رفعت بھابی کا فون تھا۔ سخت گھبرائی ہوئی تھیں۔ بُلا رہی تھیں۔ کہنے لگیں ''بھائی فوراً آئیے اور اپنے دوست کو سمجھائیے۔ ان کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔
میں اور نصیر بچپن کے دوست تھے۔ لنگوٹیے یار! زندگی بھر کے سنگی! از حد بے تکلف! نصیر تھا ذرا سخت مزاج! بچوں پر سختی کرتا تھا۔ آئے دن اس کے گھر میں بحران پیدا ہوتا! جب رفعت بھابی کے والدین حیات تھے تب بھی انہوں نے والدین کو کبھی نہیں بتایا‘ مجھے ہی بتاتی تھیں۔ میں ہی جا کر حالات سدھارتا تھا۔ اب اس عمر میں حالات بہتر ہو گئے تھے۔ نصیر کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔ اسی لیے بھابی کی یہ فون کال میرے لیے غیرمتوقع تھی۔ سوچنے لگا کہ اب کیا چاند چڑھایا ہو گا اس پیرِ فرتوت نے! قصہ مختصر‘ پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ نصیر کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ وہ گھر کی بیرونی‘ یعنی لان والی دیوار کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ساتھ رفعت بھابی کھڑی تھیں اور روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو روہانسی ہو کر بولیں‘ بھائی انہیں روکیے! پورے گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے پھاوڑا لیا۔ پھر پوچھا کیا کر رہے ہو‘ دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ کہنے لگا ''میرا دماغ نہیں خراب۔ میں اُن کا دماغ ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل میں سول نا فرمانی کا آغاز کر رہا ہوں۔ اس گھر میں اُن کی فیکٹری کا سیمنٹ لگا ہوا ہے۔ اسے گرانا ہی گرانا ہے!‘‘ اس کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ کہنے لگا: آج تم ہنس لو مگر تم لوگ ایک دن روؤ گے۔ میں اسے بڑی مشکل سے گھر کے اندر لایا۔ رفعت بھابی کو چائے بنانے کا کہا۔
کافی دیر کے بعد نصیر اس پوزیشن میں ہوا کہ بات سُن سکے۔ میں اس سے مخاطب ہوا: ''تم کیا سمجھتے ہو کہ گھر گرا کر اور سیمنٹ والا احسان اتار کر تم بائیکاٹ میں کامیاب ہو جاؤگے؟ یہ پلاٹ بھی تو اُنہی کی ہاؤسنگ کالونی میں ہے۔ بائیکاٹ کرنا ہے تو گھر کے انہدام کے بعد یہ پلاٹ بھی بیچو۔ بجلی‘ گیس اور پانی بھی اسی کالونی کی وساطت سے مل رہے ہیں۔ ان کا بھی بائیکاٹ کرو۔ تمہارے پوتے آرمی پبلک سکول میں پڑھتے ہیں۔ انہیں بھی وہاں سے اٹھاؤ اور کسی اور سکول میں ڈالو۔ ایک بیٹا تمہارا میجر ہے‘ دوسرا کرنل‘ ان سے بھی استعفے دلواؤ۔ اور استعفوں سے پہلے ان کے لیے متبادل ملازمتوں کا بندو بست کرو۔ بہو تمہاری آرمی پبلک سکول میں پڑھاتی ہے‘ اسے حکم دو کل سے وہاں پڑھانا چھوڑ دے۔ بیٹی تمہاری عسکری بینک کی ایک بڑی برانچ کی چیف منیجر ہے۔ اسے فوراً کسی اور بینک میں لگواؤ۔ جب یہ سب کچھ کر چکو تو رفعت بھابی کو بھی ان کے میکے بھیج دو کیونکہ وہ ایک آرمی افسر کی صاحبزادی ہیں اور چونکہ بائیکاٹ تم نے مکمل کرنا ہے اور سنجیدگی سے کرنا ہے اس لیے ایک آرمی افسر کی صاحبزادی تمہارے گھر میں ہو تو سارا بائیکا ٹ مشکوک ہو جائے گا۔ اور ہاں‘ تم نے فوجی فرٹیلائزر اور دوسری ایسی کمپنیوں کے جو حصص خرید رکھے ہیں‘ وہ بھی فوراً بیچو تا کہ بائیکاٹ کی تکمیل کی طرف بڑھ سکو۔ تمہارے بیٹوں کو آرمی افسر کی حیثیت میں جو پلاٹ ملے ہیں وہ بھی فوراً واپس کراؤ‘‘۔
میرے بات ختم کرنے تک نصیر کا منہ لٹک چکا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ سرد موسم کے باوجود ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ رفعت بھابی نے اس گرم لوہے پر اپنی طرف سے بھی چوٹ لگا دی۔ کہنے لگیں ''میں بچوں کو لے کر بھائی کے گھر میں شفٹ ہو جاؤں گی۔ بچے بھی تو آخر ایک فوجی افسر کے نواسے ہیں۔ وہ اگر اس کے پاس رہے تو بائیکاٹ پر حرف آئے گا!! اور بیٹی کی منگنی ایک کپتان سے ہوئی ہے وہ بھی توڑنا پڑے گی‘‘۔
