کی پشت پر اس جری خاتون کا دماغ ہے۔ سب پیٹھ پیچھے بڑبڑاتے ہیں‘ شکایتیں کرتے ہیں‘ مگر اس کے سامنے سب سہمے ہوئے بیٹھتے ہیں! کوئی اُف کرتا ہے نہ چوں! رعب ہے۔ خود اعتمادی ہے۔ مردوں کے اس پدرسری معاشرے میں اس نے اپنا لوہا منوایا ہے تو اس پر اعتراض کیسا!
توشہ خانے کے معاملات میں اسے دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر اس نے کب دعویٰ کیا ہے کہ وہ فرشتہ ہے! جو کچھ اس نے اور اس کے شوہر نے توشہ خانہ کے حوالے سے‘ مبینہ طور پر‘ کیا ہے‘ اس صفحے پر اس کی حمایت نہیں کی جا رہی۔ مگر اس سے پہلے جن حکمرانوں نے توشہ خانے کے اموال کو شیرِ مادر گردانا‘ کیا ان پر بھی مقدمے چلائے گئے؟ اس جرم میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا تو سب کو کھڑا کرتے۔ بڑی بڑی‘ بیش بہا گاڑیاں توشہ خانے سے لی جاتی رہیں۔ پلاسٹک سے بنا ہوا اور جعلی حلقے سے جعلی طور پر منتخب شدہ ایک سابق وزیراعظم توشہ خانے کے ڈھیر سارے تحائف کی بھاری گٹھڑی سر پر رکھے ملک سے بھاگ گیا‘ اسے تو کسی نے آج تک ایک معمولی سا نوٹس بھی نہیں بھیجا۔ کسی کو پکڑ لینا اور کسی کو چھوڑ دینا درست طرزِ عمل نہیں! سب کو پکڑیے یا سب کو چھوڑ دیجیے۔ جن کے اصلی وطن ملک سے باہر ہیں ان کا حساب کب لیا جائے گا اور کون لے گا؟
No comments:
Post a Comment