Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 02, 2024

قوم اور قومی پرچم


جشن تھا اور ایسا جشن کہ مغل عہد کو مات کر رہا تھا۔
جشن کیوں منایا جا رہا تھا؟ اس ضمن میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ اندازے ہی لگائے جا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی بادشاہ یا نواب کے بیٹے یا بیٹی کی شادی تھی یا کوئی جشنِ تاجپوشی تھا یا سلطنت کے ولی عہد کی پیدائش تھی یا کسی شہزادے کی سالگرہ تھی۔ یا وقت کے فرمانروا نے دشمن کو جنگ میں شکست دی تھی اور مفتوحہ علاقہ مملکت میں شامل ہوا تھا۔ یا تیل کے اتنے بڑے ذخائر ملے تھے کہ ایران‘ عرب اور عراق رشک کر رہے تھے۔ یا سونے کی کانیں دریافت ہوئی تھیں۔ جو بھی تھی‘ اتنے عظیم الشان جشن کے انعقاد کی یقینا کوئی بہت بڑی وجہ تھی۔ پورے ملک سے سیاستدان‘ عمائدین‘ عسکری شخصیات‘ منتخب ایوانوں کے معزز ارکان‘ سردار‘ جاگیردار‘ صنعتکار‘ غیر ملکی سفیر اور دوسری مملکتوں کے نمائندے تقریب میں مدعو تھے۔ خوشی کے اس موقع پر قیدی رہا کر دیے گئے تھے۔ سزائے موت کے مجرم چھوڑ دیے گئے تھے۔ تین دنوں پر مشتمل اس جشن کی کوریج کیلئے عالمی میڈیا کے نمائندے بھی بلائے گئے تھے۔
پہلے دن ملک کے حکمران نے تمام مہمانوں کیلئے ایک ایسی ضیافت کا اہتمام کیا تھا جس کی نظیر ماضی میں تھی نہ حال میں اور مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی ملے۔ خدام سینکڑوں کی تعداد میں کھانا پیش کرنے پر مامور تھے‘ کوئی مشروب ایسا نہ تھا جو موجود نہ ہو۔ گوشت کی اقسام لاتعداد تھیں۔ اونٹ‘ گائے‘ بکرے‘ مرغی‘ کبوتر‘ تیتر‘ بٹیر‘ چکور‘ بطخ‘ ٹرکی‘ ہرن اور خرگوش کا گوشت طرح طرح کی تراکیب کے ساتھ پکایا گیا تھا۔ پلاؤ اور کباب پکانے کیلئے سینٹرل ایشیا‘ ترکیہ اور ایران سے باورچی منگوائے گئے تھے۔ بار بی کیو کے انتظامات حیران کن تھے۔ سالم بکرے اور دنبے سینکڑوں کی تعداد میں روسٹ کیے گئے تھے۔ جو مہمان گوشت سے اجتناب کرتے تھے ان کیلئے باورچی جنوبی ہند سے آئے تھے۔ میتھی‘ سرسوں کا ساگ‘ پالک‘ مٹر‘ گوبھی‘ کریلا‘ لوبیا‘ آلو‘ کدو‘ ٹماٹر‘ چقندر‘ گاجر‘ مولی‘ توری‘ اروی اور دیگر سبزیاں اس ہنروری سے پکائی گئی تھیں کہ کھانے والے انگلیاں چاٹ رہے تھے۔ دالیں اس کے علاوہ تھیں۔ دوسا پکانے کیلئے باورچی چنائی‘ بنگلور اور دکن سے منگوائے گئے تھے۔ مچھلی اور جھینگے کینیڈا اور الاسکا سے خاص اس موقع کیلئے درآمد کیے گئے تھے۔ پامفرٹ‘ رہو‘ ٹراؤٹ‘ سالمن اور سمندری کھانوں کی دیگر اقسام حاضر تھیں۔ نہاری اور بریانی پکانے کیلئے ماہرین دہلی سے آئے تھے۔ پراٹھا‘ لُچی‘ قتلما‘ پوری‘ کچوری‘ حلیم‘ یخنی پیش کی جا رہی تھی۔ چینی‘ لبنانی اور اطالوی کھانے بھی پکائے گئے تھے۔ جہاں تک میٹھے کا تعلق تھا‘ مہمان تنوع دیکھ کر انگشت بدنداں تھے۔ سوئٹزرلینڈ اور فرانس سے کیک آئے تھے۔ پیسٹریاں اٹلی سے اُسی صبح پہنچی تھیں۔ پُڈنگ‘ کھیر‘ شاہی ٹکڑے‘ فرنچ ٹوسٹ‘ کھویا‘ قفلی‘ آئس کریم‘ سوجی کا حلوہ‘ مکھڈی حلوہ‘ سوہن حلوہ‘ ماش کی دال کا حلوہ‘ پیٹھا حلوہ‘ گاجر کا حلوہ‘ جام‘ جیلی‘ کسٹرڈ‘ مارمیلڈ‘ مربہ جات‘ چاکلیٹ اور عربی‘ ایرانی‘ پاکستانی مٹھائیوں کے ڈھیر لگے تھے۔ پھلوں میں موسمی‘ بے موسمی پھل سب موجود تھے۔ انجیر‘ انگور‘ انار‘ سیب‘ لوکاٹ‘ سٹرابیری‘ مالٹے‘ خوبانی‘ آڑو‘ لیچی‘ شہتوت‘ خربوزے‘ تربوز‘ ناشپاتی‘ آم‘ کیلا‘ انناس‘ چیکو‘ شریفا‘ پپیتا‘ بادام‘ پستہ‘ اخروٹ‘ چہار مغز‘ چلغوزے بڑے بڑے تھالوں میں ہر طرف رکھے گئے تھے۔ باوردی بَیرے کافی‘ چائے‘ گرین ٹی اور کشمیری چائے مع لوازمات جھک جھک کر پیش کر رہے تھے۔ اس بے مثال‘ عالیشان ضیافت کے بعد میزبان ملک کے حکمران نے ایک زبردست تقریر کی جو خطابت کا بہترین نمونہ تھی اور جس میں مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔
جشن کے دوسرے دن مہمانوں کیلئے کھیل تماشے اور مختلف علاقوں کے رقص دکھائے گئے تھے۔ خٹک ڈانس‘ لُڈی‘ بھنگڑا‘ لیوا ڈانس‘ پیکاک (مور) ڈانس اور ڈنڈیا ناچ کے مظاہرے ہوئے۔ موسیقار ملک ملک کے موجود تھے۔ مہمانوں کی تفریحِ طبع کیلئے دنیا بھر کے گیت گائے گئے۔ مہمانوں نے بھی رقص کیا۔ تیسرے دن جشن کا نقطۂ عروج تھا۔ دعوتِ عام تھی۔ ہر ضلع میں‘ ہر تحصیل میں سرکار کی طرف سے عوام کی دعوت کی گئی تھی۔ پورے ملک کے لوگوں نے اس بے نظیر و بے مثال دعوت میں شرکت کی۔ کوسوں تک کھانے کے ٹیبل لگے تھے۔ شاہراہوں پر دسترخوان بچھے تھے۔ عوام کی تواضع پلاؤ‘ قورمے اور مختلف قسم کی شیرینیوں سے کی گئی۔ آخری یعنی تیسرے روز‘ ڈھلتی شام کے وقت ملک کے حکمرانِ اعلیٰ نے تقریر کی جو ملک کے عوام کے علاوہ ساری دنیا میں انہماک سے سنی گئی۔ اس الوداعی خطاب میں میزبان حکمران نے جشن کا سبب بتایا۔ تقریر سے پہلے قومی ترانہ گایا گیا۔ پھر حکمرانِ اعلیٰ نے تقریر کی۔ تقریر کیا تھی‘ دنیا بھر کے لٹریچر کا مرقّع تھی۔ تقریر میں میر‘ غالب‘ اقبال‘ سعدی‘ رومی اور خسرو کے اشعار ہیروں کی طرح ٹانکے گئے تھے۔
حکمرانِ اعلیٰ نے جشن کا سبب یہ بتایا کہ معاشی میدان میں ملک نے قابلِ رشک ترقی کی ہے۔ ترقی کی تازہ ترین جھلک یہ تھی پاکستان کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 50 کروڑ ڈالر کا قرض موصول ہو چکا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض اس کے علاوہ تھا۔ سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارات اور جاپان نے بھی قرض دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ اتنی بڑی خوشی اور اتنی بے مثال کامیابی تھی کہ جشن تو بنتا تھا! حکمرانِ اعلیٰ نے قوم سے خطاب کے دوران یہ بھی بتایا کہ قرض ملنے کی خوشی میں تمام وفاقی اور صوبائی وزیروں‘ گورنروں اور بیورو کریسی کیلئے نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ یہ گاڑیاں مرسڈیز‘ بی ایم ڈبلیو اور دیگر شاہانہ برانڈز کی ہوں گی۔ وفاقی حکمرانِ اعلیٰ کے علاوہ تمام گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کیلئے نئے ہوائی جہاز بھی منگوائے جا رہے ہیں۔ اس پُرمسرت موقع پر منتخب ایوانوں کے معزز ارکان کی تنخواہیں اور سہولتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ حکمرانِ اعلیٰ نے اگلے تیس برسوں کے دوران قرض کے حصول کیلئے بنائے گئے منصوبے بھی قوم کے ساتھ شیئر کیے۔ اہداف میں وہ ممالک خاص طور پر شامل کیے گئے تھے جنہوں نے ابھی تک کوئی قرض نہیں دیا تھا۔ سفارتی سطح پر اس ناانصافی اور سردمہری پر احتجاج کیا جائے گا۔ قرض حاصل کرنے کیلئے مختلف ملکوں کے سیٹ بنائے گئے ہیں۔ مشرقِ بعید میں جن ملکوں نے ابھی تک قرض نہیں دیا ان میں کمبوڈیا‘ کوریا‘ ویتنام‘ فلپائن‘ برونائی‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں۔ قرض مانگنے کیلئے ان ملکوں میں وفود بھیجے جائیں گے۔ دوسرا گروپ یورپ کے ملکوں کا ہے۔ یورپ کے نسبتاً غریب ملکوں مثلاً ہنگری‘ رومانیہ‘ پولینڈ اور البانیہ سے قرض کے حصول کیلئے نئی کوششیں کی جائیں گی۔ رہے مغربی یورپ کے ممالک‘ جیسے جرمنی‘ فرانس‘ سوئٹزرلینڈ‘ہسپانیہ‘ پرتگال‘ بلجیم‘ نیدرلینڈز‘ لگسمبرگ اور برطانیہ‘ تو ان آسودہ حال ملکوں کا فرض ہے کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ قرض دیں اور آسان شرائط پر دیں۔ لتھوانیا‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ سویڈن‘ فن لینڈ اور آئس لینڈ پر مشتمل ایک الگ گروپ ہے۔ انہیں احساس دلایا جائے گا کہ پاکستان کو قرض نہ دے کر وہ اپنا نقصان کر رہے ہیں جبکہ عقلمند ممالک اس آفاقی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کو قرض دینے والے ملکوں کو دنیا اور آخرت‘ دونوں میں کامیابی نصیب ہو گی۔ خوش لباس بیورو کریٹس کا ایک ہوشیار اور چرب زبان طائفہ چاڈ‘ ملاوی‘ بوٹسوانا‘ نائجر‘ سینیگال‘ ایتھوپیا‘ صومالیہ اور مڈغاسکر کو روانہ کیا جائے گا۔ یہاں سے ملنے والا قرض خوشی کی تقریبات اور تفریح کیلئے بروئے کار لایا جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پہلے بھی بہت مدد کر رہے ہیں۔ تاہم ان سے گزارش کی جائے گی کہ امدادی رقوم میں اضافہ کریں۔ اس تاریخی خطاب کے آخر میں حکمرانِ اعلیٰ نے قوم کو ایک اور خوشی کی خبر دی۔ قومی پرچم میں چاند اور ستارے کے ساتھ کشکول کی تصویر کا اضافہ کیا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com