یہ ہے وہ صورتحال جو حقیقی سول نافرمانی کی صورت میں پیش آئے گی۔ تحریک انصاف کے بے شمار ارکان کے ساتھ یہی ہو گا۔ بائیکاٹ کا یہ مطلب نہیں کہ عسکری دلیا اور کسٹرڈ نہ استعمال کیا جائے۔ بائیکاٹ صرف اسی صورت میں مکمل بائیکاٹ کہلائے گا جب عساکر سے تعلق رکھنے والی ہر چیز‘ ہر رشتے اور ہر حوالے کا بائیکاٹ ہو گا۔ بائیکاٹ کا حکم دینے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑ ے گا۔ حکم دینے والے اور حکم کی تعمیل کرنے والے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ رہا یہ شوشہ کہ تارکینِ وطن باہر سے رقوم بھیجنا بند کر دیں‘ اس سے بھی خان یا شاہ محمود قریشی یا سلمان راجہ جیسے متمول حضرات کو یا بیرونِ ملک مقیم زلفی بخاری یا شہباز گل کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں جن خاندانوں کو باہر سے رقوم آتی ہیں ان کا کھانا پینا‘ علاج معالجہ متاثر ہو گا۔ بچوں کی فیسیں نہیں دے پائیں گے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کے بل نہیں دے پائیں گے۔ یاد رہے کہ تارکینِ وطن رقوم پاکستان کے سرکاری خزانے کو نہیں بھیجتے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔ تارکینِ وطن پاکستان میں بے شمار فلاحی منصوبے بھی چلا رہے ہیں۔ ابھی آسٹریلیا میں ایک صاحب سے ملا جو پاکستان میں کئی سکولوں کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں مستحق طلبہ اور طالبات کو تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ ایسے ہزاروں پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ کئی ہسپتال چل رہے ہیں جہاں غریب بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ باہر سے رقوم آنے کا سلسلہ بند ہوا تو یہ تمام فلاحی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔ اس کاکوئی اثر خان پر پڑے گا نہ ان کے گرد جمگھٹا لگائے امرا کا! یہ سب کچھ تو افراد کے حوالے سے تھا۔ جو نقصان ملک کو پہنچے گا وہ اس کے علاوہ ہے اور سول نافرمانی جتنی زیادہ ہو گی‘ ملک کا نقصان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
پسِ تحریر: جنوب کے شہر سے تعلق رکھنے والے ایک نام نہاد دانشور نے پاکستان نیوی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ افسوسناک ہے اور قابلِ صد مذمت! یہ مزاح کی پست ترین قسم تھی جسے پھکڑ پن کہنا چاہیے۔ جن لوگوں نے یہ شرمناک بات سن کر تالیاں پیٹیں ان کے ذوق کا بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہے! ہماری مسلح افواج کے جو افسر اور جوان مادرِ وطن کی خدمت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں‘ اسے شہادت کہتے ہیں۔ شہیدوں کا تمسخر اڑانا اس تھالی میں چھید کرنے کے مترادف ہے جس سے ایسے بد فہم کھاتے ہیں! یہ موصوف پاکستان اور پاکستان سے متعلق ہر شخصیت کے بارے میں ہمیشہ ذو معنی باتیں کرتے آئے ہیں۔ ادب کی کسی صنف سے تو ان کا تعلق نہیں‘ ہاں الیکٹرانک میڈیا پر عامیانہ اور مُبتذَل مکالمے ضرور پیش کرتے رہے ہیں۔ جب بھی طنز و مزاح لکھنے کی سعی کی‘ ہمیشہ Below the belt ہی ضرب لگائی۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر زرداری صاحب تک اور بے نظیر بھٹو سے لے کر شریف برادران تک‘ ہر سیاستدان کی تضحیک کی مگر لندن والا بھائی ان کی کند چھری سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ ہمیشہ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں اور پنجابیوں ہی کو اپنے غیرمعیاری مزاح کا نشانہ بنایا! نام نہاد اُردو کانفرنسیں جب لاہور میں منعقد ہوتی ہیں تو یہ صاحب لاہور میں بیٹھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہلِ سیاست کی بھد اُڑاتے ہیں اور اہلِ لاہور یہ سب سن کر خوب تالیاں بجاتے ہیں! اور یاد آیا کہ اردو کانفرنسوں کا اردو سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عامیانہ تھیٹر کا اردو سے تعلق ہے۔ اینکر اور اداکارائیں ان کانفرنسوں میں اہلِ قلم کی جگہ لے رہی ہیں! مجمع لگانے کے لیے بھی کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں! فاعتبروا یا اولی الابصار! اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!
No comments:
Post a Comment